بھارتی ریاست ہریانہ کے شہر” سرسا”کے گائوں بھٹو کالونی سے ہجرت کرکے آنیوالا ایک خاندان سندھ کے شہر لاڑکانہ آباد ہوا جس کے سربراہ سربالی شاہنواز بھٹو (والد قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو) تھے اس خاندان کو برطانوی حکومت نے سندھ کے نخلستانوں میں اراضی تحفہ میں دی جسے کاشتکاری کیلئے قابل کاشت بنا کر اس خاندان نے ذریعہ معاش بنایا، اس خاندان کی برادری حیثیت پر دو رائے پائی جاتی ہیں کچھ کے قریب یہ خاندان راجپوت اور کچھ کے قریب ارائیں تھا البتہ غالب رائے ارائیں بیان کی گئی ہے۔
21جون 1953ء کو اس گھرانے کے چشم و چراغ بانی پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے ہاں محترمہ نصرت بھٹو کے بطن سے پیداہونیوالی پہلی اولاد بیٹی پیدا ہوئی جس کی ولادت پر خاندان بھر میں بھرپور خوشیاں منائی گئیں، بیٹی کا نام اسکی خداداد خوبصورتی کے باعث بے نظیر رکھا گیاجسے ذوالفقار علی بھٹو پیار سے ”پنکی” پکارتے تھے اور جب یہ ننھی ”پنکی” نے ہوش سنبھالا تو اس کی خداداد صلاحتیں اور ذہانت بھانپ کر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ میری یہ بیٹی وطن عزیز پاکستان اور میرے خاندان کا نام روشن کرے گی، یہی وجہ تھی کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اپنے دور حکومت میں اپنے غیر ملکی دوروں پر محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہمراہ رکھتے اور غیر ملکی سربراہان سے برملا کہتے کہ یہ میری طرح میرے ملک کے عوا م کی خدمت کرے گی اور یہی ہوا بے نظیر بھٹو عظیم باپ کی عظیم بیٹی ثابت ہوئیں وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں ،15سال کی عمر میں انہوں نے کراچی گرائمر سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور بعدازاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے انہیں امریکہ بھیجا گیا 1969ء سے 1973ء کے دوران بے نظیر بھٹو نے وہاں کے معروف تدریسی ادارہ ”ریڈ کلف” سے استفادہ تعلیم کیا۔
بی اے کی ڈگری ”ہاروڈ یونیورسٹی” سے حاصل کی اور مزید تعلیم کے حصول کیلئے برطانیہ چلی گئیں، 1973ء سے 1977ء کے دوران انہوں نے ”آکسفورڈ یونیورسٹی” سے فلسفہ، سیاسیات و معاشیات کی تعلیم پائی ، اس دوران انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے عالمی قوانین اور سفارتکاری کا ڈپلومہ بھی حاصل کیا، دسمبر1976ء میں وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی طلباء یونین کی صدر منتخب ہوئیں، برطانیہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ پاکستان لوٹیں تو ملک پر جنرل ضیاء الحق کی آمریت مسلط تھی اور آمر حاکم کے حکم پر انہیں فوری طور پر نظر بند کردیا گیا وہ اپنے باپ کی طرح با ہمت اور بہادر تھیں انکی زندگی میں بے پناہ دکھ اور تکلیفیں آئیں جو انہوں نے اس ملک کے عوام کی خاطر خندہ پیشانی سے برداشت کیںاور اپنے باپ کے مشن کو آگے بڑھانے کیلئے عملی سیاست میں آگئیں پاکستان کی غریب عوام کیلئے کو نعرہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے لگایا وہ ملک کے پسماندہ اور غریب عوام کیلئے روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی تھاجس کی تکمیل کیلئے محترمہ بے نظیر بھٹو نے عوامی روابط بڑھاتے ہوئے عملی جدوجہد کا آغاز کیا، 4اپریل1979ء کو ان کے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیدی گئی اور یوں اس خاندان کی ملک و ملت کیلئے قربانیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور 1980ء میں انکے بھائی شاہنواز بھٹو کو فرانس میں ہلاک کیا گیا انکے دوسرے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو ایک گہری سازش کے تحت پی پی پی ہی کے دور اقتدار کے دوران ہلاک کردیا گیا، 18دسمبر 1987ء کو بے نظیر بھٹو کی شادی سندھ کے مشہور سیاستدان حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری کے ساتھ ہوئی، ان کے ہاں تین بچے بیٹا بلال بھٹواور بیٹیاں آصفہ اور بختاور نے جنم لیا، 16نومبر1988ء کو عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اکثریتی کامیابی کے نتیجہ میں 35سال کی عمر میں انہیں پہلی کم عمر خاتون وزیر اعظم منتخب ہونے کا اعزاز ملا اور دسمبر1989ء میں” پیپلز میگزین ”نے بے نظیر بھٹو کو 50کامیاب اورخوبصورت ترین افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا۔
