کوئٹہ (جیوڈیسک) سانحہ علمدار روڈ کیخلاف احتجاجی دھرنا چار روز بعد مطالبات کی منظوری کے بعد ختم ہو گیا۔ لواحقین نے اپنے پیاروں کی تدفین شروع کر دی۔ گورنر راج کے پہلے دن معمالات زندگی بھی معمول پر آنا شروع ہو گئے۔ دس جنوری کوئٹہ علمدار روڈ پر خود کش اور ریمونٹ کنٹرول بم دھماکوں میں ایک سو بیس افراد جاں بحق ہوئے ۔ لواحقین نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے 87 میتوں کو علمدار روڈ پر رکھ کر دھرنا دیا۔ احتجاج 68 گھنٹے جاری رہا۔مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ بلوچستان میں گورنر راج نافذ اور فوج طلب کی جائے۔
گزشتہ روز وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کوئٹہ میں 12 گھنٹے کے طویل مذاکرات کئے اور رات دو بجے گورنر راج کے نفاذ کا اعلان کیا۔ اعلان کے بعد ہزارہ کمیونٹی نے بھی احتجاج ختم کر کے ہزارہ قبرستان میں اپنے پیاروں کی تدفین شروع کر دی۔ علمدار روڈ پر احتجاج اور کامیاب دھرنے کے اختتام پر ملک بھر میں جاری احتجاج اور دھرنے بھی ختم ہوئے اور کوئٹہ آئی جی آفس کے سامنے بھوک ہرتالی کیمپ بھی اپنے انجام کو پہنچا۔
اس موقع پر ہزارہ کیمونٹی کی تنظیموں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں رہنماوں کا کہنا تھا کہ نااہل حکمران کا اقتدار گورنر راج کے ساتھ ہی اپنی موت آپ دم توڑ گیا۔
صدر آصف علی زرداری کے گورنر راج کی سمری پر دستخط کے بعد گورنر بلوچستان چیف ایگزیکٹو بن گئے ہیں۔ صوبے میں آج گورنر راج کے پہلے روز کوئٹہ شہر میں معاملات زندگی بحال ہونا شروع ہو گئے ہیں اور چار روز سے سوگ میں ڈوبے شہر میں زندگی کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