اطلاعات یہ ہیں کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے مخدوم شہا ب الدین کو ملک کا نیا وزیراعظم بنانے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک کے بننے والے نئے وزیراعظم مخدوم شہاب الدین بھی گیلانی کے راستوں پر چلتے ہوئے ان جیسے ہوجائیں گے اور ملک اور قوم کو نت نئے بحرانوں میں جکڑے رکھنے کے بعد اپنے پیش رو کی طرح جانا پسند کریں گے یا اپنے دورے وزراتِ عظمی میں عوام سے دادتحسین جمع کرتے ہوئے اتنا کچھ اچھاکر جائیں گے کہ گیلانی کے ہاتھوں عوام کے جسموں پر لگے زخموں سے رستا خون بند ہوجائے گا اور عوام اِن کے حق میں تعاروفی کلمات اداکرتے نہیں تھکیں گے بہر حال یہ تو مخدوم شہاب الدین کی اپنی قابلیت ہوگی کہ یہ عوام کے کتنے خیر خواہ ثابت ہوں گے اور اپنی ذات سے ملک اور قوم کے لئے کیا کچھ اچھا کرگزریں گے ویسے ایک بات یہ ضرور ہے کہ صدر کے لاڈلے گیلانی اپنے چار سال عوام پر اذیتوں کے پہاڑ نازل کرنے کے بعد سپریم کورٹ سے نا اہل قرار دیئے جانے کے بعد چلے گئے ہیں اِس پر ہم یہ کہیں گے کہ چلواچھا ہی ہوا کہ وہ یوسف رضا گیلانی جو اِس غرور اور گھمنڈ میں متبلا تھے کہ کوئی اِن سے اِن کا اقتدار نہیں چھین سکتا اور یہ ہمیشہ اقتدار میں رہنے کے لئے آئے ہیں یہ جس طرح چاہیں اداروں کو گھوماسکتے ہیں اور اِن کی حکومت نے عوام اور ملک کے علاوہ صدر زرداری کی ذات کے خاطر اتنے کام کرڈالیں ہیں کہ عوام اِن سے خوش ہوں یا نہ ہوں مگر اِنہیں اِس بات کا بھی سوفیصد یہ یقین ضرور تھا کہ صدر اِن سے ضرور خوش ہیں اور یہ اِن پر پورا اعتماد کرتے ہیں اور بالآخر اتنی ڈھیر ساری خوش فہمیوں میں مبتلا رہنے والے گیلانی بھی رخصت ہوہی گئے یہ کس طر ح گئے ہیں یہ بھی پاکستانی عوام اور دنیا خوب جانتی ہے کہ اِن کی رخصتی کا پروانہ سپریم کورٹ نے اسپیکررولنگ کیس میں تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے جس انداز سے وزیراعظم سیدیوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دے کرجاری کردیاہے یہ بھی اہل وطن کے لئے قابلِ تحسین کارنامہ ہے نہ صرف یہ بلکہ سپریم کورٹ ہی کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی ترنت یعنی فورا ہی مسٹر سیدیوسف رضا گیلانی کی حلقہ این اے 151ملتان کی نشست خالی قراردیتے ہوئے وزیراعظم کی نااہلی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کرکے ایک اور تاریخ رقم کردی ہے ۔
supreme court pakistan
جہاں سپریم کورٹ کے اِ س تاریخ ساز فیصلے کے بعد حکمران جماعت والوں میں غم وغصہ پھیل گیا تو وہیں یہ کسی زخمی شیر کے ماننداِدھر ادھر اپنا سر پیٹتے ہوئے بھی نظرآئے اور احتجاجامشتعل ہوکر لاڑکانہ، خیرپور، نوابشاہ، دادو، پڈعیدن و دیگر شہروں میں ہوائی فائرنگ اور مظاہرے بھی کرنے لگے تو ادھر ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو جمہوریت کے لئے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ عدالتی حکم پر تحفظات ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ اِن کے تحفظات محض اِن کی ضد اور اداروں سے ٹکڑاو کی پالیسی کے مترادف ہے اور بس ….
