تبت کے جلاوطن رہنماء اور بدھ مت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کا اصل نام تیزین گیاتسو ہے۔ وہ 6جولائی 1935ء کو تبت کے ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے اور صرف دو سال کی عمر میں ہی دلائی لامہ کے منصب پر فائز کر دیئے گئے۔ قائداعظم، شاعرِ مشرق کی مانند دلائی لامہ بھی ایک خطاب ہے جسے خدا کا مجسم اور اوتار خیال کیا جاتا ہے۔ دلائی لامہ فوت ہونے سے قبل ہی پیش گوئی کر دیتا ہے کہ آئندہ اُس کا جنم کس گھرانے میں ہوگا۔ اس عقیدے کے مطابق لامہ کی وفات کے تقریباً ڈیڑھ مہینہ بعد اس کی روح ایک نوزائیدہ بچے میں منتقل ہو جاتی ہے۔ ان ہدایات کے پیش نظر بدھ مت کے پیروکار بیان کردہ خاندان کے نوزائیدہ فرد کو دلائی لامہ کی مسند اقتدار پر بٹھا دیتے ہیں۔ دلائی لامہ کا خطاب سب سے پہلے منگول بادشاہ التان خان نے دیا تھابعد ازاں منگولوں نے پانچویں دلائی لامہ گوانگ لوپ سانگ گیاتسو کو تبت کے روحانی اور سیاسی رہنماء کے مرتبے پر فائز کیا۔ اس طرح موجودہ تیزین گیاتسو اس وقت بدھ ازم کی شاخ تبتی بدھ مت کے چودھویں دلائی لامہ ہیں۔
1950ء میں چین کی آزادی کے بعد جب تبت کو چین نے اپنا حصہ قرار دیا تو تبتی بدھ مت کے پیروکاروں نے اس کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا۔ 1959ء میں دلائی لامہ تیزین گیاتسو چوبیس سال کی عمر میں تبت میں چین کے خلاف ناکام بغاوت کے بعد فرار ہو کر بھارت پہنچ گئے تھے۔ اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے انہیں رہنے کیلئے دھرم شالہ کا پہاڑی علاقہ پیش کیا جہاں وہ نہ صرف خود مقیم ہیں بلکہ اس علاقہ میں 1960ء سے ”مرکزی تبتی انتظامیہ” نامی جلاوطن حکومت بھی تشکیل دے رکھی ہے۔ یہ انتظامیہ خود کو تبتی باشندوں کی نمائندہ حقیقی لیکن جلاوطن حکومت قرار دیتی ہے۔ دلائی لامہ اپنی جلاوطنی کا نصف سے زائد عرصہ بھارت میں گزار چکے ہیں اور اتنے طویل قیام کے بعد وہ خود کو بھارت کا فرزند تصور کرتے ہیں۔ اس دوران دلائی لامہ انسانی ذہنیت کے مختلف پہلوئوں سمیت بہت سے موضوعات پر درجنوں کتابیں بھی لکھ چکے ہیں جبکہ 1989ء میں دلائی لامہ کو امن کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔
دلائی لامہ چینی حکومت کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں اور اپنی زندگی میں تبت کو ایک آزاد ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ چین کا مؤقف ہے کہ دلائی لامہ بدھ بھکشو کے لباس میں ایک بھیڑیا ہے جو چین دشمن قوتوں کے ساتھ مل کر اسے توڑنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔چین تبت کے حالات کا ذمہ دار بھی دلائی لامہ کو ٹھہراتا ہے جبکہ بیجنگ کا یہ بھی کہنا ہے کہ دلائی لامہ امن کی بات کرکے دنیا کے سامنے فرشتہ سیرت اور صورت بنے ہوئے ہیں جو دھوکہ ہے۔ چین نے دلائی لامہ کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ بھی اُس وقت تک کھلا رکھا ہوا ہے جب تک وہ تبت کی آزادی کے نظریہ سے دستبردار ہو کر اپنی سرگرمیاں بند نہیں کرتے اور تبت/تائیون کو چین کا حصہ تسلیم نہیں کرتے۔ بھارت بظاہر تو دلائی لامہ کو امن، محبت، انسانیت اور برداشت کی علامت سمجھتا ہے لیکن اس کے پیچھے بھارت کی چال تبت کو چین سے آزاد کرانا ہے۔ امریکا، فرانس، آسٹریلیا اور دیگر بہت سے ممالک بھی دلائی لامہ سے رابطوں میں رہتے ہیں جبکہ چین کئی بار دُنیا کو خبردار کر چکا ہے کہ وہ تبت کے جلاوطن رہنماء کی میزبانی سے گریز کریں اور چین کے ساتھ تعلقات رکھنے والے تمام ممالک کو چاہئے کہ وہ دلائی لامہ کو اپنے ممالک کے دورے کی اجازت نہ دیں۔
