شہزادی کو برسوں ایک ایسی بہادر خاتون کے طور پر یاد رکھا جائیگا ، جو ایک عظیم اور پروقار مقام کی حامل ہونے کے باوجود انسان دوست تھی۔
شہزادی ڈیانا قدرت کی طرف سے عطا کردہ نسوانی حسن سے مالامال ایک انتہائی جاذب نظر اور مقبول عورت تھی۔ وہ ان ظاہری خوبیوں کے علاوہ بھی اپنی ذات میں ڈھیروں خداداد اوصاف سے مزین تھی۔ وہ جدید دور کے لحاظ سے اپنے فیشن میں مقبول ترین، اپنے عہد کے لوگوں میں مقبول ترین ، اپنی خوبصورتی میں عظیم ترین اور نسوانی حسن کی ایک لازوال شخصیت تھی۔ ان ساری ذاتی خوبیوں کے باوجود اسے اسکے ان فلاحی کاموں کی وجہ سے یاد رکھا جائیگا جو وہ جدید دور کی بد ترین بیماری ”ایڈز” اور زیر زمین مائنز کے خلاف بین الاقوامی تحریک کے ذریعے انجام دے رہی تھی۔
شہزادی ڈیانا ایک مسلمہ ہیرو ہے کیونکہ اس نے اپنی ساری خداداد خوبیوں ، صلاحیتوں اور شہرت کو معاشرے کے ان لوگوں کے آرام و سکون کے لیے وقف کیا جنہیں لوگ بہت جلد بھلا دیتے ہیں۔ اس نے غربت و افلاس کا شکار، بیماروں اور معاشرتی ناانصافی کا شکار لوگوں کے لیے آواز اٹھائی۔ اس نے ایڈز سے مرتے لوگوں کو زندگی کی امید دلائی اور اپنی ذاتی زندگی میں اپنی عملی جدوجہد اورکوششوں کے بارے میں کھل کر اظہار کیا۔
اس جیسی حقیقی شہزادی دنیا نے شاید ہی د یکھی ہو۔ لاکھوں غمزدہ لوگ اس کے عظیم کام، دنیا بھر میں زیر زمین مائنز کی فروخت پر پابندی کے لیے جدوجہد، ایڈز کے علاج کی دریافت اور غربت و افلاس کے مارے لوگوں کی مدد ، کے بارے میں اس کی تحریک کو زندہ رکھیں گے۔ وہ شہزادی کی اس حسین مسکراہٹ کو کبھی مرنے نہ دیں گے جو وہ سچے دل سے بطور مددگار نچھاور کرتی تھی۔
کئی سال قبل لوگوں نے دیکھا کہ لیڈی ڈیانا سپنسرایک نوجوان اور خوبصورت سکول ٹیچرجس کا نارتھیمپٹن سے تعلق ہے ، نے تخت و تاج برطانیہ کے مالک شہزادے پرنس چارلس سے شادی کر لی ہے۔ تجزیہ نگاروں نے اسے برطانوی بادشاہت کا ایک نیا باب قرار دیا۔ برطانوی بادشاہت جو فرسودہ رسم ورواج اور حقیقی زندگی سے دور شخصیات کی بدولت معاشرے سے الگ تھلگ تھی اور جمود کا شکار تھی۔ جمہور کو اس سے کوئی لگائو نہ تھا۔ اس شادی کو اس کے لیے ایک نئی روح قرار دیا گیا۔
کئی سالوں تک یہ تجزیہ درست رہا۔ ڈیانا نے اپنے مستقبل کے مقام سے باخبر اپنی دفتری ذمہ داریاں انتہائی خوبصورتی اور تدبرسے سنبھالیں اور بادشاہت کو ایک نئی زندگی عطاکی۔ وہ بے کیف بادشاہت جسے دنیا قصہ پارینہ سمجھ رہی تھی اب دنیا بھر کی نظروں کا مرکز بن گئی۔ اب انیسویں صدی کی فرسودہ بادشاہت جدید دور کی قابل عمل بادشاہت بن گئی۔ جس کے بارے میں عوام ہر لمحہ باخبر رہنا چاہتے تھے۔
90 کی دہائی میںاس بہترین جوڑے کی شادی باہمی اختلافی خبروں کا مرکز بن گئی۔ لیڈی ڈیانا اور شہزادے چارلس کے ازدواجی رشتہ میں دراڑیں پڑنا شروع ہوئیں۔ بین الاقوامی میڈیا نے اس کی بہت تشہیر کی۔ بالآخر اگست 1996 کو دنیا کا یہ مقبول ترین جوڑا علیحدہ ہو گیا۔
شہزادی جو کہ اب دو بیٹوں ولیم اور ہیری کی ہمدرد و مددگار ماں تھی نے اپنے آپ کو بہت سارے رفاعی اور فلاحی کاموں میں مصروف کر لیا۔ ان میں نمایاں ترین ایڈز کے خلاف مہم اور بین الاقوامی طور پر زیر زمین بچھائی جانے والی مائنز کی تباہی کے خلاف اس کی تحریک ہیں۔ جن کا مقصد دنیا کو ایک مہلک بیماری اور خود کردہ تباہی کے اثرات سے آگاہی دینا تھا۔
