بالآخر16سال بعد اصغرخان کیس کی سماعت مکمل ہونے پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں قائم ایک 3 رکنی بینچ نے رواں ماہ )اکتوبر)کی 19تاریخ بروز جمعہ 2012 کو1990ء کے انتخابات میں دھاندلی اور سیاسی عمل کو اسٹیپلشمنٹ اوراُس وقت کے ایوانِ صدر کی سازشوں سے آلودہ کئے جانے کے فعل میں اپنی انفرادی حیثیت سے کردار اداکرنے والے سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اسد درانی کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیتے ہوئے اپنامختصر اور ملکی تاریخ کا ایک اہم ترین فیصلہ سُنا دیا ہے یوں سپریم کورٹ کے اِس تاریخ ساز فیصلے سے قوم کو اِ س بات کا بھی یقین ہوگیاکہ ملک میں قانون کی بالادستی ابھی قائم ہے۔
اگرچہ اصغر خان کیس کا فیصلہ آنے میں دیر ضرور ہوئی مگر سپریم کورٹ کی جانب سے ایک اچھا فیصلہ سامنے آیاہے جس سے قوم میں یہ اُمید پیداہوگئی ہے کہ بہرحال قانون کی گرفت سے کوئی آزاد نہیں ..حضرت بایذیدبسطامی کا قول ہے کہ” قانون وعدل کے بغیرملک ویران اور اُجاڑ ہوجاتے ہیں” اور اِسی طرح دانا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”اگر کسی بھی معاشرے میں قانون اورعدل مفقود ہوجائیں تو اِنسان مایوس ہوجاتے ہیں اور آبادیاں فسادسے بھرجاتی ہیں”یوں آج ہمارے معاشرے کے لئے یہ بہت اچھاہواکہ سپریم کورٹ نے سولہ سال بعد صحیح مگر اصغرخان کیس کا ایک حوصلہ افزافیصلہ سُناکر قوم میں یہ اُمید ضرور پیداکردی ہے کہ ملک کو ویران اور اُجڑنے اور آبادیوں کو فساد سے بچانا ہے توہر حال میں قانون کی بالادستی اور عدل کے قیام کو یقینی بنانا ہوگا ۔
عزت مآب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اصغرخان کیس کا فیصلہ سُناتے ہوئے جو تاریخی جملے کہئے یہ ہماری ملکی تاریخ کے باب میں اضافے کا باعث بنے ہیں اور اِن کے یہ جملے سُنہرے حروفوں میں درج ہوگئے ہیں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہاکہ” سابق صدر غلام اسحق خان نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایوانِ صدر میں الیکشن سیل قائم کرکے انتخابی نتائج پر اثراندازہونے کی کوشش کی ،ایوانِ صدراور آئی ایس آئی میںاگراِس وقت کوئی سیاسی سیل ہے تواِسے فوری ختم کیاجائے اُنہوں نے کہا کہ فوج سیاست میں حصہ نہیں لے سکتی ، آئی ایس آئی اور ایم آئی کا سیاسی عدم استحکام میں کردار نہیں ہوسکتاعدالت عظمی نے کہا کہ سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کا انفرادی فعل فوج کے لئے بدنامی کا باعث بنااور اِسی طرح چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہاکہ 1990میں جن سیاستدانوں پر رقوم کی وصولی کا الزام لگاہے ایف آئی اے رقوم کی تقسیم کی تحقیقات کرکے اِن سے منافع سمیت وصول کرے اور یونس حبیب کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
Prime Minister Pakistan
جبکہ اصغر خان کیس کا سپریم کورٹ سے تاریخ ساز فیصلہ آنے کے بعد وزیراعظم راجہ پرویزاشرف نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں اصغرخان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو جمہوریت کی حقیقی فتح قراردیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ دوررس نتائج کا حامل ہے معاملے کی شفاف وشفاف تحقیقات ہوگی اور سپریم کورٹ کے احکام پر عملدرآمد کیاجائے گا پیسے لینے والے قوم سے معافی مانگیں ذمہ داروں کو ہر صورت سزاملے گی پائی پائی واپس لیں گے اور اِسی کے ساتھ ہی وزیراعظم نے اپنی اِسی پریس کانفرنس میں یہ بھی واضح کردیا کہ کوئی اِس گمان میں نہ رہے کہ ماضی کی طرح آج بھی ایوانِ صدر میں کوئی سیاسی سیل قائم ہے ایسا سوچنے والے احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں جبکہ ہم اِس موقع پر یہ کہناچاہیں گے کہ بالفرض ابھی ہم مان بھی لیں کہ موجودہ ایوان ِ صدر میں کوئی سیاسی سیل نہیں ہے مگر انتخابات کے دنوں میںاگر کوئی سیاسی سیل ایوانِ صدر یا اِس سے متصل قائم ہوگیاتو پھر کیا بنانے گا..مسٹروزیراعظم راجہ پرویز اشرف جی..؟
