یہ بات ہماری سمجھ سے بالا تر ہے کہ صدر ممکت اور وزیر اعظم پاکستان پر آخر وہ کونسا دباو ہے جس کے تحت انہیں صرف سرائکی صوبہ ہی دیکھائی دے رہا ہے۔ان کے پیٹ میں اُس وقت درد کیوں پیدا نہیں ہو اجب پورا سرائکی خطہ سیلاب کی لپیٹ میں تھا اور ان کی حکومت اس کے لئے بیانات کے علاوہ کچھ اور نہیںکیا گیا۔صحیح یا غلط دوسری جانب یہ تاثر بھی دیا جارہا ہے کہ بل آخریہی نعرہ ملک کے سب سے بڑے شہر کو الگ صوبہ بنانے کی بنیاد بنے گا!!!اور یہ شورش زدہ بلوچستان کی تقسیم کی بھی بنیاد بنے گا۔صوبہ ہزارہ اور سرائکی صوبوں کی بنیاد نفرتوں پر رکھنے کی کوشش مسلسل جاری ہیں۔جس میں بین الاقوامی ایجنسیوں کو بھی شامل بتایا جا رہا ہے۔ ہمارے اسٹیک ہولڈر بھی اس معاملے میں برابر کے شریک محسوس کئے جاتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے قائم مقام چیئر مین اور صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اعلان کیا ہے کہ سرائکی صوبہ اسی حکومت میں بنے گا۔موجودہ جمہوری حکومت انتخابات سے پہلے سرائکی صوبہ بنائے گی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیر اعظم جنوبی پنجاب میں الگ سرائکی صوبے کی تشکیل کے لئے جلد تمام جماعتوں سے مشاورت کا عمل شروع کریں۔اگلے ہی دن صدر زردا ری نے ایک ہفتے میں سرائکی بینک کے قیامکا بھی اعلان کر چکے ہیں۔صدر صاحب یہ بھی وضاحت کر دیتے تو زیادہ بہتر ہوتاکہ کراچی صوبہ بنانے کا ان کی طرف سے کب اعلان ہوگا؟؟؟جب نئے صوبوں کے قیام کا ذکر چل ہی نکلا توذراصدر صاحب فرمائیںسندھ میں کتنے صوبے تشکیل دیں گے؟؟؟پنجاب میں کتنے ،سرحد و بلوچستان میں کتنے کتنے صوبے بنائیں گے؟جب سندھ میں مزید صوبے بنانے کا ذکر ہوتا ہے تو پاکستان چند پاکستان کو کمزور دیکھنے کے خاہشمندوں اور پیپلز پارٹی کے پاکستان کھپے کا نعرہ لگانے والوں کے تو جسم میں جیسے جان ہی باقی نہیں رہتی ہے۔
سرائکی صوبے کا قیام لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا سیاسی نعرہ ہے۔کہیں یہ آنے والے انتخابات کی تیاری تو نہیں ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کے پاس اس وقت کوئی ایشو نہیں ہے جس پر عوام کو ایکسپلائٹ کیا جا سکے…کہیں پھر تو عوام کو دھوکہ دینے کی سازشیں تو نہیں ہو رہی ہے۔ مملکتِ خداداد میں طرح طرح کے سیاسی ایکٹر اپنے اقتدار کو بچانے اور اس کو طول دینے کے لئے ایسے ایسے نعرے ایجاد کر رہے ہیں کہ ماضی میں جن نعروں کی نفی وہ خود شدت کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔بہرکیف ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھئے ہوتا کیا۔
وزیر اعظم آج پھر تضادات سے پر خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ہمیں اپنے تضادات ختم کر کے خالص پاکستان کی سوچ پیدا کرنا ہوگی تاکہ ہم دنیا میں عزت زندگی جی سکیں۔تاہم ہم سمجھتے ہیںکہ پاکستان کے ہر صوبے میں مزید کئی کئی صوبے بنائے جانے کی گنجائش پیدا ہو چکی ہے۔جس سے صرف نظرممکن نہیں ہے۔شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپالینے سے مصیبت ٹل نہیں سکتی ہے۔آج نہیں تو کل ایڈمنسٹریٹیو بنیادوں پر نئے صوبے تو کسی نہ کسی حکومت کو بنانے ہی پڑیں گے۔جو ملک کی یکجہتی اور اس کی سلامتی کا بھی تقاضہ ہے۔اس ملک کے جاگیر دار اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں کیونکہ وہ اپنے ہایوں پر حکمرانی سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ان کے باپ کی جاگیر ہے۔مگر سب کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ پاکستان پر ایک ہاری کا بھی اتناہی حق ہے جتناکے جاگیردار کا!!!پاکستان کے تمام صوبوں کے تمام باسی اور دعویدار وں میں سے اکثر یت اس سر زمین کے اصل باشندے ہی نہیں ہیں…. کوئی یہاں دوہزار سال پہلے آکر آباد ہوا ہے تو کوئی پانچسو سال پہلے تو کوئی ساٹھ پینسٹھ سال قبل یہاں پر آکر آباد ہوا ہے۔سن آف سوائل وہ تمام لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے اس دھرتی پر جنم لیا ہو۔سندھ دھرتی کے سب سے بڑے دعویدار سائیں جی ایم سید بھی بنیادی طور پر عرب سے تعلق کی بنا پر ہی اپنے نام کے ساتھ سیدلگاتے تھے۔،خان اور دیگر غیر پاکستانی شناختیں لگاتے تھے اسی طرح دیگر لوگ ہیں ۔مگر آج یہ تمام کے تمام پاکستانی ہیں۔
