دستورِقرآن یا دستور؟

imtiaz shakir

imtiaz shakir

مذہب اسلام نے اپنی تعلیمات اور ضابطہ حیات میں انصاف پر بہت زیادہ زور دیا ہے اگر ہمارے حکمران مذہب اسلام کی بنیادی تعلیمات ،قانون ،ضابطہ حیات اوراصلی آئین یعنی شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرعملدرآمد کو یقینی بنائیں تو معاشرے میں کوئی مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔آج ہمارے معاشرے میں وہ تمام برائیاں موجود ہیں۔جو ایک مسلم معاشرے میں نہیں ہونی چاہیں۔

میرے خیال میں دنیا کی ہر برائی نا انصافی سے شروع ہوتی ہے ۔اگر معاشرے سے ناانصافی کا خاتمہ کردیا جائے تو پھر دنیا میں کوئی جھگڑا باقی نہیں رہے گا ۔لیکن اس کام کے لیے ہمیں پوراپورااسلام میں داخل ہونا ہوگاکیونکہ کائنات میں اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا ضابطہ حیات موجود نہیں ہے ۔اگر مسلمان اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر مزید وقت ،طاقت اور قوت ضائع کیے بغیر اللہ تعالیٰ کے دین کو اپنی زندگیوں میں نافذ کریں۔دنیا میں ہرکام کے لیے حرکت ،طاقت اور قوت کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر کام کی انجام دہی محنت کہلاتی ہے ۔دنیا کی تمام ترخوب صورتی ،پائیداری محنت اورمشقت ہی کی بدولت ہے ۔محنت اس کائنات کا ایک ایسا اصول ہے جس پر عمل کی بنیاد پر انسان کو زندگی کے ہر شعبے میں ثمرات میسر آتے ہیں ۔خود خالق کائنات نے بھی بڑے واضح الفاظ میں فرما دیا ہے کہ انسان کو زندگی میں وہی کچھ ملے گا جس کے لیے وہ محنت کرے گا ۔اور انسان کو وہی کاٹنا پڑے گا جووہ اپنے ہاتھوں سے بوئے گا۔

طاقت اورقوت کا استعمال اگر غلط حکمت عملی کی نظر کردیا جائے تو کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ آج تک دنیا میں کبھی بھی کسی بھی قوم کو درست حکمت عملی پیرا اور بہتر سے بہتر دستور بنائے بغیر حاصل نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی ہوگی۔اب سوچنے اورسمجھنے کی بات یہ ہے کہ دستور جس کا دوسرا نام منشور بھی ہوسکتا ہے اس کے بنانے والوں کی حیثیت کیا ہے وہ دنیاو آخرت کے کن ،کن امور میں مہارت رکھتے ہیں ۔ بیشک انسان کواللہ تعالیٰ نے دنیا کی تمام مخلوقات سے اعلیٰ افضل بنا کر اشرف المخلوقت ہونے کا شرف بخشاء ہے ۔اس حقیقت میں بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پرکائنات کے وہ راز افشا ں کیے جو کائنات کی کسی اور مخلوق پر نہیں کیے۔اور سب سے بڑھ کرکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کوزندگی گزارنے کے لئے ایک ایسا دستور عطافرمایا ہے جس کا تا قیامت کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔

