تاریخ گواہ ہے کے اللہ کے ولی ہمیشہ سے انسانیت کی خدمت کرتے آئے ہیں اور ولیوں کے ڈیرے سدا سے آباد ہیں ان ڈیروں پرلاکھوں مرید رزانہ حاضری دیتے اور اپنی مرادیں پاتے نظر آتے ہیں مرید اپنے پیر کو ملنے کی غرض سے سینکڑوں میل کا سفر طے کرتے ہیں اور پھر ڈیرے پر پہنچ کربھی گھنٹوں اپنی باری کا انتظار خوشی سے کرتے ہیں غیر مذہب لوگ آج تک حیران ہیں کہ جب سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ انسان چاند تک پہنچ گیا ہے سمندروں کی گہرائیوں میں اترچکا اور میڈکل میں اتنی زیادہ ترقی کی کہ آج ڈاکٹر انسان کا مصنوعی دل تک لگا دیتے ہیں اس کے مقابلے میں پیروں کے پاس نا تو جدید مشینیں ہیں اور نا ہی کسی میڈیکل کالج کی ڈگری ہر باشعور انسان یہ سوچنے پر مجبورہوجاتا ہے کہ پھر کیوںیہ لوگ پیرخانوں پہ علاج کی غرض سے جمع رہتے ہیں۔ اور پیر کس طرح روحانی اور جسمانی دونوں قسم کے علاج کرتے ہیں میںیہی بات سمجھنے کی غرض سے میں اپنے گھر کے پاس موجود پیر مجاہد شاہ کے ڈیرے پر چلا گیا زیادہ لوگوں کی موجودگی میں میںان سے کوئی بات نا کر سکا رات گئے جب پیر صاحب کے سارے مرید چلے گے تو میں نے ہمت کر کے پیر صاحب سے پوچھا کہ وہ کس طرح لوگوں کا علاج کرتے ہیں وہ مسکراتے ہوئے بولے ہم کچھ بھی نہیں کرتے ہر بیماری کی شفا صرف اور صرف خدا کے پاس ہے جب چاہے جسے چاہے عطا کرتاہے ہم تو بس سب کی بات سنتے ہیں انسان جب اپنے رب سے دور ہو جاتا ہے توپریشان ہو جاتا ہے اور پریشانی سب سے بڑی بیماری ہے اس حالت میں جب انسان خدا کو نہیں پکارتا تو کسی غیر سے بھی اپنے دل کی بات نہیں کر پاتا وہ بات جو اپنے والدین بہن بھائیوں اوردوستوں سے نہیں کرپاتا یہاں تک کے خود سے بھی نہیں تو بے بس ہو کر ہمارے پاس آجاتاہے اور ساری بات کہہ دیتا ہے ہم اس کی ساری بات سن کے اس کے دکھ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اوربڑی محبت سے تسلی دیتے ہیں ہم کہتے ہیں اللہ خیر کرے گا ہم بھی دعا کریں گے اور تم بھی نماز پڑھ کر اللہ کا شکر ادا کیا کرو ۔وہی دکھ درد۔ دور کرنے اور شفا دینے والا ہے پیرصاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ ان کے پاس کچھ لوگ آئے انھوںنے حال ہی میں اپنے بیٹے کی شادی کی تھی اور بہو کی وجہ سے بڑے پریشان تھے ان کی بہو سب کو گالیاں دیتی اورجوبھی چیز ہاتھ میں آتی کسی کو بھی مار دیتی سارے گھر والے زخمی ہو چکے تھے ان کا خیال تھا کہ لڑکی میں کوئی سایہ ہے ہم نے انھیں یہ کہہ کر گھر بھیج دیا کے ہم خود ان کے گھر آکر دیکھیں گے کچھ دن بعد ہم ان گھر گئے اور دیکھا وہ لوگ انتہائی گندگی میں رہ رہے تھے مگر ان کی بہو کسی صاف ستھرے خاندان کی لگتی تھی سو ہم نے سب کوکچھ فاصلے پر رہنے کو کہا اور لڑکی سے اکیلے میںپوچھاکے بیٹی آپکا مسئلہ کیا ہے تو اس نے بتایا یہ لوگ مجھے گوبر اٹھانے کو کہتے ہیں جس سے میرے ہاتھوں میں خارش پڑ جاتی ہے اور مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے سو اس بات سے بچنے کے لیے میں ایسا کرتی ہوں اور کوئی بات نہیں ہے لڑکی کی یہ بات سن کر ساری بات ہماری سمجھ میں آگئی ہم نے اس کی ساس کو بتایا کے تو بڑی مقدر والی ہے تیری بہو اللہ کی نیک روح ہے اس کا خیال کیا کر اور اسے گندگی سے دور رکھا کر خیر ہو جائے گی یہ کہہ کے ہم واپس آگئے دو دن بعد وہ لوگ بڑے بڑے برتنوں میں دودھ اور ڈھیر ساری مٹھائی لے کر ڈیرے پر آئے اور بتایا کہ سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے آج اس بات کو پندرہ سال ہو گئے آج تک سارا معاملا ٹھیک ہے پیر مرید کی بات سنتا ہے ا ور اللہ سے دعا کرتا بس ، پیر مجاہد شاہ کی یہ باتیں سن کر میں پوری طرح مطمین نا ہوسکا اورمیں نے فیصلہ کیا کچھ اور ڈیرے دیکھنے کا اور نکل پڑا مگر میں حیران رہ گیا یہ دیکھ کر کہ جعلی پیروں نے دنیاکو پاگل بنا رکھا ہے دنیاوی شہرت اور دولت کمانے کے لیے ہر حد سے گزر جاتے ہیں یہ لوگ سادہ دل مرید ان کے پاس اپنے دکھ درد سنانے جاتے ہیں اور پیر صاحب کا دھیان مریدوں کی جیب پر ہوتا پیر کو کوئی غرض نہیں کے مرید حلال کماتا یا حرام مرید چاہے اپنی بیٹی کا جہیز بیچ کر پیر صاحب کو نظرانہ دے وہ قبول کرتے ہیں اور جلال میں آ کر مرید سے کہتے ہیں تیرے اپنے ہی تیرے دشمن ہیں پر تو فکر نہ کر اور ایک کالے بکرے کا انتظام کر باقی ہم خود سنبھال لیں گے اب مرید بیچارہ اپنی پریشانی کم کرنے آیا تھا ساری جمع پونجی بھی گئی اور ایک نئی پریشانی بھی مل گئی کے اپنے ہی دشمن نکلے ، ان جعلی پیروں نے اصل پیر خانوں کو اس قدربدنام کردیا ہے کے آج سچے رہنمائوں کی پہچان ہی گم ہوتی جا رہی ہے۔ اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصلی پیر کی پہچان کیسے کی جائے میرے خیال میں آج ضرورت اس امر کی ہے کے ہم خدا کے ولیوں کو ان کے کردار سے پہچان لیں بے شک اللہ کے دوستوں کو نہ تو دنیاوی شہرت کی کوئی ضرورت ہے اور نہ مریدوں کے نظرانوں کی اور اللہ کے ولیوں کی زندگی کا ہر ایک پہلو شریعت کے عین مطابق ہوتا ہے وہ نہ صرف دوسروں کوایسے کاموں سے روکتے ہیں بلکہ خو دبھی ایسا کوئی کام نہیں کرتے جو شریعت کے منافی ہو ۔اللہ کے ولی آج بھی انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ تحریر۔۔امتیاز علی شاکر