ہم میں سے کوئی بھی شخص ‘ افراد ‘ گروہ ‘ ایسا نہیں جو برسرِ عام اتحاد کی باتیں نہ کرتا ہو تو پھر اتحاد قائم کیوں نہیں ہوتا؟ مشاہدے میں آیا ہے کہ علماء ‘ ذاکرین ‘ سیاستدان ‘ این جی اوز ‘ اور اسی طرح کے دیگر شعبے میٹنگوں میں یا مشترکہ یا مخلوط مجمع والے جلسوں میں اتحاد کی شان میں اپنے بیانات دیتے رہتے ہیں ۔ مگر اتحاد کی شان میں اس رطب اللسان بیان سے بھی اتحاد قائم کیوں نہیں ہوتا ہے ؟ جب کہ اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حالات خراب کرنے والے عناصر شہر کی فضا کو مکدر کرنے کے در پے رہتے ہیں اب یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا کرمِ خاص اور کچھ مخلصین کی کوششوں کا نتیجہ ہی ہوتا ہے کہ حکام حالات پر بہت جلد قابو پالیتے ہیں اور معاملہ نہ زیادہ پھیلتا ہے اور نہ زیادہ بگڑتی ہے۔
خدا خدا کرکے اور عوام الناس کی دعائوں کے طفیل عاشورہ محرم خیر و خوبی سے گذر گیا۔ اس طرح کی کامیابی اگر دوسرے تمام مسائل پر بھی دکھائی جائے تو قوی امید ہے کہ یہ شہر اور یہ ملک امن و امان کا گہوراہ بن سکتا ہے۔انسانی جانوں کا احترام کرتے ہوئے ان تمام برائیوں کا بھی خاتمہ کرنے کی سعی کی جائے تاکہ امن و امان قائم ہو سکے جس طرح محرم الحرام اور ربیع الاوّل میں سیکوریٹی کا فول پروف انتظام کیا جاتا ہے اسی طرح دوسرے مواقعوں پر بھی یہ سلسلہ قائم کرکے چین کی بانسری بجائی جا سکتی ہے۔
اتحاد بین المسلمین واقعی مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ ہے اور مسلمان واقعی ایک امت واحد بن کر سر اٹھا کر عزت کے ساتھ دنیا میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ہر طرح کی تفرقہ بازی ، فرقہ بندی اور مسلک نوازی سے اوپر آکر قرآنِ مجید کو فی الواقع سمجھنے اور اس کو سمجھ کر عمل کرنے کا کام کریں تو کوئی قباحت نہیں کہ ہم ایک نہ ہو سکیں۔ ورنہ محض زبانی جمع خرچ سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ۔مولانا محمد تقی عثمانی فرماتے ہیں کہ قرآنِ کریم نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا انعام ہے کہ دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی دولت اور نعمت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہ وہ نسخۂ شفا ہے جس کی تلاوت کرنا، سیکھنا، سکھانا، سننا ، سنانا، جس کی نشر و اشاعت کرنا دنیا و آخرت کے لئے باغ سعادت ہے۔ (علوم القرآن)
مسلمانوں کی پسماندگی کے وجوہ میں بقول ایک مہارِ تعلیم پانچ عوامل زر ، نظر، خبر، صبر اور مقدر کا عمل دخل زیادہ ہے۔ ” زر کے معنی مادی وسائل کے ہیں شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ ” ہرچہ باشی باش اندک زرد ارباش ” کیسی زندگی چاہے بسر کرو لیکن تھوڑی سی پونجی بھی ساتھ رکھو۔ خالی جیب پریشانی کو دعوت دیتی ہے۔” ”نظر ” سے مراد ہوش و خرد، غور و فکر اور دل و دماغ کی بصیرت ہے جس کی روشنی میں زندگی کے مراحل بآسانی طے ہو سکتے ہیں۔ تیسری شے ” خبر ” ہے یعنی حالاتِ حاضرہ ، رفتارِ زمانہ اور وقت کے تقاضوں کا بروقت و صحیح احساس کرکے اچھے اور بُرے کی پہنچا ن کرنا ہے۔ اب آتے ہیں چوتھے نمبر پر ” صبر ” کی طرف کہ ہر محنت و کوشش کے بعد مکمل برداشت اور استقامت کے ساتھ نتیجہ کا انتظار کرتے ہوئے عملِ پیہم میں مصروف رہنا۔ ”مقدر” یعنی ان چاروں پہلوئوں پر توجہ دینے اور اس پر خوش دلی سے عمل پیرا ہونے کے باوجود اگر آپ کو ناکامی ہو تو اسے مشیتِ ایزدی تصور کرنا چاہیئے ۔ جیسا کہ تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بظاہر سولی، ارسطو کو زہر کا پیالہ، نپولین کو قید، سراج الدولہ، ٹیپو سلطان اور بے شمار مفکرین کی شہادت کے باوجود انگریزوں کے اقتدار سے ملک کی حفاظت میں ناکامی سب قضا و قدر کے معاملات اور مقدر کے کھیل تھے۔
Muslim Unities