1989ء میں ”لبرل انٹر نیشنل ”کی جانب سے ایوارڈ سے نوازا گیا، بے نظیر بھٹو کی حکومت 1990ء میں کرپشن کے الزامات کی آڑ میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کی، 1993ء کے انتخابات میں پی پی پی کی واضح برتری کے تحت انہیں دوبارہ وزارت عظمیٰ کا قلمدان سونپا گیا تاہم اس مرتبہ 1996ء کو اسوقت کے صدر مملکت فاروق خاں لغاری نے کرپشن کے الزامات کو جواز بنا کر انکی حکومت کو غیر فعال کیا، 1998ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے نامسائد حالات کے باعث جلا وطنی اختیار کرکے دبئی کو مسکن بنایا، 18اکتوبر2007ء میں پاکستان آمد تک وہ وہیں سکونت پذیر رہیں البتہ اس دوران دبئی سے برطانیہ سمیت دیگر ممالک کے دورے کئے اور ملکی و غیر ملکی سیاست پر بھرپور توجہ مرکوز رکھی ان دنوں میاں نواز شریف کی حکومت پر شب خون مار کر ملکی اقتدار پر جنرل پرویز مشرف نے آمریت مسلط کررکھی تھی آمر حاکم نے میاں نواز شریف کو ملک سے بے دخل کرکے ایک معاہدہ کے تحت سعودی عرب بھجوایا جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے سیاسی حریف میاں محمد نواز شریف سے ایک سیاسی معاہدہ کیا جسے میثاق جمہوریت کا نام دیا گیاجو نہایت قلیل عرصہ تک ہی قائم رہ پایا جس کی ناکامی میں دونوں سیاسی پارٹیوں میں موجود بعض مفاد پرست عناصر کا ہاتھ شامل حال تھا اگرچہ یہ معاہدہ کامیابی سے ہمکنار رہتا تو ملکی حالات میں مثبت و تعمیری تبدیلیاں ناگزیر تھیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو ساڑھے آٹھ سال بعد 18اکتوبر 2007ء کو وطن واپس پہنچیں اور اس دوران انکے استقبالی جلوس کو کراچی میں دو خود کش حملوں سے ٹارگٹ کیا گیا جن میں پارٹی کے سینکڑوں جیالے ہلاک اور متعدد زخمی و عمر بھر کی معذوری کا شکار بنے ، بے نظیر بھٹو نے اس اندوھناک واقعہ کے باوجود اپنا سیاسی سفر جاری رکھا وہ خیبر پختونخواہ(سرحد) اور بلوچستان بھی گئیں حالانکہ ان دنوں ان صوبوں کے حالات نہایت تشویشناک تھے، 18اکتوبر کو طویل جلاوطنی کے بعد وطن پہنچنے پر تین ماہ بعد یعنی آج سے 5برس قبل 27دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں انتخابی مہم کے سلسلہ میں منعقدہ جلسہ عام کے اختتام پر انہیں دوبارہ خود کش حملہ کا نشانہ بنایا گیا ، یہ ملکی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن تھا یہ حملہ اس وقت کیا گیا کہ جب وہ جلسہ گاہ کے عقبی دروازہ سے نکل کر واپسی کیلئے اپنی گاڑی میں سوار ہوئیں اور سخت ترین سکیورٹی کے باوجود حملہ آور انہیں ٹارگٹ کرنے میں فقط اس لئے کامیاب رہا کہ وہ اپنی گاڑی کی (روف) چھت سے سر باہر نکال کر پارٹی کارکنان کے پرجوش نعروں کا جواب دے رہی تھیں یوں اس حملہ کے نتیجہ میں بے نظیر بھٹو شہید سمیت دیگر درجنوں افراد شدید زخمی ہوئے جن میں سے اکثر زخمی افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے اور کچھ مقامی ہسپتالوں میں دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوئے جبکہ اس حملہ کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کوبھی شدید زخمی حالت میں فوری طور پرطبی امداد کیلئے ہسپتال پہنچایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکیں اور قوم کو داغ مفارقت دیتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملیں ان کی شہادت کی خبر ملک میں جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور اسکے رد عمل میں ہر طرف افراتفری و غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ، جیالے سڑکوں پر نکل آئے، ہوائی فائرنگ، توڑ پھوڑ، جلائو گھیرائو اور مختلف املاک کو نشانہ بنایا جانے لگا، شرپسندوں نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی بنکوں کو لوٹا، کئی