دکھ کے لہر نے چھیڑا ہو گا
Posted on May 28, 2012 By Adeel Webmaster ناصر کاظمی
dukh ki lehar
دکھ کے لہر نے چھیڑا ہو گا
یاد نے کنکر پھینکا ہو گا
آج تو میرا دل کہتا ہے
تو اس وقت اکیلا ہو گا
میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے
اوروں کو خط لکھتا ہو گا
بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں
تو اب تھک کر سویا ہو گا
ریل کی گہری سیٹی سن کر
رات کا جنگل گونجا ہو گا
شہر کے خالی اسٹیشن پر
کوئی مسافر اترا ہو گا
آنگن میں پھر چڑیاں بولیں
تو اب سو کر اٹھا ہو گا
یادوں کی جلتی شبنم سے
پھول سا مکھڑا دھویا ہو گا
موتی جیسی شکل بنا کر
آئینے کو تکتا ہو گا
شام ہوئی اب تو بھی شاید
اپنے گھر کو لوٹا ہو گا
نیلی دھندلی خاموشی میں
تاروں کی دھن سنتا ہو گا
میرا ساتھی شام کا تارا
تجھ سے آنکھ ملاتا ہو گا
شام کے چلتے ہاتھ نے تجھ کو
میرا سلام تو بھیجا ہو گا
پیاسی کرلاتی کونجوں نے
میرا دکھ تو سنایا ہو گا
میں تو آج بہت رویا ہوں
تو بھی شاید رویا ہو گا
ناصر تیرا میت پرانا
تجھ کو یاد تو آتا ہو گا
ناصر کاظمی