اسلام آباد(جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے اوگرا سے سی این جی اسٹیشنوں کا مکمل ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سی این جی کی قیمت بڑھانے کی استدعا مسترد کردی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ کاروبار کا اصول ہے جسے منافع بخش لگے کرے ورنہ چھوڑ دے۔
سپریم کورٹ میں سی این جی کی قیمتوں سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین نے کی۔ اس موقع پر عدالت میں سی این جی ایسوسی ایشن کے نمائندوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اوگرا نے قیمتوں سے متعلق نیا فارمولا بھی پیش کیا جس کا عدالت کل جائزہ لے گی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس میں کہا کہ سی این جی ایک ایسا مافیا ہے جس نے سرکار کو جتنا کہا اتنا ہی فکس کر دیا گیا۔ لائیسنس کے اجرا کا ٹھوس طریقہ کار ہونا چاہئے یہ نہیں کہ نام بدلا اور نیا لائسنس دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اوگرا عدالت کے چار سوالوں کے جواب دے۔ بتایا جائے کہ اوگرا کو سی این جی لائسنس کے لیے کتنی درخواستیں موصول ہوئیں؟ کتنے لائسنس جاری ہوئے؟ کتنے سی این جی اسٹیشن لگے اور کتنے افراد نے لائسنس لے کر جیبوں میں ڈال لیے اور اسٹیشنز نہیں لگائے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ ملک کا ایک بڑا طبقہ سی این جی کے مسئلے کے باعث متاثر ہو رہا ہے۔
حکومت اس معاملے پر توجہ دے۔ اس کیس میں ہمیں پہلے لائسنسوں کے بارے میں جواب چاہیے۔ سی این جی ایسوسی ایشن کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ کا کہنا تھا کہ سی این جی کی قیمتیں مقرر کرنا عدالتوں کا کام نہیں۔ تین ہزار سے زائد اسٹیشنز بند پڑے ہیں۔ عدالت نے سی این جی ایسوسی ایشن کی جانب سے قیمتیں بڑھانے کی استدعا مسترد کردی۔ اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ چاہے سارے اسٹیشن بند ہو جائیں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ ہم نے صرف قانون کو دیکھنا ہے۔ کاروبار کا اصول ہے جس کو منافع بخش لگے کرے ورنہ چھوڑ دے کیس کی مزید سماعت کل ہو گی۔ سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سی این جی ایسوسی ایشن کے چیئرمین غیاث پراچہ نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل کریں گے تاہم پہلے یہ طے کیا جائے کہ اوگرا قیمتوں کو ریگولیٹ کرسکتا ہے یا نہیں۔