مالیاتی ادارے لوٹ مار کانشانہ بنائے، حالات کی سنگینی کو بڑھاوا دینے کیلئے مخالف سیاسی جماعتوں کے دفاتر جلائے گئے حتیٰ کے پنجاب سے سندھ آنے جانے والی پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹرینوں کو بھی نذر آتش کیا گیا، یہاں تک کہ ازلی دشمن بھارت کے حملہ آور ہونے تک کے خدشات سامنے آئے جبکہ چند عناد پرستوں نے سندھ علیحدگی کا بھی نعرہ لگایاجس پر محترمہ شہید کے شوہر آصف علی زرداری نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر اپنا مثبت و ناگزیر کردار ادا کرتے ہوئے ایسے تمام عوامل کا راستہ روکا جو ملک و قوم کو انتشار اور تباہی کی طرف دھکیل سکتے تھے ، محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر فقط پارٹی وابستگان کے ہاں ہی صف ماتم نہ بچھی تھی بلکہ قوم کیلئے بھی یہ کسی المیہ سے کم نہ تھی، البتہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں خصوصاً افواج پاکستان نے اس نازک صورتحال کو سنبھالا دیتے ہوئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا جس سے ملکی سلامتی پر اٹھنے والے سوالات لامعنی ہوئے، محترمہ کی شہادت پر ملک بھر میں تعطیلات سمیت تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی طرف سے سوگ کا اعلان کیا گیا۔
Benazir Bhutto
بھٹو کے نام کو زندہ و جاوید رکھنے والی ”پنکی” کو جب انکے بابا کے پہلو میں دفن کیا جارہا تھا تو بہت سے لوگوںپر سکتہ طاری تھا لوگ ایک دوسرے کے گلے لگ کر دھاڑیں مار کر روتے رہے ، انکے اعزاز میں تمام تر مکاتب فکر نے تعزیتی تقاریب کا انعقاد کیا جبکہ ملکی و غیر ملکی میڈیا نے انکی شہادت پر خصوصی اشاعتوں کا اہتمام اور انکی سیاسی و عوامی خدمات پر مبنی ڈاکومنٹریاں نشر کیں تو دوسری طرف قوم نے انہیں شہید جمہوریت قرار دیا، بعدازاں انکے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کو انکا سیاسی جانشین مقرر کیا گیا مگر ان کی تعلیم مکمل ہونے تک آصف علی زرداری کو پارٹی کا شریک چیئرمین مقرر کیا گیااور آئندہ عام انتخابات میں ان کی سربراہی میں پیپلز پارٹی ایک بار پھر عوامی پذیرائی کی بدولت برسر اقتدار آئی اور صدر آصف علی زرداری نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی پہلی برسی کے موقع پر ”پاکستان کھپے” کا نعرہ لگا کر محترمہ کے قاتلوں سے روز حشر حساب لینے کا اعادہ کیاالبتہ تاحال محترمہ کی المناک شہادت کے واقعہ کی کئی پہلوئوں سے تفتیش جاری ہے، قارئین! محترمہ بے نظیر بھٹو کی ذات کئی پہلوانکی شخصیت کے آئینہ دار ہیںایک بیٹی کی حیثیت سے انہوں نے اپنے شفیق و محب والد کے عدالتی قتل اور دو بھائیوں کو بھری جوانی موت کے گھاٹ اتارے جانے کا صدمہ جھیلا، خاردار راہ سیاست کی تلخیاں برداشت کیں، جلاوطنی کی صعوبت سے دوچار ہوئیں، بیماری و صدمات کی شکار والدہ کو بستر مرگ پر منظر سے پس منظر جاتے ہوئے دیکھا، شوہر آصف علی زرداری کو پابند سلاسل کئے جانے کے باعث حالات کی ستم ظریفی کا نشانہ بنیں، اولاد کی تربیت و تحفظ کیلئے انہیں تن تنہا سرگرداں ہونا پڑا، یہی نہیں بلکہ ایک خاتون سیاستدان ہونے کے باعث جن عوامل کا انہیں سامنا رہا ان کا کرب یقینا ان کیلئے جاں سوز رہا ہوگا، محترمہ بے نظیر بھٹو کی ملی و عوامی خدمات انکی بھرپور قائدانہ صلاحیتوں کا برملا اظہار ہیں جس سے آج بھی ملکی عوام یکسر مستفید ہیں یہی وجہ ہے کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھٹو کی تصویر، چاروں صوبوں کی زنجیر، وفا ق کی علامت، بی بی صاحبہ اور دختر مشرق کے القابات سے پکارا گیا۔
یہاں ہماری مشیر داخلہ رحمان ملک سے خصوصی التجاء ہے کہ انہوں نے شہید جمہوریت کی 5ویں برسی کے موقع پر جو انکلی شہادت کے متعلق چشم کشاء انکشافات کرنے کا اعلان کیا ہے اس پر انہیں اس امر کو مد نظر رکھنا ہوگا کہ کہیں محترمہ کی جدائی کے باعث غم و غصہ کی شکار عوام مزید تلخیوں کا ہی شکار نہ ہو جائے کیونکہ ماضی میں انکی طرف سے متعدد بار ایسے بیانات سامنے آچکے ہیں کہ جو قوم کیلئے ذہنی ریلیف کی بجائے تکلیف کا سبب بن چکے ہیں۔