Zardari gilani
اگرچہ دوسری جانب پہلے ہی روز سے عہدہ صدارت پر اپنے قدمِ مبارک رنجا فرمانے والے ہمارے فہم وفراست سے لبریز اور بے پناہ سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرنے والے صدرِ مملکت آصف علی زرداری اپنے لاڈلے سید یوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمی سے رخصتی کے بعد یقینی طور پر سخت ذہنی دباو میں ہیں اور اِس شش وپنچ میںبھی ہیں کہ کیا آئندہ دنوں میں اِنہیں اپنی ہی پارٹی سے کوئی ایسابندہ مل پائے گاجواِن کی محبت میں مبتلارہ کر سوئس حکومت کو گیلانی جیسے پیارے کی طرح خط نہیں لکھے گااور ایسا ہی فرمانبردار ثابت ہوگا جیسے سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی اپنے قول اور فعل سے ایک ایسا رنگ جما گئے کہ سپریم کورٹ کو ہی اِنہیں نااہل قرار دے کر رخصت کرناپڑاورنہ تو صدر اور اِن کی پارٹی کو گیلانی سے کبھی کوئی شکایت نہیں تھی اب یہ اور بات تھی کہ گیلانی نے بحیثیت وزیراعظم ملک کو کئی بحرانوں میں دھکیلاہے جس میں توانائی کی شکل میں بجلی کا بحران سرفہرست ہے۔
گیلانی کو سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعدایک وقت ایسا بھی ضرور تھا کہ جب صدر آصف علی زرداری اتحادیوں سے مل کر بھی گیلانی جیسے کسی نئے گیلانی کا حتمی فیصلہ نہیں کرپارہے تھے جس کی تلاش کے لئے وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ اِن کی پریشانی بھی بڑھتی ہی جارہی تھی کہ یکا یک اِن کی نظر گیلانی جیسے کئی نئے لڈن پپوں پر جم کر رہ گئی اور انہوں نے اِن لڈن پپیوںمیں سے ایک نیاگیلانی مخدوم شہاب الدین کی شکل میں ڈھونڈہی نکلااور اپنا اگلا عاشق اِنہیں بنانے کے لئے وزارتِ عظمی کے لئے نامزد کردیا جِسے متفقہ طور پر منطوربھی کرلیا گیاہے ۔مگراب دیکھنا یہ ہے کہ 22جون کو نئے گیلانی کی صورت میں مخدوم شہاب الدین ہی ہمارے نئے وزیراعظم قرار پائیں گے یا کوئی اور ہوگا یانئے وزیراعظم کی صورت میںامریکانطریات اور فکرکی پرچارکرنے والی متحرمہ حناربانی کھر بھی ہوسکتی ہیں یا اِن کے علاوہ کوئی اور بھی ہوسکتاہے جو صدر زرداری کے معیار پر پورااترے گا۔
اب یہ تو 22 جون کو ہی پتہ چلے گا کہ ہماراوزیراعظم کون ہوگا مگر اتنا ضرور ہے کہ بند دروازوں کے پیچھے اِس عہدے کے حصول کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی عہدیداروں کے درمیان بڑے بڑے پاپڑضرور بیلے جارہے ہیں اور سب ایک سے بڑھ کر ایک صدر پر اپنا سیاسی کیریئر قربان کرنے کے دعویداربھی سامنے آرہے ہیں مگراِس صورت حال سے دوچاررہنے والے ہمارے عزت مآب صدر آصف علی زرداری کی فہم و فراست کابھی سخت امتحان شروع ہوچکاہے کہ یہ مخدوم شہا ب الدین کے علاوہ کیا کسی اور کو بھی وزارتِ عظمی پر فائز کرسکتے ہیں …؟؟جو گیلانی کی طرح سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے پر ڈٹارہے گا اور اپنا سب کچھ اِن پر قربان کردے گا۔اِس پر ہم یہ کہیں گے کہ ہماراآئندہ کوئی بھی وزیراعظم ہو مگر اِس پر لازم ہے کہ وہ خود کو ملک اور قوم کی خدمات کے لئے وقف کردے ناکہ صرف صدر کی ذات اور مفادات کے لئے کام کرے ،اِن کے کارناموںاور سوچوں کی ملکی اور عالمی سطح پر پروان چڑھاتارہے۔
ادھر اہل وطن نے یہ بھی دیکھا کہ جیسے ہی یوسف رضاگیلانی کا وزارتِ عظمی کے عہدے سے سپریم کورٹ کانااہل قرار دیاجانا تھاکہ ن لیگ اور تحریک انصاف والوں پر جیسے ساون کا چڑھ دوڑاہواور انہوں نے سخت گرمی اور طویل ترین لوڈشیڈنگ کے عذاب کو بھلا کر ملتان اور لاہو ر سمیت ملک کے بیشترشہروں میں جشن منایااور مٹھائیاں تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے سارے غم اپنے د ل سے نکال پھینکااور ڈھول کی تھاپ پر ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بھنگڑے ڈالے اور آشبازی کرنے کے ساتھ ساتھ کئی علاقوں میں ہوائی فائرنگ بھی کی اوراِس کے ساتھ ہی یہ بھی اطلاع ہے کہ دونوں جماعتوں کے کچھ کا رکنوں نے ملکی اداروںکے استحکام اور سا لمیت کو داو پر لگانے والے سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کو اسپیکر رولنگ کیس میں نا اہل قرار دیئے جانے والے سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے پر شکرانے کے نوافل بھی اداکئے اور ہمیںیقین ہے کہ اِس موقع پر اِنہوں نے یقینا اللہ کے حضور ملک میں آئندہ کسی ایسے شخص کی وزارتِ عظمی پر فائز نہ کئے جانے کی دعابھی کی ہوگی جیسے نااہل یوسف رضاگیلانی تھے ویسے ہم یہاں اپنے دل کی ایک بات ضرور کہناچاہیں گے کہ صدر اپنے اور اپنی پارٹی مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مخدوم شہاب الدین کو وزارتِ عظمی کے عہدے پر فائز کریں یا نہ کریں مگر خداکے واسطے چوہدری احمد مختار کو بھی اِس اہم عہدے کی ذمہ داری نہ سونپیں کیوں کہ جب یہ وزیردفاع تھے تو تب بھی یہ اپنی وزارت کی اہمیت کے اعتبار سے اِس معیار پر پورے نہیں اترپائے تھے اور آج کل جب یہ وزیرپانی و بجلی ہیں تو تب بھی ملک میں بجلی کا کیا حال ہے یہ بھی سب کے سامنے ہے یعنی اِن کو وزیر پانی وبجلی بنانے کے ساتھ ہی ملک بھر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ بڑھ گئی ہے جس کی مثال پنجاب ہے جہاں لوڈشیڈنگ کے ستائے ہوئے لوگوں نے پنجاب میں تباہی مچارکھی ہے اب اندازہ کرلیں کہ احمد مختار اپنی وزارتوں میں کتنے خود مختار رہے ہیں اور اگر یہ وزارتِ عظمی کے عہدے پر فائز ہوگئے تو پھر کتنے خود مختار رہیں گے….؟؟اِس کا اندازہ بھی ابھی سے ہوجاناچاہئے…کہ احمدمختار ملک کے وزیراعظم بن گئے تو پھر سوچو ملک کا چھ سات ماہ میں کیا حال ہوگا…؟