صدر اوباما کی شامی حکومت کو تنبیہ

Barack Obama

Barack Obama

امریکی صدر باراک اوباما نے شام کے صدر بشار الاسد کو تنبیہ کی ہے کہ اگر ان کی حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تو ان کو اس کے لیے جوابدے ہونا پڑے گا۔

اس سے پہلے شام کی حکومت کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کرے گی لیکن اگر اس پر بیرونی حملہ کیا گیا تو وہ ایسا کرنے سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اگر شامی حکومت نے ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی المناک غلطی کی تو عالمی برادری اور امریکہ ان سے جواب طلب کرئے گی۔

امریکی وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا ممکنہ استعمال مکمل طور پر نا قابلِ منظور ہوگا۔

امریکی حکام نے ان ہتھیاروں کے سلسلے میں کسی بھی پلان بی کی تفصیلات پر بات کرنے سے انکار کیا ہے تاہم انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن نے گزشتہ ہفتے اسرائیل کے دورے پر اس موضوع پر بات چیت کی تھی۔ ادھر اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل بان کی مون کا کہنا تھا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا خیال بھی قابلِ مذمت ہے۔

دوسری جانب حلب میں شدید لڑائی جاری ہے جہاں باغی فوجیوں نے شہر کے کچھ حصے پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

شام کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان جہاد مقدسی کا کہنا تھا کہ تمام ہتھیار مسلح افواج کے قبضے میں ہیں اور محفوظ ہیں تاہم ’انہیں شام کے اندر استعمال نہیں کیا جائے گا‘۔

شام کے سرکاری ٹیلی وژن پر نشر ہونے والی نیوز کانفرنس میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان جہاد مقدسی نے کہا ’ کسی قسم کا کیمیائی یا حیاتیاتی ہتھیار استعمال نہیں کیا جائے گا، میں دہراتا ہوں کہ شام کے بحران میں ان کا استعمال نہیں ہوگا۔ قطع نظر اس کے کہ اس اندورنی بحران میں کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں‘۔

Syria President Bashar al-Assad

Syria President Bashar al-Assad

’اس قسم کے ہتھیاروں کی تمام اقسام شامی فوج کے براہِ راست اختیار میں ہیں اور یہ اس وقت تک استعمال نہیں کیے جائیں گے جب تک شام کسی بیرونی اشتعال کا شکار نہیں ہوتا۔‘

واضح رہے کہ آج تک شام نے کبھی اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ اس پاس کیمیائی ہتھیار ہیں۔

اس سے قبل عرب لیگ نے شام کے صدر بشار الاسد کو محفوظ راستہ دینے کی پیشکش کے ساتھ عہدہ چھوڑنے کو کہا۔

شام میں باغیوں کو گذشتہ ہفتے ہونے والی کچھ اہم ہلاکتوں سے ان کی کافی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔

شامی حکومت کے چار اہلکار جن میں وزیرِ دفاع اور صدر اسد کے برادرِ نسبتی شامل ہیں اٹھارہ جولائی کو دمشق میں ہونے والے حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔

فری سرییئن آرمی کے باغیوں نے ہمارے نامہ نگار کو بتایا کہ یہ ہلاکتیں دمشق حکومت کے لیے بڑا جھٹکا ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک وقت میں خوف کی علامت سمجھی جانے والے خفیہ پولیس اب بیزار ہو چکی ہے اور حکومت اب مکمل طور پر صرف کمزور فوج پر انحصار کر رہی ہے۔

News Source : BBC