اسلام آباد (جیوڈیسک) ریکوڈک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ بی ایچ پی اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ اس کے ساتھ معاہدہ کیا جاتا۔
تین رکنی بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ معاہدہ کرنے والی کمپنیوں کو کچھ رعایتیں دی گئیں تب ان کے ساتھ معاہدہ عمل میں آیا۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کیا معاہدہ کرنے سے قبل آئین اور قانون کو مدنظر رکھا گیا۔ انہوں نے استفسار کیا کہ بلوچستان میں جتنی بھی مائننگ ہوئی کیا اس سے بلوچ عوام کو کوئی فائدہ ہوا۔
بی ایچ پی کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ ریکوڈک معاہدہ کرتے ہوئے کسی غیر قانونی طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا گیا۔ تمام سہولیات طے شدہ معاہدے کے مطابق ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے تمام معاملات ملکی قوانین کے تحت طے کرنے ہیں۔ اس کا کسی پر کیا اثر پڑتا ہے۔ انہیں کوئی سروکار نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک گورنر نے مارشل لا کے دوران انکار کیا۔
دوسرے نے منظوری دے دی اس معاملے کو بھی دیکھنا ہے کہ منظوری کیسے دی گئی۔ بی ایچ پی کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ سونے اور تانبے کی تلاش انکی کمپنی نے کی۔ مائننگ بھی انہیں ملنی چاہیے۔ چار برس میں تین ہزار کلو میٹر کھدائی کی گئی۔ عبدالحفیظ پیرزادہ نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔ ٹیتھیان کے وکیل خالد انور کل دلائل دیں گے۔