سُراغِ زندگی

Khana Kaba

Khana Kaba

شریعت نے انسان کیلئے زندگی کا جو نظام وضع کیا ہے وہ اس کے پورے وجود کا احاطہ کرنے کے لئے کافی ہے، سر سے لے کر پائوں تک جسم کا کوئی بھی عضوایسا نہیں جس کیلئے شریعت کی کوئی ہدایت موجود نہیں ہو، کیونکہ انسان کو خدا سے بندگی کی نسبت حاصل ہے، اللہ خالق ہیں اور انسان مملوک، اس لئے انسان کی بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا پورا وجود احکامِ الہٰی کے تابع ہو اور اسی لئے شریعت کے احکام انسان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہیں۔ ہم اللہ تبارک و تعالیٰ سے اظہارِ محبت تو کرتے ہیں مگر اس کے بتائے ہوئے راستے کو اپناتے نہیں ہیں ۔

پانچ وقت نماز فرض کیا گیا ہے مگر ہم اگر جمعہ کے دن ہی نماز پڑھ لیں تو بہت بڑی بات ہوتی ہے…سال میں بارہ مہینے ہوتے ہیں اور اس بارہ مہینوں میں اڑتالیس ہفتے اور ہر ہفتہ میں سات دن ترتیب اگر بیان کی جائے تو یوں بنتی ہے۔ شنبہ، یکشنبہ، دوشنبہ، سہ شنبہ، چہار شنبہ، پنج شنبہ، جمع۔ یہی جمع کا دن ہے جسے مبارک قرار دیا گیا اور اسے سید الایام بھی کہا گیا ہے۔ اور ہم صرف اسی دن نماز کے لئے نکلنے کو ترجیح دیتے ہیں، حالانکہ پانچ وقت باجماعت نماز سب مسلمانوں پر فرض کئے گئے ہیں۔

آج ہم سب جو پریشان حال ہیں ، دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں، کب کون مارا جائے گا خبر نہیں، کب کس کا گھر اجڑ جائے گا معلوم نہیں، کب کس کا بیٹا، کب کس کا باپ، کب کس کا شوہر، اور کب کس کی ماں، بہن، بیٹی کو آخری نیند سلا دیا جائے گا واقعتاً علم نہیں، لیکن یہ سب کیوں؟ صرف اس لئے کہ ہم لوگوں نے نافرمانی کی حدوں سے تجاوز کر لیا ہے۔ اور یہ سب کچھ اللہ کا عذاب بن کر اہلِ پاکستان پر ٹوٹ رہا ہے۔ ورنہ ایک ڈینگی مچھر کی کیا اوقات کہ وہ انسانوں کی جان لے؟ نگلیریا یا امیبا وائرس کی کیا اوقات کہ وہ انسانوں کی نگل لے… اب بھی ہماری آنکھیں نہیں کھل رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راست پر چلنا شروع کر دیں۔ اب بھی معافی کا دروازہ شاید کھلا ہو اور ہماری بخشش کر دی جائے اور ان تمام بے موقع حرکات و سکنات سے انسانوں کو نجات میسر آجائے۔

گلوبلائزیشن کے اس موجودہ دور میں ہم اپنے اُفکار کو بھلا بیٹھے ہیں ، اللہ کے راستے کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔ گانے، فلمیں اور نہ جانے کیا کیا بے ہودہ پروگرامز دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مگر قرآن کی طرف شاز و نادر ہی دیکھتے ہیں وہ تو جُلدان میں سجا کر گھر کے اونچے اوتاق میں رکھ دیا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہے ؟ اسی بات کو سوچنا ہے تاکہ ہم بے راہ روی سے نکل کر واپس اپنے مذہب کے پیرو کار بنیں۔ شیعہ سنی کے چنگل سے نکل کر مسلمان کہلائیں، زبانوں کی قید سے آزاد ہوکر سب بھائی بھائی بن کر زندگی گزاریں، علاقائی عصبیت کو بھلا کر ایک مسلم بن جائیں ، نماز قائم کریں اور قرآن شریف کو جُلدان سے نکال کر اور سمجھ کر اس کی تلاوت کریں اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے گِڑگِڑا کر دعائیں مانگیں شاید ہمیں معافی مل جائے اور اللہ کی رحمتوں کا نزول جاری ہو جائے۔یہی ان عذابوں سے جو ہم پر مسلط ہے چھٹکارے کا راستہ بن جائے۔

