تاریخِ انسانی کے اس پُر ہجوم سیلِ رواں میں حق و باطل، موقع و مفاد پرست کے درمیان بے شمار واقعات کا ایک طویل سلسلہ ملتا ہے۔کتنے ہی واقعات ایسے ہیں جو غبارِ وقت کی گَرد میں گُم ہوکر رہ گئے۔ زمانہ اور زمانے کے لوگ بہت سے واقعات کو جلدی بھول جاتے ہیں اور بہت سے واقعات کو تادیر یاد رکھتے ہیں اور بھلانے میں وقت لگاتے ہیں۔ مگر میں یہاں کسی واقعات کا ذکر کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنے ہی ملک میں ہوئے واقعات کے ذکر کو موضوع بناتے ہوئے اس کی گونج اور پھر اس کی تدبیر کی بات کرنا چاہتا ہوں جن واقعات کا چرچہ آج کل زبانِ زَدِ عام ہے اور وہ واقعات (مسائل) ہیں تشدد پسندی کے، دہشت پسندی کے، بے شرمی کی،اور نہ جانے اس جیسے کتنے عفریت کے اژدھے منہ کھولے ہماری آنے والی نسلوں کو نگلنے کے دَرپہ ہیں۔
چند دن پہلے کی بات ہے کہ پڑوسی ملک کے ایک انگریزی روزنامے میں خود اپنے ہی ملک کے بارے میں ایک غیر مسلم مفکر کا مقالہ پڑھا تھا جو کہ ذہن اور دماغ دونوں میں ہی نقش ہو گیا ، آج سمجھ میں آیا ہے کہ اس کا زکر اپنے اس مضمون میں کرنا تھا اس لئے شاید ذہن کے کسی گوشے میں یادِ رفتگاں کی طرح مچل رہا ہے۔ اس مقالے کا خلاصہ یہ ہے کہ ” ہماری آنے والی نسلیں، بے غیرتی اور بے شرمی کی عادی ہو تی جا رہی ہیں۔ شرافت و دیانت، حمیت و غیرت ، ایثار و قربانی کے جذبات مرتے جا رہے ہیں اور جس تیز رفتاری سے تشدد پسندی اور لذت کوشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اسے دیکھ کے کہنا پڑے گا کہ کہ انسانیت دو چار نسلوں سے زیادہ زندہ نہ رہ سکے گی۔ ” اِس نے ایسا کیوں لکھا؟اس نے ایسا کیوں سوچا؟ یہ ساری باتیں تو ہمیں ایک الگ ہی سمت کی لے جائیں گی اور یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ موضوع کی طرف دھیان دینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مفکر نے جو کچھ کہا ہے وہ حقیقت سے بہت قریب ہے۔ اُس موصوف نے تو اپنے ملک کے لئے کہا تھا لیکن ہمارا ملک بھی انہی سب عفریتوں کا شکار نظر آتا ہے۔ آج دنیا اس تباہی کے اسباب اور اس کا علاج تلاش کر رہی ہے۔ ہماری نظر میں اس کی ذمہ دار صرف اور صرف عورت کی بے حجابی ہے اور اس بے حجابی کے ذمہ داریوں سے مرد بھی مبرّا نہیں ہو سکتے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہماری جائز نسل بھی غیرت اور حمیت کے احساس سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ جاہل سماج یہ سمجھتا ہے کہ نقاب پہن کر عورت حقیر ہو جاتی ہے اور قرآن کہتا ہے کہ وہ محترم اور با عظمت ہو جاتی ہے۔
بچوں کی پرورش تو ماں باپ کی گود میں ہی ہو رہی ہے مگر جب وہ رفتہ رفتہ بڑے ہونے لگتے ہیں اور جب ان کی عمریں دس سال تک پہنچتی ہیں تو اس وقت ظاہر ہے کہ بچے اسکول اور محلے میں آنے جانے اور اٹھنے بیٹھنے کی صلاحیت سے مانوس ہوتے ہیں اور یہیں سے ماں باپ کو ان کی پرورش کا رُخ بدلنا چاہیئے تاکہ وہ اچھی صحبت اور اچھے اخلاق میں پروان چڑھیں۔ کیونکہ زمانہ میں جو کچھ ہو رہا ہے بچے اس سے جلد مانوس ہونے لگتے ہیں اور جب یہی پَود (نسل) بلوغت کے عمر میں داخل ہوتی ہے تو ملک کے تمام معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت بھی ان میں آنے لگتی ہیں کہ کہاں کیا ہو رہاہے، کیسے ہو رہا ہے، اور کیوں ہو رہا ہے۔(میرا اپنا چھوٹا بیٹا جو کہ پانچویں جماعت کا طالب علم ہے وہ آج کے حالات سے تنگ نظر آتا ہے اور روزآنہ مجھ سے پوچھتا ہے کہ یہ بم دھماکے کیوں ہوتے ہیں، میں اس معصوم صفت بچے کو کیا بتائوں اور کیا نہ بتائوں، یہ کہہ کر چُپ سادھ لیتا ہوں کہ بیٹا حالات خراب ہیں اور بس)اتنے خراب حالات روز افزوں اگر بچے دیکھیں گے تو ظاہر ہے کہ تشدد پسندی کی طرف ہی مائل ہونگے ، اس قدر مار ڈھار کی فلمیں بھی اگر دیکھیں گے تو ظاہر ہے کہ یہ نونہالانِ وطن مائل بہ تشدد ہونگے اور یہی وہ موقعہ ہوتا ہے جب والدین اپنے بچے کو اس سے محفوظ رکھنے کے طریقے تلاش کرتے ہیں تاکہ یہ نسل تعلیم یافتہ ہوکر ملک کی باگ ڈور کی طرف جائے نہ کہ تشدد پسندی کی طرف۔