quran

quran

جی قارئین آپ بالکل ٹھیک سمجھے میرا اشارہ قرآن کریم کی طرف ہی ہے۔میرا ایمان ہے کہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی موجود گی میں انسان کو زندگی گزارنے کے لیے کسی دوسرے قانون کی بالکل کوئی ضرورت نہ تھی نہ ہے اور نہ ہی قیامت تک ہوگی ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قانون سے بہتر کوئی قانون ہوہی نہیں سکتا اور کون ہے جو خالق کائنات کے قانون کو بدل سکتا ہے ۔اللہ کے سوا کون ہے جو سورج کو مشرق کی بجائے مغرب سے نکال سکتا ہے ۔کون ہے وہ جو بیمار کو شفاء دیتا ہے ۔میرے خیال میں جو مسلمان ہو جسے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین ہواور جو قرآن کریم کو کلام الٰہی مانتا ہواسے کسی بھی دوسرے دستور کی ضرورت نہیں ۔لیکن بد قسمتی سے پچھلے 64.65سالوں سے جب پاکستان آزاد ہوا ہے تب سے آج تک ہمارے حکمران اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور بنانے اور بنا کر بدلنے میں مصروف ہیں ۔لیکن ان عقل کے اندھوں کو کون بتائے کہ مسلمانوں کے پاس کائنات کا سب سے اچھا ،سچا اورقابل عمل دستور قرآن کریم کی صورت میں موجود ہے۔اسی دستورکو نافذ کرنے کی ضرورت حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے محسوس کی اور مسلمانوں کے لئے نہ صرف ایک آزاد ریاست کاتصورپیش کیا بلکہ ملک خداداد کانقشہ بھی بتا دیا ۔

Justice

Justice

ہمارے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان کے آزاد ہوجانے کے بعد ہمارے لیے وہ دستور (قرآن کریم)نہ قابل قبول کیوں ہوگیا ؟جس پر عمل پیرا ہونے میں مشکلات کی وجہ سے مسلمانوں نے ایک آزاد ریاست کے لیے جدوجہد کی تھی ۔مجھے پورا یقین ہے کہ اگر برصغیر کے مسلمانوں کے پاس ان کا اپنا دستور (قرآن کریم ) موجود نہ ہوتا تو کبھی بھی پاکستان آزاد نہ ہوتا ۔حکمران65سال تو کیا قیامت تک بھی لگے رہیں پھر بھی کوئی دستور نہیں بنا سکتے نہ صرف پاکستان کے حکمران بلکہ اگر پوری دنیا کے لوگ بھی اکٹھے ہو کربھی بنانا چاہیں توبھی میرے اللہ کے قرآن کے مقابلے کا دستور نہیں بنا سکتے ۔قارئین اگر میں صرف حکمرانوں کو ہی تنقید کا نشانہ بنائوں،تو انصاف نہ ہوگا کیونکہ جیسی قوم ہوگی ویسے ہی حکمران ہوں گے ۔حدیث شریف میں ہے کہ موسیٰ علیہ سلام نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا (یااللہ جب آپ ناراض ہوتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا جب تم دیکھو ملک کی حکمرانی نااہل اور بدکار لوگوں کے ہاتھ ہے۔اور دولت بخیلوں اور چوروں ڈاکوئوں کے پاس ہے تو سمجھ لینا کہ میں (اللہ )اس قوم سے ناراض ہوں۔حضرت موسیٰ علیہ سلام نے پھر سوال کیا یا اللہ جب راضی ہوتے ہیں تو کیا ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم دیکھو کے ملک کے حکمران نیک ،ایمان دار ،انصاف پسنداور خوف خدا رکھنے والے ہیں تو سمجھ لو کہ میں (یعنی اللہ تعالیٰ)اس قوم پر بہت راضی ہوں۔

pakistan

pakistan

پاکستان کی آزادی ہم نے اس لیے حاصل کی تھی کہ ایک ایسا معاشرہ ترتیب دے سکیں جس میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا دین نافذ ہو لیکن بد قسمتی سے آج مسلمان اصلی دستور یعنی اللہ کے قرآن کو جس میں ہماری تمام مشکلات کاحل موجود ہے کو چھوڑ اپنے پاس سے نئے دستور بنانے میں اپنی طاقت اور قوت ضائع کررہے ہیں۔

ہم نے پاکستان لاالہ کی بنیاد اور اللہ تعالیٰ کے دین کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے حاصل کیا تھا جسے آج آزادی کے65 برس گزرنے کے بعد بھی ایک خواب ہی تصورکیاجا سکتاہے۔تحریر: امتیازعلی شاکر