دورِ قدیم میں لوگ پیدل اور بیل گاڑی کو سفر کے طور پر ترجیح دیتے تھے لیکن آج تو اس ملک کے لیل و نہار ہی بدل گئے ہیں، اب وزراء ایسے کاموں کیلئے ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر اور جہاز کا استعمال کرتے ہیں، پانچ ستارہ ہوٹل اور ایرکندیشن ریسٹ ہائوس میں آرام کرتے ہیں، قیمتی کاریں ان کیلئے مہیا کی جاتی ہیں حالانکہ زمینی حقائق کا اندازہ لگانے کیلئے ضروری ہے کہ صاحب لوگ تعیش کے ان وسائل سے باہر نکلیں، خاص طور پر عوامی خدمت گار اس حقیقت کو ذہن نشین کر لیں کہ وہ ان غریبوں کے نمائندہ ہیں، جنہیں دو وقت پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں ملتا، جن کے سر پر چھت نہیں ہے، جو روزگار سے محروم ہیں، جب تک ایسے فاقہ مستوں کیلئے وہ کام نہیں کریں گے، اس وقت تک امیری و غریبی کا بڑھتا فرق دور نہیں ہوگا ۔ ان کا فرض ہے کہ وہ ان غریبوں کا ہمہ وقت خیال کریں جن کے ووٹوں سے چُنائو جیت کر وہ آج عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ معاملہ بھی ہمیں گھاٹے کی طرف لے جانے والا ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ ان سب باتوں سے بھی اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے۔

ویسے بھی ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے رہائشی مکانات پُر تکلف بنانے کو ناپسند فرمایا ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” دنیا میں اس طرح زندگی بسر کر گویا تو غریب الوطن ہے یا راہ رو مسافر اور تو اپنے آپ کو اصحاب قبور سے شمار کر” مگر اب اس طرف سوچتا کون ہے اسی لئے تو ہم گھاٹے کی طرف جا رہے ہیں۔اور یہ گھاٹے کا سودا ہمیں مہنگا پڑ رہا ہے۔ ہم سب کا گریبان کھلا ہے اگر نہیں کھلا تو کھول کر جھانکیئے تو سہی کہ ہم کہاں تک صحیح ہیں اور کہاں تک غلط۔

آج ہم عوام کے پاس کیا ہے! بجلی کی لوڈ شیڈنگ، گیس کی لوڈ شیڈنگ، پانی کی کمی، ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں حد درجہ تجاوز، ڈبل سواری پر پابندی، موبائل سگنلز جب جی چاہا جام کر دیا، دہشت گردی، بربریت، قتل و غارت گری، نوکریاں ناپید، نوجوان لڑکے ڈگریاں ہاتھوں میں لیکر مارے مارے پھر رہے ہیں اور انہیں نوکری نہیں ملتی، اور اب تو سنگل موٹر سائیکل چلانے پر بھی پابندی ، بلا عنوان لکھا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ ہم آخر کہاں جا رہے ہیں، ترقی کی طرف کہ پستی کی طرف، دنیا ترقی کر چکی اور ہم پستی کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ ایسا کیوںہو رہا ہے اورایسا کیوں کیا جا رہا ہے۔ کیا جا رہا ہے یا کروایا جا رہا ہے ، اب عوام واقعی ان تمام اور نہ جانے اس کے علاوہ کن کن مسائل سے دوچار ہیں اور لگتا ایسا ہی کہ کروٹ لینے کا وقت آن پہنچا ہے۔

اب وقت آن پہنچا ہے کہ جہاں پر یہ جملہ کہہ دیا جائے کہ ” اب کچھ کرکے دکھایئے صاحب ”اپنے لئے ، عوام الناس کے لئے ، جنت نشان پاکستان کے لئے، اداروں کے لئے، غریب لوگوں کی فلاح کے لئے ، اُمتِ مسلمہ کے لئے، مسائل کے ادراک کے لئے، ابتدائی اطمینان کے لئے یہ کافی ہوگا کہ دیر سے ہی سہی ایک اچھا قدم اٹھایا تو گیا تاکہ عوام خوش و مطمئن ہو جائے کہ کوئی ایک تو ڈھنگ کا کام ہوا ۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ:
پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مُرغِ چمن
اپنے من میں ڈوپ کر پاجا سُراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ‘ اپنا توبن
میرے خیال میں علامہ اقبال کے اس شعر کے بعد کسی تشریح و ترجمے کی ضرورت باقی نہیں رہا کیونکہ یہ چار مصرعے میں ہی میرے مضمون کا خلاصہ پوشیدہ ہے لہٰذا میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ پہلے صفحے سے لیکر دوسرے صفحے تک جتنے بھی پیرائے (لائین) لکھے گئے ہیں وہی ” سُراغِ زندگی ” ہے۔ اور اگر ہم سب کو ایسا پاکستان مل جائے جس کا ذکر کیا گیا ہے تو ہم کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیں گے اور پاکستان دنیا کے نقشے پر ترقی یافتہ کہلائے جانے کے قابل ہو جائے گا۔ (آمین)

تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی