میرے ملک میں چونکہ اِن دنوں انتخابات کی آمدآمد ہے اور اِس سُنہری موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اور میرے ملک کا وہ ٹولہ جو آج برسرِ اقتدار ہے وہ ہوسِ اقتدار میں ایسا مبتلا ہو چکا ہے کہ یہ کسی کی اچھی بات اور مشورہ بھی سُننے کو روادار نہیں ہے آج اِس کی اِس بیگانگی پر میں مختصراََ یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اَب یہ ٹولہ ہوس ِ اقتدار میں اُس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ جہاں مُلک کے اٹھارہ کروڑ مظلوم عوام کی حیثیت بھی اِس کے نزدیک کیڑے مکوڑوں کے سوا کچھ نہیں ہے اور دوسری جانب ایک وہ گروپ بھی ہے کہ جو اقتدار کی کُرسی موجودہ حکمرانوں سے زبردستی چھین کرحاصل کر لینے کا شدت سے خواہشمند ہے اور اپنے اِس مقصدکے لئے اَب یہ ہر وہ اخلاقی و سیاسی حدیں پھلانگ لینا چاہتا ہے۔
جہاں اِنسانی اقدار بھی بے بس ہو تی نظرآتی ہیں سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے کے بندے توڑنے اور جوڑنے کا عمل تیزی سے جاری ہے سیاستدان صُورتیں بدل بدل کا آرہے ہیں اور اپنی قیمتی لگا اور بڑھا رہے ہیں اور الیکشن سے قبل ہی ملک میں ایک ایسی سیاسی بساط بچھی چکی ہے جس سے متعلق شاعر کایہ کہناہے : بساطِ نو بچھی ہے جو سیاست گاہِ ہستی میں نئے شاطر بھی آئے ہیں نئے مہرے بھی آئے ہیں سیاست میں، قیادت میں، وزارت میں حکومت میں پُرانی صُورتیں بھی ہیں نئے چہرے بھی آئے ہیں اور اِسی طرح خود غرضی میں مبتلاسیاستدانوں کے ملک کے طول و ارض میں پھیلائے ہوئے سیاسی جال و چال اورعوام کو سبزباغ دِکھائے جانے والی حربے بازیوں پر شاعر کا یہ بھی کہناہے کہ: یہ تقاضائے سیاست ہے وطن میں آجکل یہ الیکشن کا زمانہ ہے ہر اِک سانچے میں ڈھل کہہ رہے ہیں پیرپگارا لیگیوںکو ووٹ دو حکمِ زرداری ہے کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ چل مگر افسوس ہے کہ ایسی تمام برائیوں کے باوجود بھی کو ئی اپنی اصلاح کرنے اور عوام سے متعلق کچھ اچھا کرنے کو تیار نہیں ہے اگر اِن دونوں میں سے کوئی کچھ کرناہی چاہتا ہے ، تو بس اپنے لئے ہر وہ کام کرنے کو تیار نظر آتا ہے جس میں اِس کے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات ہوں یوں آج میرے ملک میں دونوں جانب(حزبِ اقتداراور حزبِ اختلاف) سے ہوسِ اقتدار کی تڑپ دِکھائی دے رہی ہے اور دنوں جانب سے ایک دوسرے کے پوشیدہ کرتوتوں کے پنڈورا بکس کھل رہے ہیں اور شاید یہ اُس وقت تک کھلتے رہیں گے جب تک انتخابات نہیں ہو جاتے ہیں۔ یہاں فی الوقت میں اِس بحث میں تو جانا نہیں چاہتا مگر یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ برِصغیر پاک و ہند کے ہر عمر کے ادنا و اعلیٰ لوگ شیخ چلّی اور علی بابا اور اِس کے چالیس چوروں کو اِن کے علیحدہ علیحدہ قول و فعل اور کرداروں کے حوالوں سے کن الفاظوں اور جملوں کے ساتھ جانتے ہیں یہ تو آپ کو بھی معلوم ہے۔
Asif Ali Zardari