ویسے تو اتحاد بین المسلمین آج ہی کا نہیں گذشتہ کئی صدیوں کا اہم مسئلہ ہے۔ اس مسئلے پر دردِ دل رکھنے والے حضرات پہلے بھی بہت کچھ کہتے اور لکھتے لکھاتے رہے ہیں اور آج بھی اس کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام کی ترقی کے لئے فرقہ واریت کا خاتمہ بے حد ضروری ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں بالخصوص پاکستان کے عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کیلئے ان میں ہر طرح کی فرقہ واریت اور عصبیت کے خاتمہ اور مکمل اتحاد کی اشد ضرور ہے۔ آج دنیا بھر کے مسلمان متحد ہونے کی بجائے منتشر اور آپس میں برسرِ پیکار ہوکر خوار ہو رہے ہیں۔ بڑی طاقتیں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان میں مذہبی عصبیت اور فرقہ واریت پھیلا رہی ہیں اس پر فوری پابندی لگا کر ایسی سرگرمیوں میں ملوث لوگوں پر پابندی عائد کرکے اس کا سدِّباب کرنا بھی از حد ضروری ہے۔اتحاد وقت کا اہم مسئلہ اور نہایت حساس موضوع ہے ۔
لیکن کوئی ایسا موضوع نہیں جس پر قابو نہ پایا جا سکے۔ الحمد للہ ! ہماری فوج، ہماری سیکوریٹی ایجنسیاں اس قابل ہیں کہ وہ ان سب ہتھکنڈوں پر موثر طریقے سے قابو پا سکتے ہیں ۔ مقامِ شکر بھی اس بات پر ہے کہ کراچی سمیت ملک بھر کے ہر شعبۂ ہائے زندگی کے لوگ پوری درد مندی اور جگر کاوی کے ساتھ اس مسئلے کو اٹھاتے رہتے ہیں اور اس کے سدِّباب کی کوشش بھی اپنے تئیں کرتے رہتے ہیں مگر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کہیں کچھ خرابیاں ہیں جو یہ کارگر آواز دب کر رہ جاتی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ: ترجمہ: ” تم ہی غالب رہو گے اگر تم سچے مومن ہو ۔” (آلِ عمران : ١٣٩) گویا برتری اور غلبہ حاصل کرنا، جو انسان کی ایک فطری تمنا کہی جا سکتی ہے، اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب امت مسلمہ کے تمام افراد میں ایسا اتحاد قائم ہو جائے جو انہیں ایک دوسرے سے مربوط رکھے، ایک دوسرے کا جانثار اور ہمدرد بنا دے، اور ایسی شیرازہ بندی قائم کر دے کہ بڑی سے بڑی طاقت بھی ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے اور وہ کامیابی کے ساتھ دینِ اسلام کو تمام دوسرے طریقۂ ہائے زندگی اور افکار و اعمال پر غالب کر سکیں۔
آجکل پاکستان کے ہر کونے سے، ہر سمت سے، ہر گوشے سے اتفاق اور باہمی اتحاد کی آواز بلند ہوتی ہے۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمید کا یہ ارشاد کہ: وَاعْتَصِمُوْ ا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ”ہر مسلمان کو دعوت دیتا ہے کہ اتحاد بین المسلمین یقینا ضروری ہے اور وقت کی اہم ضرورت بھی۔ نفاق، انتشار، باہمی آویزش اور چپقلش ہر قوم کے وجود کے لئے زہرِ قاتل ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۂ آلِ عمران ، آیت نمبر ١٠٣ میں فرمایا: ترجمہ: ” تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو اور افتراق و انتشار پیدا نہ ہونے دو۔” تو پھر دیکھئے کہ اس اتحاد کی ضرورت اللہ تعالیٰ سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ اس کے بغیر امتِ مسلمہ دنیا کی دوسری قوموں کی طرح نااتفاقی کا شکار ہوکر ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے دَر پہ ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم سب اتحاد کا پیغام دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچائیں، اور دینِ اسلام کو غالب بنانے کی کوشش کریں ۔ یہ فرض کمزور اور منتشر قوم ادا نہیں کر سکتی اس لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم خود اتحاد کے تسبیح میں خود کو پِروئیں اور پھر مل کر ایسا اتحاد قائم کریں جو پوری امت کو ناقابلِ تسخیر بنا دے ۔ہمیں اگر بحیثیت قوم کے ترقی کرنی ہے تو ہمیں اپنے اندر اور اپنی صفوں میں وہ اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس پر عمل کرتے ہوئے ہم سب اتحاد کے ایک غلاف میں سما جائیں تاکہ ہمارا یہ ملک بھی تا قیامت دنیا کے نقشے پر جگمگاتا رہے اور اس کے باسی بھی سدا مسکراتے رہیں۔(آمین)