اگست 2009میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے سرائکی صوبے کے بارے میں جب سوال کیا گیا تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھاکہ ملک فی الحال نئے صوبوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔سرائکی صوبے یا پھر کسی اور صوبے کی بات کر کے ہم ملک کو غیر مستحکم نہیں کر سکتے ۔مگر بڑی عجیب بات ہے اس کے چند دنوں بعد ہی انہوں نے اسلام آباد پہنچ کر نئے صوبے گلگت بلتستان کا اعلان کر دیا جس سے حکمرانوں کے قول و فعل کا تضاد بھی کھل کر سامنے آگیا۔اس سے بڑا تضاد وزیر اعظم گیلانی کا 14 مئی کو ڈیرہ غازی خان کے مظفر گڑہ کا بیان ہے۔جس میں انہوں نے یہ کہا کہ جنوبی پنجاب کے مسائل کا حل الگ صوبے کے قیام میں ہے۔وفاقی حکومت سرائکی صوبے کے قیام کے لئے کام کر رہی ہے اور ہم سرائکی عوام کو صوبے کی جلد خوشخبری دیں گے…..ہم بزدل نہیںہر سازش کاڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ اگر سرائکی صوبہ بنتا ہے توکراچی بھی ہر لحاظ سے صوبہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگرجاگیر داروں کا ایک مائنڈ سیٹ ہے جو سدھ میں صوبے بنانے کا مخالف اس لئے ہے کہ ان ذہنوں میں یہ بات موجود ہے کہ خدا نا خواستہ پاکستان کوکسی طرح ڈیس اینٹیگریٹ کر دیاجائے تو اس کے بعد بھی ان کی حکمرانی چلتی رہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت یہ بات فراموش کر رہی ہے کہ نئے صوبے کے قیام کے لئے صوبائی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت سے جب تک نئے صوبے کے بنانے کی قرارداد منظور نہیں کیجاتی اور قومی اسمبلی بھاری اکثریت سے اس کے قیام کی حمایت نہ کر دے اُس وقت تک آئینی طور پر کسی نئے صوبے کے قیام کی گنجائش نہیں ہے اور اُس وقت تک نئے صوبے کا قیام خواب و خیال کی باتیں ہیں ۔مگر سرائکی صوبے کے قیام کا جھانسہ دے کرعوام کو بیوقوف بنانے میں ہرج ہی کیا ہے۔
کراچی صوبے کی گونج تو ہم ایک مدت سے سنتے چلے آرہے ہیںبلکہ ایک زمانے میں کراچی صوبہ تحریک بھی موجود تھی۔پھر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں تو باقاعدہ پاکستان کو 22صوبوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ اپرول کے منازل بھی طے کر گیا تھا۔مگر اچانک جنرل ضیاء الحق کا طیارہ کرش کر دیا گیااور شہیدوں کی سازش میں کا نشانہ بن گیا اور یوں بائس صوبوں میں پاکستان کی تقسیم کا منصوبہ اپنی موت آپ مر گیا۔تاہم ساری دنیا میں یہ پروسس چل رہا ہے وقت کے ساتھ تبدیلیان بھی آ رہی ہیں۔
نئے نئے ملک اور نئے نئے صوبے وجود میں آرہے ہیں۔مگر ہمارے حکمراں نعروں سے آگے جانے کو تیار دکھائی نہیںدیتے ہیں۔جبکہ ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان 8سے 37صوبوںمیں بٹ کر مستحکم ہے۔ تو حالات کے تقاضوں کے تحت پاکستان ۔کو بھی 22 صوبوں میں تقسیم کر دینا عین عقل مند ی ہوگی۔ہمارے ہاں بعض غیر ملکی قوتوں کے آلہء کار اس ملک میں بد امنی تو چاہتے ہیں مگر اس کی ترقی و خوشحالی میںبھی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔جو نہیں چاہتے پاکستانی ترقی و خوشحالی کے منازل طے کر سکیںہمیں اپنے تضادات ختم کر کے خالص پاکستان کی سوچ پیدا کرنا ہوگی تاکہ ہم دنیا میں عزت کی زندگی جی سکیں اور دشمن ہماری طرف بری نظر اٹھانے سے پہلے سو مرتبہ سوچیں۔پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com