اللہ تعالی نے انسانی کردار کے دونوں رُخ قرآن حکیم میں بیان فرما دیئے ہیں۔ایک رخ، بد کردار لوگوں کا اور دوسرا نیک کردار لوگوں کا۔ بدکردار لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی تعلیمات کو بھلا کر شیطان کو اپنا رب مانتے ہیں اور اس کی پیروی کرتے ہیں۔اس لیے آخرت میں شیطان اوروہ ایک دوسرے کے شریک ہوں گے اور ایک ساتھ جہنم میں جھونکے جائیں گے۔
پھر اللہ تعالیٰ متوجہ کرتا ہے، سمجھاتا ہے اور ڈراتا ہے کہ :”اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انہیں خود اپنا نفس بھلا دیا، یہی لوگ فاسق ہیں”(الحشر:١٩)۔بدکردار لوگوں کے مقابلے میں قرآن نیک صفت انسانوں اور ان کی اجتماعیت کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔کہا کہ:”البتہ جو لوگ تائب ہو جائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور اللہ کا دامن تھام لیں اور اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر لیں، ایسے لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں اور اللہ مومنوں کو ضرور اجر عظیم عطا فرمائے گا” (النسائ:١٤٦)۔اس آیت کریمہ میں نیک صفت لوگوں کی نشان دہی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے وہ کسی بھی لمحہ غفلت کا شکار نہیں ہوتے، وہ اللہ کو ہر معاملے میں یاد رکھتے ہیں۔ اس کی ہدایت کی روشنی میں اپنی زندگی کے روز و شب گزارتے ہیں۔ اگر ان سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے تو فوراً اللہ کی جانب پلٹتے ہیں ۔ توبہ و استغفار کرتے ہیں اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔اس لیے ایسے لوگوں سے اللہ رب العزت راضی ہوتا ہے اور ان کو اپنے انعمات سے نوازتا ہے۔
عملی نمونہ کی ضرورت :کسی بات پر عمل کرنے کے لیے پہلی ضرورت علم کی ہوتی ہے اور دوسری عمل کی۔علم کے ذرائع محفوظ شکل میں ہمارے پاس موجود ہیں اورعمل کرتے ہوئے افراد بھی اللہ کے فضل سے ہر زمانہ میں موجود رہے ہیں۔یہی وہ دونوں چیزیں ہیں جن کی ہر زمانے اور ہر مقام پر اشد ضرورت محسوس کی جاتی ہے اور اگر یہ دونوں چیزیں موجود ہوں تو انسان میں عمل کی تحریک پیدا ہو جاتی ہے۔ایک آئیڈیل انسان کی ہر محاذ پر ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ اگریہ عملی نمونہ موجود نہ ہو تو ہر انسان اپنی عقل کے مطابق عمل کے میدان میں اتر پڑتا ہے۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مختلف انسان مختلف راہیں طے کرتے ہوئے درمیان میں بہت سی غلطیوں کا شکار ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے نہ وہ خوداپنے لیے اور نہ ہی دوسروں کے لیے مثالی کردار بن پاتے ہیں۔اس لیے لازمی ہوا کہ کوئی ہستی ایسی ضرور ہونی چاہیے جوعلم اور عمل دونوں میں اپنی مخصوص حیثیت رکھتی ہو۔اس ضرورت کے پیش نظر انسانوں کو بنانے والے اللہ نے خود ہی اس کا مکمل انتظام بھی فرما دیا ہے۔ اللہ نے نبیوں اور رسولوں کے سلسلے کو جاری کیا اور ان کو راست علم سے نوازا اور عمل کی توفیق دی تاکہ یہ شخصیات دنیا کے لیے نمونہ بن سکیں۔
نبیوں کے سلسلے کو ختم کرتے ہوئے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا میں بھیجا جو قیامت تک انسانوں کے لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر محاظ پر مثال اور نمونہ رہیں گے۔ کہا کہ :”مومنو! اللہ کا ارشاد مانو اور پیغمبر کی فرمانبرداری کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ ہونے دو”(محمد:٣٣)۔یہاں پہلی بات اللہ کے واضح احکامات پر عمل کرنا ہے اور دوسری بات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ ہے۔ان دونوں احکامات پر عمل ک نتیجہ میںہم کسی بھی طرح کے نقصان میں مبتلا نہیں ہوں گے۔اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہوگا اور آخرت میں کامیابی و سرخروعی ہمارا مقد رہوگی۔
Prophet Muhammad PBUH
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحیثیت نمونہ :انبیا کرام اور پیغمبران اسلام کو دنیا میں بھیجنے کا مقصد تکمیل اخلاق تھا۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پہلا مقصد ہے کہ انسان صرف اللہ کی بندگی کرے اوردوسرا یہ کے وہ اعلیٰ اخلاق پر فائز ہوجائے تا کہ وہ اپنے رب کو جانے،مانے،تصدیق کرے اور عمل کرتے ہوئے دنیا میں امن و سکون برقرار رکھے اور اگرکسی مقام پر ایسا نہ ہو تو اِن مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی جائے۔یہ جدوجہد انفرادی اور اجتماعی دونوں محاذ پرہونی چاہیے اوراس سلسلے میں عملی نمونہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھنا چاہئے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے کہ : اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو”۔ اس آیت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بلند اخلاق اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ نہایت صحیح الدماغ اور سلیم الفطرت شخصیت تھی کہ جس کا ذہن اور مزاج غایت درجہ متوازن تھا۔لہذا ایک متوازن ذہن کی پیروی کرنا ہمارے لیے بہت آسان ہوجاتا ہے اور ایسے ہی انسان کی پیروی بھی کرنی چاہیے جس کا دماغ صحیح ہو، جس کی فطرت صالح ہو اور جس کا مزاج معتدل ہو۔ہمارے لیے وہ حضرات بھی قابل نمونہ ہیں جن کو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شرف ملااور ہمارے وہ علماء اور امراء بھی قابل نمونہ ہیں جو اسلام پر عمل پیرا رہنے والے ہیں۔ کیونکہ یہ تمام لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر خود عمل پیرا رہنے والے ہوں گے لہذا ہمارے لیے ان کی پیروی کرنا آسان ہو جائے گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی بہترین تعریف حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اِس قول میں فرمائی ہے کہ :کان خلقہ القرأٰن۔”قرآن آپ کا اخلاق تھا”۔ (امام احمد، مسلم، ابودائود، نَسائی، ابن ماجہ، دارمی ) اور اسی بات کو اللہ تعالیٰ اس طرح ارشاد فرماتا ہے کہ اور اخلاق تمہارے بہت(عالی) ہیں۔ معنی یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دنیا کے سامنے محض قرآن کی تعلیم ہی پیش نہیں کی تھی بلکہ خود اس کا مجسّم نمونہ بن کر دکھا دیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہر اس شخص کے لیے نمونہ ہے جو اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر پہنچنے کی خواہش رکھتا ہو۔
آپٔ کی گھریلو زندگی : رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے اس لحاظ سے بھی قابل اہم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے قائد،رہنما،رہبراور نبی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہماری اجتماعی زندگی کے لیے بھی بہت اہم ہے۔جب ہم اس لحاظ سے آپ کی زندگی کا مطالع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی گھریلو زندگی میں امہات المونین کے ساتھ حسن سلوک، ان کی تربیت ،ان سے محبت اور ہمدردی کا رویہ اختیار کرتے،بچوں سے بے انتہا محبت کرتے اور فرماتے کہ “بچے جنت کے پھول ہیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ” حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کے علاوہ کبھی کسی کو نہیں مارا۔نہ کبھی کسی خادم کو نہ کسی عورت کو(بیوی یا باندی وغیرہ)کو”۔یہ اس طرح کے بے شمار تذکرے ہمیں سیرت اور احادیث کی کتابوں میں مل جائیں گی۔ جن سے ہمیں راہنمائی بھی ملتی ہے۔
حوصلہ بھی اور شوق بھی ۔ہماری اجتماعی زندگی کا وہ حصہ جس کوہم گھر کہتے ہیں،جہاں ماں ،باپ، بیوی بچے، بھائی بہن اور دیگر رشتہ دار ہوا کرتے ہیں ۔ ان کے ساتھ کس طرح سے پیش آئیں اور ان کے ساتھ کون سے رویہ اور طریقہ کو اختیار کریں اس کی مکمل وضاحت ایک طرف اللہ تعالی خود اپنے قرآنِ احکیم میں فرماتا ہے اور دوسری جانب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ ہمارے لیے راہنمائی اور راہبری کا کام کرتا ہے۔ ہمیں اس جانب غفلت نہ برتتے ہوئے ،شعوری اور سنجیدہ زندگی گزارنی چاہیے تا کہ جب ہم قیامت میں اللہ کے سامنے حاضر ہوں تو کوئی اٹھنے والا ہاتھ ایسا نہ ہو جو ہماری جانب ہماری کوتاہیوں اور غلطیوں کا اشارہ کرے اور اللہ کا غضب ہم پر نازل ہو۔ہمیں ہر لمحہ اُس بڑے دن سے ڈرتے رہنا چاہیے،یہی ہماری کامیابی کا لازمی تقاضہ ہے۔
Prophet Muhammad PBUH
آپٔ کی معاشرتی زندگی :ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی، اور نہ ہی کبھی کسی کے حق میں بد دعا کی ۔بہت سے واقعات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سے وابستہ ہیں جہاں لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیفیں پہنچائیں لیکن آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ ان لوگوں کو معاف کر دیا اور یہی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی دی۔پڑوسیوں کے حقوق کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتی ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “جبریلِ ہمیشہ مجھ کو ہمسایہ(پڑوسی)کا حق ادا کرنے کی ہدایت کرتے رہتے تھے یہاں تک کہ میں نے یہ خیال قائم کر لیا کہ جبریلِ امین پڑوسی کو وارث قرار دیں گے”(یعنی ایک ہمسایہ کو دوسرے ہمسایہ کا وارث بنا دیں گے)(بخاری و مسلم)۔ اسی طرح لوگوں کی عزت احترام کے سلسلے میں فرمایا:” کبیرہ گناہوں میں سے یہ بھی ہے کہ کوئی اپنے والدین کو گالی دے۔
صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا ہاں جب یہ کسی کے باپ کو گالی دیاتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور یہ کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے”(جامع ترمذی)۔لوگوں سے ہمدردی کے تعلق سے اللہ کے رسول فرماتے ہیں :”جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ اس پر رحم نہیں کرتا”(جامع ترمذی)۔اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتا ہے:”نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر ، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰة دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راستباز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں”(البقرہ:١٧٧)۔ اس آیت کریمہ میں ایک مہذب معاشرہ کی مکمل تصویر پیش کردی گئی ہے۔بتایا گیا ہے کہ معاشرہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر کون سے کام لازم ہیں اور کس طرح وہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے لوگوں کے لیے خیر ثابت ہوتے ہیں۔ یہاں اللہ کے بندوں کے حقوق اداکرنے کی بات ہے،اللہ کے حقوق یعنی عبادت کا تذکرہ ہے،لوگوں کے ساتھ معاملات اور معاہدوں کو بھی بہ خوبی ادا کرنے کی بات ہے۔اس طرح کی بے شمار ہدایات واحکامات قرآن و حدیث میں موجود ہیں ان احکامات پر عمل کرنے کے نتیجہ میں صالح معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔
مثالی کردار کے اختیار کا نتیجہ:یہ بات عقل سے بعید تر ہے کہ جس چیز کی ہم خواہش کریں اس کو اپنی ذات کے لیے پسند نہ کریں۔ اسلامی بنیادوں پر استوار معاشرہ کی خواہش جب ہم اپنے دل میں رکھتے ہیں تو اس کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اختیار کرنے کے لیے بھی ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ حالات سازگارنہ ہوں تواس کے لیے جدوجہد کرنا چاہیے۔اس خواہش کو رکھنے والے،اس پر عمل کرنے والے اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والے،یہ تمام ہی وہ لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوا اور اس نے دنیا ہی میں ایسے لوگوں کو جنت کی بشارت ان الفاظ کے ساتھ دے دی کہ: “اور یہ جنت جس کے تم مالک کر دیے گئے ہو تمہارے اعمال کا صلہ ہے”(الزخرف:٧٢)۔ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ خوش ہوگا جو دنیا میں اخلاق کے اعلیٰ معیار پر تھے ساتھ ہی وہ اہل ایمان تھے اور جنھوں نے مومن و مسلم بندے بن کر زندگی گزاری تو ایسے لوگوں کے لیے بشارت ہے اور یہی لوگ جنت کے وارث ہوں گے۔
اللہ تعالی کہتا ہے کہ زندگی میں انجام دیا جانے والا ہر چھوٹا اور بڑا عمل جب کہ تم نے کرنے کا ارادہ کیا ،قبل اُس کے،اس بڑے دن کی ہولناکی اور سختی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے جس دن نہ کوئی باپ ہوگا اور نہ کوئی ماں جو اپنی مامتاکو یاد رکھ سکے گی۔وہ دن بڑا ہی زبردست ہوگا جب کہ دیدہ پھٹے جا رہے ہوں گے۔ جو کچھ یہ انسان دنیا سے کما کر لے گیا وہی اس کا کل سرمایہ حیات ہوگابس وہی اس کے کام آئے گا۔اس بات کو بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ اعمال کا دارومدار عقیدہ کی پختگی اور اخلاق کی برتری پر منحصر ہے۔اس لیے ہمارے سارے اعمال اُس دن اِن ہی دو چیزوں کے تحت پیش کیے جائیں گے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ”اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم اللہ کے حضور میں لوٹ کر جائو گے اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا۔ اور کسی کا کچھ نقصان نہ ہوگا”(البقرة:٢٨١)۔ وہاں جو کچھ ہم کما کر لے جائیںگے اس کا پورا پورا بدلہ مل جائے گاچاہے وہ اعمال صالحہ ہوں یا پھر اعمالِ رذیلہ۔ اللہ کی عدالت میںذرہ برابر بھی کمی بیشی نہیں ہوگی۔قرآن کہتا ہے: “انہیں المناک عذابوں کی خوشخبری سنا دو۔
ہاں ایمان والوں اور نیک اعمال والوں کے بے شمار اور نہ ختم ہونے والا اجر ہے”(الانشقاق:٢٤-٢٥)۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اخلاق و کردار میں سدھار پیدا کریں اور دنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل کرنے والوں میں شمار ہو جائیں۔اس کے لیے ہمیں ایک طرف نماز سے مدد لینی ہوگی اور دوسری طرف صبر سے۔نماز ہمارے اندر مستقل مزاجی پیدا کرنے اور فحش اور معصیت کے کاموں سے بچنے میں مدد کرے گی اور صبر ہمارے اندر منزلِ مقصود تک پہنچنے میں تعاون کرے گا۔ اور ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں گے(انشااللہ)۔