دلائی لامہ میں آخر ایسی کیا بات ہے کہ چین کے مؤقف کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایک طرف بھارت نے اُسے اپنے ملک میں پناہ دے رکھی ہے جبکہ دوسری طرف بہت سے امریکی صدر چین کے احتجاج کو بروئے کار نہ لاتے ہوئے اُن سے ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں۔ عالمی لیڈروں سے ملاقات کے دوران دلائی لامہ تبت کے پیچیدہ مسئلہ کی یکسوئی میں مدد فراہم کرنے کی درخواست بھی کرتے رہتے ہیں۔ جارج ڈبلیو بش نے اپنے دورِ اقتدار میں نہ صرف دلائی لامہ کو رواداری اور امن کی بین الاقوامی علامت قرار دے کر ملاقات کی بلکہ ایک تقریب کے دوران امریکی کانگریس کا سب سے اہم شہری اعزاز کانگریسنل گولڈ میڈل بھی دیا۔ بارک اوبامہ بھی چین کی مخالفت کے باوجود دلائی لامہ سے دو بار ملاقات کر چکے ہیں جبکہ چین عالمی لیڈروں کی دلائی لامہ سے ملاقات کو عالمی اقدار کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔ اسی طرح فرانس بھی دلائی لامہ کو پیرس کی اعزازی شہریت دینے کا اعلان کر چکا ہے جبکہ بعض دیگر ممالک کے سربراہان بھی دلائی لامہ سے مسلسل رابطوں میں رہتے ہیں۔
مغرب کیلئے ہردلعزیز شخصیت دلائی لامہ کو چین میں غدار اور باغی سمجھا جاتا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین نے تو اپنی آزادی کے فوری بعد ہی تبت کو اپنا حصہ قرار دیا ہے جبکہ وہاں بغاوت کئی سال بعد یعنی انیس سو انسٹھ میں شروع ہوئی۔ دلائی لامہ نے فرار ہو کر جیسے ہی بھارت میں پناہ حاصل کی اس کے ساتھ ہی تبت میں بغاوت کی تحریک بھی زور پکڑتی گئی۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت نے دلائی لامہ کو اپنی سرزمین علیحدگی سے متعلق سرگرمیوں کیلئے استعمال ہونے دی ہوئی ہے۔ بھارت کی ہی سرپرستی میں تبت کی ایک جلاوطن حکومت شمالی ریاست ہماچل پردیش میں قائم ہے۔ چین کا یہ الزام ہے کہ تبت میں چین مخالف شورش کے پیچھے دلائی لامہ کا ہاتھ ہے جسے بھارت کی مکمل آشیرباد حاصل ہے لیکن دلائی لامہ اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ دلائی لامہ کو سیاسی پناہ اور اروناچیل پردیش کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کی وجہ سے چین بھارت کشیدگی میں کافی تنائو پیدا ہو چکا ہے جو مستقبل میں کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
تبت کے مسئلہ پر چین اور امریکا میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ تبت اس کا ایک لازمی حصہ ہے اور کسی دوسرے ملک کو اس کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے جبکہ امریکا کا مؤقف یہ ہے کہ دلائی لامہ تبت کے روحانی پیشوا اور حکمران ہیں جسے اس کے روحانی اور سیاسی مقام سے محروم کرکے دربدر کر دیا گیا ہے۔ دلائی لامہ نے بظاہر عالمی سیاست سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے لیکن چین اسے دُنیا کو دھوکہ دینے کیلئے ان کی ایک چال قرار دیتا ہے کیونکہ چین یہ سمجھتا ہے کہ دلائی لامہ کے سیاست چھوڑنے کے اعلان کے بعد بھی اگر تبت کے حالات پہلے جیسے رہے تو دُنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ تبت میں آزادی کی تحریک وہاں کے باشندوں کی اپنی ہے۔ اس طرح تبت کے مسئلے پر چین کا مؤقف کمزور پڑ جائے گا اور وہ بھارت اور مغرب کو تبت کے حالات خراب کرنے پر مورد الزام نہیں ٹھہرا سکے گا۔ چین جلاوطن پارلیمنٹ کو بھی ایک غیر قانونی تنظیم قرار دیتا ہے جبکہ بھارت کی بھرپور کوشش ہے کہ کسی طرح تبت کے مسئلے پر چین کا مؤقف کمزور پڑ جائے ورنہ متنازعہ ریاست اروناچل پردیش بھی اُس کے ہاتھ سے نکل سکتی ہے کیونکہ چین اپنے سیاحتی نقشوں میں اروناچل پردیش کو اپنے ملک کا حصہ اور کشمیر کو متنازعہ علاقہ ظاہر کر چکا ہے۔ بھارت یہ بھی سمجھتا ہے کہ اروناچل پردیش اُس کے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر خالصتان، ناگالینڈ، آسام اور سکّم میں بھی بھارت مخالف علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ جائیں گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دلائی لامہ اِس وقت چین کے خلاف ایک ایسا ہتھیار بن چکے ہیں جس کی ڈور بھارت اور مغرب کے ہاتھ میں ہے۔ ایک طرف بھارت اس کوشش میں ہے کہ تبت کو ایک آزاد ریاست کا درجہ مل جائے اور پھر وہ دلائی لامہ کو دی گئی مہمان نوازی کا سیاسی فائدہ اُٹھا کر متنازعہ ریاست اروناچل پردیش کو اپنا حصہ تسلیم کرانے میں کامیاب ہو سکے جبکہ دوسری طرف تبت کے ساتھ لگنے والی بھارتی سرحد بھی محفوظ ہو جائے گی اور چین کی طرف سے بارڈر پر فوجوں کا خطرہ بھی نہیں رہے گا۔ یاد رہے کہ بھارت اور چین کی سرحد ہزاروں کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ صرف متنازعہ ریاست اروناچل پردیش میں دونوں ممالک کی سرحد ایک ہزار کلومیٹر سے بھی طویل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دلائی لامہ کی بھارت میں موجودگی سے دونوں ممالک کے درمیان لفظوں کی جنگ ایک عرصے سے جاری ہے کیونکہ بھارت نے شروع دن سے اب تک تبت کو ایک آزاد خطے کی حیثیت سے تسلیم کیا ہوا ہے۔
Dalai Lama
دلائی لامہ بھارت کیلئے کتنی اہمیت کے حامل ہیں اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ تبت سے جلاوطنی اختیار کرکے دلائی لامہ کا جو بھی حامی بھارت آتا ہے اُسے پہلے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ کہیں وہ چین کیلئے ایجنٹ کا کردار تو ادا نہیں کر رہا۔ کرماپالاما تبت کے جلاوطن بدھ مت رہنمائوں میں تیسرے نمبر پر ہیں اور ان کا نام دلائی لامہ کے ممکنہ جانشین کے طور پر لیا جاتا رہا ہے۔ 1999ء میں تبت چھوڑ کر بھارت آنے والے کرما پالاما کے بارے میں بھارتی میڈیا نے یہ دعویٰ کیا تھاکہ وہ مبینہ طور پر چین کا ایجنٹ ہے۔ کرما پالا اس وقت دیگر تبتی رہنمائوں کے مرکز دھرم شالہ میں مقیم ہے۔ دلائی لامہ نے خود تو تبت سے جلاوطنی اختیار کرکے دھرم شالہ میں سکونت اختیار کرلی البتہ اُن کے بعد تبت کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا پنجن لاما ہے جو اب بھی تبت میں موجود ہے۔پنجن لامہ کو مہاتما بدھ کا مظہر اور دلائی لامہ کا مرشد تصور کیا جاتا ہے اور اُس کے ماتحت تمامہ لامہ ہوتے ہیں جو خانقاہوں میں رہتے ہیں۔بدھ ازم کی جو شاخ تبتی بدھ مت کہلاتی ہے اس کے پیروکار تبت کے ساتھ ساتھ بھارت، نیپال، بھوٹان، اروناچل پردیش، لداح اور سکّم میں بھی موجود ہیں جبکہ روس، شمالی چین اور منگولیا میں بھی اس مذہب کے ماننے والے موجود ہیں۔ بدھ مت ایک ایسا مذہب اور فلسفہ ہے جو مختلف روایات، عقائد اور طرزِ عمل کو محیط کیا ہوا ہے۔