ہم اٹھارہ کروڑ عوام اتنے بکھرے ہوئے ہیں کہ کوئی بھی مسئلہ ہو ، کوئی بھی ملکی بھلائی کا معاملہ ہو، کوئی بھی ملکی کام ہو، ہم کسی بات، کسی معاملے، اور کسی الجھن پر یکجا نہیں ہوتے۔ کوئی نہ کوئی افراد ، گروہ ، کسی نہ کسی مسئلے پر ”نہیں نہیں ” کی صدا ضرور لگاتے ہیں ۔ شائد آپ کے علم میں ہو کہ کہ ہمارا پڑوسی ملک اب تک باسٹھ ڈیمز بنا چکا ہے اور ہم آج تک کالا باغ ڈیم پر ہی ”ہاں ” اور ” نہیں ” میں الجھے ہوئے ہیں۔ بھارت نے کارگل میں ڈیم کی تعمیر کیلئے دو سو بلین ڈالر مختص کر دیئے ہیں اور ہم ڈیم کی طرف سوچتے ہی نہیں ۔ ہماری تباہ حال معیشت قرضوں کی وجہ سے مزید روبہ انحطاط ہے اور روزآنہ نوٹ چھاپ رہے ہیں۔ آئی ۔ ایم۔ ایف سے کڑی شرائط پر حاصل کئے گئے مالیاتی فندز کے بھی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ رہے ۔ اس وقت پاکستان مکمل طور پر حالتِ جنگ میں ہے۔ امریکہ اپنی من مانی شرائط کے تحت دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے اپنی من مانیاں کر رہا ہے ۔ اور معصوم انسانوں کا خون روز افزوں بہایا جا رہا ہے۔ یہ سب بھی تو تشدد پسندی کے ہی زمرے میں شامل ہیں۔
خوشگوار زندگی گزارنا ملک کے ہر شخص کا خواب ہے۔ یہ تو دنیا کا ہر فرد جانتا ہے کہ زندگی ایک نعمت ہے لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اس نعمت کا استعمال نہایت احتیاط اور خوبی سے کرتے ہیں۔ خوبصورت زندگی کا تصور اور خوبصورت زندگی گزارنے کا سکون اسی وقت میسر آ سکتا ہے جب ملک میں امن و امان ہوگا، مگر ہمارے ملک میں تو ہر دوسرا شخص عجیب دبائو اور کشمکش میں مبتلا نظر آتا ہے۔ آج کا انسان نبرد آزما ہے شدت پسندوں کی تباہی سے، رشوت ستانی سے، بے روزگاری سے، مہنگائی سے، ملک میں ان تمام مسائل کا حل ہونا چاہیئے تاکہ لوگوں میں نئی امنگ اور جذبے سے جینے کی آرزو سمٹ آئے۔ اور صحت مند سوچ پروان چڑھ سکے۔ طرزِ زندگی میں تبدیلیاں صبر آزما ضرور ہے مگر مثبت سوچ کی حامل زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے ملک میں امن و امان کا خواب سب سے پہلے دیکھنا شروع کریں اس کے بعد باقی مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں ۔
Mobile Phone
آج ہمارے ملک میں یہ حال ہے کہ بس ! اللہ کی پناہ، ایک ایس ایم ایس جو آج ہی میرے موبائل پر آیا تھا میں اسے یہاں تحریر کرنا چاہوں گا تاکہ معاملہ آسان اور سہل انداز میں آپ کے سامنے آجائے۔پڑھیے اور سمجھئے کہ یہ صرف ایک ایس ایم ایس نہیں ہے بلکہ ہماری کارستانیاں بھی ہیں، اور اس کے پڑھنے کے بعد آپ محسوس کریں گے کہ جیسے ہم پتھروں کے دور میں چلے گئے ہیں۔
بیٹا: مما کھانا لگا دیں بہت بھوک لگی ہے ، مما: بیٹا گیس نہیں آ رہی ہے، بیٹا اچھا تو ہیٹر پر بنا لیں ، مما: بجلی نہیں ہے، بیٹا، اچھا تو کار کی چابی دے دیں میں ہوٹل سے ہی کھا لیتا ہوں، مما: کار میں CNGنہیں ہے، بھائی میرے ساتھ بائیک پہ چل لو ، مما: بیٹا ڈبل سواری پہ پابندی ہے، بیٹا: اچھا تو اپنا موبائل دیں میں فون پہ ہی آرڈر دے کر پیزا منگوا لیتا ہوں۔ مما: بیٹا موبائل سروس بھی بند ہے ، بیٹا: حد ہوگئی مما، یہاں کچھ بچا بھی ہے۔۔۔۔۔۔ Think About Itبس اس سے زیادہ میں یہاں کچھ اور تحریر نہیں کر سکتا کیونکہ آپ سب نے اس بچے کی آواز سُن لی ہے اب دیکھیں کہ اس بچے کی مانگ کب پوری ہوتی ہے۔