شہزادی نے بڑی دلیری سے اپنی ذات کے بارے میں بڑے واضح اور دیانتدارانہ الفاظ میں کھل کر اظہار خیال کیا۔ جس نے اسے عام افراد کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ بنا دیا۔ شہزادی نے میڈیا میں اپنی شہرت کا مثبت استعمال کیا اور اسے دنیا کے ضرورتمندوں، اوربھلائے گئے افراد کے لیے توجہ کی تشہیر کا ذریعہ بنا دیا۔
شہزادی ڈیانا کی تصویروں کی ڈیمانڈ1997 میں بلند ترین مقام پر تھی۔ ایک مقبول اور نمایاں شاٹ کسی بھی فوٹو گرافر کے لیے ٹیبلائیڈ سے ہزاروں ڈالر کمائی کا ذریعہ بن سکتا تھا۔ کوئی ایک انوکھی تصویر جو کسی نئے سکینڈل کی بنیاد بن سکے ، کے حصول میں فوٹوگرافر بہت دور تک گئے۔
مقبول جریدوں سے لاکھوں ڈالرز کے حصول کے لالچ میں ڈیانا کے ایک شاٹ کے لیے31 اگست1997 کو ڈیانا جب رٹز ہوٹل پیرس سے اپنے دوست ڈوڈی الفائد کے ساتھ باہر نکلی توموٹر سائیکلوں پر سوار درجنوں فوٹرگرافر اس کے تعاقب میں اس امید پر کہ کوئی سنسنی خیز منظر، کوئی سکینڈل افزا تصویر حاصل کر سکیں جو کسی نئے سکینڈل یا لاکھوں ڈالر کی آمدن کا سبب بن سکے۔ مگر یہ تعاقب، خونی تعاقب ثابت ہوا اور ڈیانا ، ڈوڈی الفائد اور ان کا ڈرائیور اس کی نذر ہو گئے۔
شہزادی کوبرسوں یاد رکھا جائیگا ایک ایسی بہادر خاتون کے طور پر جوایک عظیم اور پروقار مقام کی حامل ہونے کے باوجود ایک انسان دوست تھی۔ وہ ان لاکھوں دلوں کی دھڑکن ہے جو اس کے فلاحی کاموں سے مستفید ہو رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہر دل کی دھڑکن تھی اس کی کمی ہر کوئی محسوس کرتا ہے۔
شہزادی ڈیانا کی ایڈز کے خلاف جنگ: شہزادی نے اپنی تمام زندگی رفاحی اور فلاحی کاموں میں گزاری۔ بے گھر افراد، بے سہارا بچے، نشے کا شکار افراد اور ایچ آئی وی(ایڈز) میں مبتلا افراد ان سب کے لیے اس کا کام ایک یادگار ہیں۔ اس نے ایڈز سے متاثرہ ایک فرد سے ہاتھ ملا کر تمام دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
2نومبر 2002 کو جنوبی افریقہ کے سابق صدرنیلسن منڈیلا نے اعلان کیا کہ نیلسن منڈیلا چلڈرن بہبود فنڈ، ویلز کی شہزادی کے میموریل فنڈ سے اشتراک کرنا چاہتا ہے۔ تاکہ وہ جنوبی افریقہ میں ایڈز سے متاثرہ افراد انکے خاندان اور اس بیماری سے مرنے والوں کے یتیم بچوں کی فلاح وبہبود کر سکے۔ مرتے لوگوں کا خیال کرنا اور مصیبت زدہ کی مدد ہی وہ کام ہیں جنکی خاطر لیڈی ڈیانا جذبہ اور لگن رکھتی تھی۔
اس کے علاوہ لندن میںایک پریس کانفرنس کے دوران نیلسن منڈیلا نے کہا کہ ”شہزادی جب کسی طاعون کے مریض کے کندھے تھپتھپاتی تھی یا ایڈز سے متاثرہ فرد کے بستر پر بیٹھ کر اس کا ہاتھ سہلاتی تھی۔ اس وقت وہ لوگوں کے دلوں میں ایسے جذبے انڈیل رہی ہوتی تھی جو ایسے افراد کی زندگی کے مواقع بڑھا دیتے تھے”۔
منڈیلا نے مرحومہ شہزادی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا” جب شہزادی ایڈز کے مریضوں کے وارڈ میں جاتی تو لوگ محسوس کرتے کہ یہ وارڈ واقعی ایسی جگہ نہیں جہاں کوئی خطرہ ہو۔”
اس کے بعد منڈیلا شہزادی کے آبائی گھر گئے اس کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔ نیلسن منڈیلا کی لیڈی ڈیانا سے ملاقات شہزادی کے1997 کے دورہ جنوبی افریقہ کے دوران ہوئی تھی۔