بہرحال ابھی تو قوم کو وزیراعظم کی اِس بات پر یقین کرلیناہوگاکہ موجودہ ایوانِ صدر میں کوئی سیاسی سیل نہیں ہے مگر پھر بھی ہم پاکستانی عوام اور اپنے قارئین کو یہ بتاتے چلیں کہ کوئی کچھ بھی کہہ لے مگر یہ حقیقت ہے کہ ہر دور میں اسٹیپلشمنٹ کا کردار ایوانِ صدرسے لے کر سیاستدانوں کے کچن تک ضرور رہاہے اور موجودہ حکومت میں بھی حکمرانوں سے زیادہ اسٹیپلشمنٹ پاور فل نظرآتی ہے اَب دیکھتے ہیں کہ اصغر خان کیس کا فیصلہ آجانے کے بعد اِ س کا عام انتخابات میں مداخلت کا کیا اندازہوتا ہے۔
اگرچہ یہاں یہ امر ملک اور قوم کے لئے جہاں انتہائی قابل غور اور حوصلہ افزاء ہے کہ1990کے انتخابات میں دھاندلی کے ناٹک میں ہیروز بننے اور پاکستانی سیاست میں بکاؤسیاستدانوں ، انتخابات اور اِن کے نتائج کی تبدیلی کے حوالے سے، حکمرانوں کی حکمرانی سمیت ایوانِ صدر میں کھیلے جانے والے مکروہ ڈرامے میں اسٹیبلشمنٹ کے کٹنی جیسے گھناؤنے کردار کو بے نقاب کرنے میں اصغرخان کیس نے ایک انتہائی اہم رول اداکیا ہے تووہیں سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ بھی اپنی جگہہ خاصی اہمیت کا حامل ہے ۔
بشرطیکہ آج سپریم کورٹ کے اِس فیصلے کے بعد ہمارے ا دارے ، موجودہ ایوانِ صدر اور جمہوری حکومت کے دعویدار1990ء کے انتخابات میں اپنی انفرادی حیثیت سے دھاندلی کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کریں جیساکہ آج برسرِ اقتدار جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالے کہہ رہے ہیں کہ پی پی پی کی حکومت جنرل بیگ سے تمغہ جمہوریت چھین کیا نوچ بھی سکتی ہے اور اِن کا کورٹ مارشل کرنے کا مطالبہ بھی کرسکتی ہے ۔
ایسے میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایسا ہو گیا تو یقینا مستقبل میں ملک میں جو دور رس تبدیلیاں آئیں گی اِن سے ملک اور قوم کو ایک ایماندار اور مخلص قیادت ملے گی جو دونوں کو ایک مثبت راہ پر گامژن کرنے میں کلیدی کردار اداکرے گی اور اِسی کے ساتھ ہی ہم آخر میں جاتے جاتے اپنے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور قومی اداروں کے سربراہان سے یہ
Aslam Baig Asad Durrani
مطالبہ بھی کرنا ضرور ی سمجھتے ہیں کہ اصغر خان کیس کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کی گئی تحقیقات میں اگر سابق صدر غلام اسحق خان (مرحوم)، سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اسد درانی اِس میں ملوث پائے گئے توقوم کو یہ چاہئے کہ اخلاقی طور پر صدر ، آرمی چیف ، ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدوں اور منصب کا وقار بلند رکھنے اور اِن عہدوں کو کسی بدنامی اور بدگمانی سے بچانے کے لئے بطوراحتجاج سابق صدر غلام اسحق خان (مرحوم ) کے نا م سے پہلے صدر لکھنے ، پڑھنے او ر کہنے کے بجائے اِن کا نام صرف” غلام اسحق خان” لیا جائے حتی کہ اِن کی قبر کے کُتبے پر بھی لکھا لفظ ” صدر” ہذف /ہٹادیاجائے اور اِسی طرح آئندہ مرزااسلم بیگ اور اسدررانی کا نام بھی اِن کے عہدوں کے بغیر استعمال کرناہوگا اور اِسی طرح 1990سے اَب تک جن سول اور اداروں میں ریٹائرمنٹ اور حاضرسروس فوجی تعینات ہیں ۔
اِنہیں اِن کے عہدوں سے فوری طور پر سبکدوش اور اِن کے محکموں میں واپس بھیج کراِن کی جگہہ ملازمتیںسول افرادکو دی جائیں تاکہ سول ادارے یکسوئی کے ساتھ اپنا کام چلاسکیں کیوں کہ 1990کے عام انتخابات کے بعد سے اَب تک اسٹبلشمنٹ کی مداخلت سے سول اداروں میں فوج کے ریٹائرڈ اور حاضرسروس ملازمین کی تیزی سے ہونے والی تعیناتی بھی سول اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے ۔
جن کی وجہ سے ہمارے عام باصلاحیت اور پڑھے لکھے سول نوجوان میںبے روزگاری کا تناسب بھی بڑھ جا رہاہے اور نوجوان ڈگریاں لینے کے باوجود نوکریوں کے حصول کے خاطر دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں اور بالآخر پیٹ کی خندق کو بھرنے اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے خاطر بے راہ روی کا شکار ہورہے ہیں نوجوانوں کو اگر بے راہ روی سے بچانا ہے تو حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ سول اداروں میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی افراد کی تعیناتی کرنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ سول نوجوانوں کو ملازمتیں دیں۔