مگر پھر بھی میں وضاحت کے لئے یہ کہتا چلوں کہ اکثر ایسے مواقعوں پر جب کوئی خود سے ایسے منصوبے بنا رہا ہو جس میں بدگمانیاں پیدا ہونے کے احتمال بڑھ رہے ہوں تو پھر ایسے وقت میں اِس خطے کے باسیوں میں کثرت سے شیخ چلّی کا منصُوبہ والی ضرب المثل کا استعمال بڑھ جاتا ہے اور علی بابا اور اِس کے چالیس چوروں کا تذکرہ زور پکڑ لیتا ہے۔ بہر حال آج مجھے اِن دونوں شخصیات سے متعلق دی جانے والی ضرب المثل اِس وقت شدت سے یاد آگئیں جب گزشتہ دنوں ملک کے بیشتر موقر روزناموں کے صفحہ اول پر شائع ہونے والی دواور تین کالمی خبریں میری نظر سے گزریں جو ہماری موجودہ جمہوری حکومت کے انتہائی فہم وفراست سے لبریز محترم المقام عزت مآب صدرِ مملکت جناب آصف علی زرداری اور اِن کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کے اُن خطابات سے متعلق تھیںجواَنہوں نے کراچی میں صدراتی کیمپ آفس بلاول ہاؤس میں پارٹی اراکین اسمبلی اور رہنماؤں کے اجلاس سے کیا تھا اجلاس سے خطاب کے دوران ہمارے صدر ِمحترم نے اپنے مخصوص لب و لہجہ میں کہا کہ ”یہ ہماری دانشمندی اور اعلیٰ سیاسی اور مصالحت و مفاہمتی عمل اور پالیسی کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم نے عوام کے بھر پور تعاون سے جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا ہے۔
یہ ہمارا اور ہماری پارٹی کے لیڈروں اور ہماری جمہوریت اور مصالحت پسند حکومت کا ہی امیتاز ہے کہ ہم نے جمہوریت کو ڈی ریل کرنے والوں کو گڑ دے زیر کر دیا ہے اور آئندہ بھی ہم ایساہی کریں گے ہمارے اِس عمل پر چاہئے کوئی کچھ بھی کہے ہمیں اچھا کہے یا بُرا مگر ہم ایسا ہی کریں گے جیساہم کرتے آئے ہیں اِس کے ساتھ ہی صدرِ مملکت نے یہ بھی کہا کہ یہ ہماری اِس جمہوری اور جمہوریت پسند حکومت کوہی اعجاز حاصل ہو گا کہ یہ اپنی مدت پوری کرے گی اور انتخابات کی تاریخ کا اعلان آئین کے مطابق کیا جائے گاعام انتخابات قریب ہیں نگراں حکومتیں آئیں کے مطابق تمام اتحادی، اپوزیشن اور سیاسی قوتوں کی مشاروت سے تشکیل دی جائیں گی اور ایسی بہت سی گول مول باتیں ہیں جن کا تذکرہ میں مزید نہیں کرنا چاہوں گا مگر سوائے ایک بات کے جو اِس موقع پر صدرِ محترم عزت مآب آصف علی زرداری کے خطاب کے بعد پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں کہی ہے۔
PPP
اِن کے خطاب کا یہ ایک جملہ جس نے میرے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیں اور میں حیرت انگیز طور پر ایک زوردار قہقہ مار کر رہ گیا اِن کا وہ جملہ یہ تھا کہ” پارٹی کی انتخابی مہم میں خود چلاؤں گا اور صدر محترم نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ” پیپلز پارٹی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات کرائے گی” یہ دونوں ایک بعد دوسرے وہ جملے تھے جنہیں پڑھنے کے بعد میں یہ سمجھتا ہوں کہ اَب عمران خان اور دوسروں کے سر یقیناً چکرا کر رہ گئے ہوں گے کہ وہ ایک عرصے سے صرف یہ رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ ”صدر زرداری کے ہوتے ہوئے انتخابات صاف شفاف نہیں ہو سکتے اور الیکشن کو صاف و شفاف ہونے کی اُمید نہیں کی جا سکتی ہے ”جبکہ اَب اِس پس منظر میں عمران خان جیسے دوسروں کے خدشات اور تحفظات جو بیشک درست ہوں مگر باوجود اِن سب کے صدر تو ”شیخ چلّی کا منصوبہ ”بنا چکے ہیں اَب دیکھنا یہ ہے کہ یہ اِس میں کتنا کامیاب ہوتے ہیں اور دوسرے کیا کرتے ہیں .؟(ختم شُد)
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com