جرمنی(APNAانٹرنیشنل/انجم بلو چستانی) فرانکفرٹ بیورو کے مطابق گزشتہ دنوں حاجی شریف احمدایجوکیشنل اینڈ لٹریری اکیڈمی جرمنی کی جانب سے جیکب آباد میں مقیم معروف شاعرہ، افسانہ و ڈرامہ نگارمحترمہ پروفیسر صفیہ سلطانہ مغل کو شریف اکیڈمی جرمنی کا ڈائریکٹرضلع جیکب آباد نامزد کیا گیا ۔ محترمہ صفیہ سلطانہ مغل کا تعلق جیکب آباد کے ایک علمی اور ادبی گھرانے سے ہے۔ انکے والد احمد نور ثاقب اور چچا عجائب نور مغل شاعر تھے۔ان کی شفقت،محبت اور علم دوستی کی وجہ سے بچپن سے ہی انہیںکتاب اور قلم سے عشق ہو گیا۔کلاس پنجم میں رسالہ” نور ” میں کہانیوں کے مقابلے میں حصہ لیا اور انکی پہلی کہانی ” فاصلہ ”کو پہلا انعام ملا۔بعد ازاں خواتین کے اسلامی ،اصلاحی اور ادبی پرچہ بتول کیلئے نظمیں اور افسانے لکھے۔ابتدا میں پروفیسر فروغ احمد صاحب کے آ گے زانوئے تلمذ تہ کیا۔انکی ابتدائی شاعری کی اصلا ح فروغاحمد صاحب نے کی۔بعد ازاں محسن بھوپالی اور پھر معین اختر نقوی صاحب سے اصلاح لی۔شعور کی منزل طے ہونے کے بعدپاکستان کے معروف شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی صاحب کے ادبی مجلہ فنون سے باقاعدہ قلمی سفر کا آغاز ہوا۔
نور،بتول،شمع،شعاع،سیپ،فنون،چٹان،دائرہ،اخبارِجہاں،جنگ،خواتین کا ادبی صفحہ،حریت،جسارت،مڈویک میگزین،آداب عرض، عورت ڈائجسٹ،سر گزشت،کرن،ریڈیو کا رسالہ آہنگ ،سچی کہانیاں،دوشیزہ جیسے جرائدمیں انکی نگارشات شائع ہوئیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔اردو ادب کے ساتھ ساتھ ٹیلی پیتھی،تحریر شناسی ،ہپناٹزم،مسمریزم،دست شناسی سے آگاہی کا شوق رہا۔محترمہ صفیہ سلطانہ مغل شاعرہ،کالم ،افسانہ،ناول نگار،تمثیل نگار( اسٹیج،ریڈیو،ٹی وی)، ناول نگار،محقق،کمنٹریٹر(ہاکی،کرکٹ)،صدا کارہ، براڈکاسٹر،کمپئیراور اسکرپٹ رایئٹر(ریڈیو حیدرآباد،خٰیرپور،کراچی)ہیں ۔
Haji Sharif Ahmad Educational
پہلا شعری مجموعہ” وہ اکِ تارہ محبت کا”خود نوشت ”میرا دردکیسے غزل ہُوا ” (قسط و ار،ماہنامہ اعلانِ سحر،اسلام آباد)اورسفر نامہ” میرے ساتھ سوئے حرم چلو ”شائع ہو کر گلستانِ ادب کی زینت بن چکا ہے۔ شعری مجموعہ ”وہ اک تارہ محبت کا’ ‘پرمہرِ ادب کوئٹہ کی جانب سے سالِ رواں کا بہترین شعری مجمو عہ کاایوارڈز ملا۔ اردو و سندھی میں ڈرامے تحریر کئے ,جو سٹیج اور ٹی وی کی زینت بنے۔ شعری مجموعہ” سب تمہارے لئے”اور افسانوں /کہانیوں پر مشتمل کتاب”مشتِ خاک کا سفر”اشاعت کیلئے تیار ہے۔١٦سال کی عمر میں پہلی ناول نگارہونے کا اعزازحاصل ہوا۔ان کا پہلا ناول” کشتیاں سب جلا ڈالیں” آج بھی ادبی حلقوںمیں انکی پہچان ہے۔جیکب آباد کی پہلی صاحبِ کتاب شاعرہ ہیں ۔
لاہور ٹیلنٹ کلب سے بیسٹ رائیٹرایوارڈ جبکہ ریڈیو پاکستان خیرپورسے بیسٹ سندھی ڈرامہ،کمپیئرنگ،صدا کار کے ایوارڈ حاصل کئے ۔آزاد کشمیر کی ادبی تنظیم نے سانحہ زلزلہ اکتوبر ٢٠٠٨کی منظومات پر شعاعِ ادب کا ایوارڈ دیا ۔ قلم قافلہ ایبٹ آباد اورجیکب آباد لٹریسی سوسا ئٹی کی جانب سے توصیفی اسناددی گئیں۔ ورلڈ ٹیچرڈے،٥اکتوبر ٢٠١١ء کے موقع پربیسٹ ٹیچر ایوارڈبدست وزیرِ تعلیم، پیر مظہرالحق صاحب سے سرفراز ہوئیں، جبکہ خٰیر پور یونیورسٹی،سندھ سے اعزازی ڈگری ملی۔
چیف ایگزیکٹئو شریف اکیڈمی شفیق مراد نے انہیں اردو ادب کا گوہرِ انمول قراردیتے ہوئے کہاکہ ”انکی ادبی تخلیقات اورعلمی خدمات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔اکیڈمی میں انکی شمولیت اکیڈمی کی ترقی اور اکیڈمی کے مقاصد کے حصول کے لیے سنگ، میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔وہ صوبہ سندھ میںنامزد ہونے والی پہلی ڈائریکٹر ہیں ۔انکی نامزدگی سے صوبہ سندھ میں اکیڈمی کے کام کو تقویت ملے گی۔”