چار دسمبر 2012ضمنی انتخابات کے حوالے سے بڑا اہم دن رہا ۔ جہاں پنجاب کی چھ اور سندھ کی ایک خالی نشست پر ضمنی انتخابات ہوئے پنجاب میں تمام نشستوں پر مسلم لیگ ن کے امیدواروں نے میدان مارا جبکہ سندھ میں پاکستان کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار نے کامیابی حاصل کی ۔دیکھا جائے تو دونوں اپنے اپنے علاقوں میں حکمران جماعتیں ہیں پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اس لیے وہاں مسلم لیگ ن کو ہی جیتنا تھا جبکہ پیپلزپارٹی کی حکومت سندھ کے ساتھ ساتھ مرکز میں بھی ہے لہذا سندھ میں اسکی کامیابی یقینی تھی ۔ خیر کون جیتا کون ہارا یہ بات ایک طرف غورطلب بات یہ ہے کہ گذشتہ پانچ سالوںسے اپوزیشن سے لیکر حکمران جماعت اور اسکے اتحادیوں نے مل بیٹھ کر جو آزاد خود مختار الیکشن کمیشن بنایا تھا اور ایک ایسے غیرجانبدار مخلص ایماندار چیف الیکشن کمیشن کو نامزدکیا تھا۔
جس پر تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں متفق بھی تھیں چاہے وہ پارلیمنٹ میں ہوں یا پارلیمنٹ سے باہر ۔یہاں تک کے پاکستان کے مقتدر عوامی حلقے میڈیا سے لے کر ریاست کے تمام ادارے سب مطمئن تھے اور سب امید لگائے بیٹھے تھے کہ پاکستان میں آئندہ الیکشن جو 2013 میں ہونے ہیں صاف شفاف اور پرامن ہونگے لیکن موجودہ ضمنی الیکشن نے اس بات کی کلئی کھول دی ہے۔کچھ بھی تو نہیں بدلہ سیاست دان نہ عوام اور نہ ہی الیکشن کمیشن کا کردار ،سیاست دانوں نے ان ضمنی انتخابات میں ایک نئے الیکشن کمیشن کی موجودگی میںاپنی وہی پرانی روش اختیار کرتے ہوئے پولنگ بوتھ میں ہنگامہ آرائی پولنگ بوتھوں میں موجود عملے کو ہراساں کرنا ووٹنگ ایریامیں غنڈاگردی کے ذریعے تشدد کا راستہ اختیار کرناایک دوسرے کے خلاف بیان بازی دھاندلی کے الزامات لگا نا ہتھیاروں کابے دریغ اور کھلا استعمال۔ یہ تمام عنصر اِس ضمنی الیکشن میں اُسی آب وتاب کے ساتھ نظر آئے جس طرح کے الیکشن پاکستان کی تاریخ میںلوگوںنے دیکھے ہیں اہلِ نظر طبقہ اس ضمنی انتخابات کے بعد یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ موجودہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لئے جو ضابطہ اخلاق بنایا تھا وہ اس پر کس حد تک عمل درآمد کراسکا بظاہر ان ضمنی انتخابات کو دیکھتے ہوئے الیکشن تو صاف شفاف نہیں ہاں الیکشن کمیشن کی ناکامی ضرور صاف شفاف نظر آتی ہے۔
اگر اسی طرح کا کردار الیکشن کمیشن نے آنے والے عام انتخابات میں بھی اداکیا تو سوچیں پاکستان کہا کھڑا ہوگا۔ وہ سیاست دان جو ملک میں تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں جو ملکی عوام سے پرانے قصے بھول جانے کی باتیں کرتے ہیں وہ ان ضمنی الیکشن میں اپنے کردار کی ادائیگی کا جائزہ لیںاور اس ملک کی عوام کو کھل کر بتادیں کہ ان کی منزل کیا ہے ملک میں تبدیلی لانا یا صرف و صرف اقتدار کا حصول۔ کیونکہ سوچیں چاہے کتنی نئی بنالیں لیکن جب تک عمل و کردار وہی پرانے رہینگے تب تک تبدلی لانے اورآنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
Election Pakistan
یہ ضمنی انتخابات نئے الیکشن کمیشن کے لئے ایک ٹیسٹ کیس تھاجوکہ ناکام رہا۔ لہذا الیکشن کمیشن کو چاہیئے کہ وہ اپنی پالیسی کا ازسرِنو جائزہ لیتے ہوئے ایک جامہ اور مضبوط پالیسی بنائے الیکشن کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے اپنے بنائے ہوئے ضابطہء اخلاق پر مکمل طور پر عمل درآمد کرائے کیونکہ جب تک ضابطہ اخلاق کو مکمل طور پر لاگو نہیں کیا جائے گا تمام سیاسی پارٹیوں کو اسکا پابند نہیں بنایا جائے گا آنے والے عام انتخابات کی شفافیت مشکوک ہی رہے گی ۔ جو کے ایک آزاد خودمختار الیکشن کمیشن کے لیے سوالیہ نشان ہوگا۔