ایک امریکی تحقیق کے مطابق چین میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو باقاعدگی سے سنسر شپ کا سامنا ہے۔ نیو سائنٹسٹ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹس پر ہونے والی بات چیت پر چین کی پالیسی کا بغور جائزہ لیا گیا۔
چین میں ٹوئٹر کی طرز پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ سِنا ویبو سروس پر چھ کروڑ پیغامات کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ کن موضوعات کو سنسرشپ کا سامنا ہے۔
اس میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ جن علاقوں میں سیاسی عدم استحکام ہے وہاں پر سنسر شپ کی پالیسی مزید سخت ہے۔
لینگوئج ٹیکنالوجی انسٹیوٹ کے پروفیسرز کی جانب سے کی گئی اس تحقیق کے دوران سنِا ویبو سروس پر سال دو ہزار گیارہ میں ستائیس جون سے تیس ستمبر تک پانچ کروڑ ستر لاکھ پیغامات کو ریکارڈ کیا گیا۔
اس کے ٹھیک تین ماہ بعد دوبارہ اس ویب سائٹ پر پیغامات کا جائزہ لیا گیا تاکہ اندازہ ہو سکے کہ کون سے پیغامات یا موضوعات کو سنسر شپ کا سامنا ہے اور کن الفاظ کو حذف کر دیا گیا۔
اس جائزے سے ثابت ہوا کہ چین میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو اسی طرز کی سنسر شپ کا سامنا ہے جس طرح چین میں انٹرنیٹ تک رسائی کے حوالے سے کام کرنا والا سسٹم کام کرتا ہے۔
چین میں اس سسٹم کو گریٹ فائر وال کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ انٹرنیٹ پر چین سے باہر تلاش کی جانے والی بعض ویب سائٹس پر صارفین کو مطلوبہ نتائج دستیاب نہیں یا اس تلاش پر پابندی جیسے پیغامات دیتا ہے، اس کے علاوہ کالعدم موضوعات پر چیٹ یا بات چیت اور بلاگز پر رسائی کو سنسر کرتا ہے۔
مثال کے طور پر فولون گونگ کی روحانی تحریک اور انسانی حقوق کے کارکن عائی ویوئے جیسے موضوعات شامل ہیں۔
تحقیق سے ثابت ہوا کہ اسی طرح سے سِنا ویبو سروس پر کالعدم موضوعات کے حوالے سے استعمال کی جانے والے الفاظ یا جملوں کو سنسر کیا جاتا ہے۔
تحقیق کے مطابق سنسرشپ کا نظام اس وقت انتہائی چالاکی اور تیزی رفتاری سے کام کرتا ہے جب کوئی ایسا جملہ یا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس کا سیاسی رخ نکلتا ہو تو اس کو فوری حذف کر دیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر لیانگھوئی اس وقت ایک حساس لفظ بن گیا جب یہ پہلے سے طے شدہ مظاہرے کے لیے استعمال ہونا شروع ہوا۔ اسی طرح جولائی دو ہزار گیارہ میں ہائی سپیڈ ٹرین کے حادثے کے بعد’ کسی کو مستعفی ہونے کا کہنا‘ حساس لفظ بن گیا، کیونکہ اس حادثے میں حکام کو قصور وار ٹھہرایا جا رہا تھا۔