طاہر القادری ، پروفیسر طاہر القادری، ڈاکٹر طاہر القادری، شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر طاہر القادری

Tahir Ul Qadri

Tahir Ul Qadri

عوام جو لانگ مارچ میں شامل ہوئے اور پاکستان کے ٹیلی ویژن چینلوں اور میڈیا کے ذریعے ناظرین اور قارئین کا اندازہ لگانا مشکل ہے، پوری قوم یک جان ہو کر پاکستان میں انقلاب کی خواہاں ہیں، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جمہوری قوتوں کے اقتدار میں شامل لوگوں کی دل کی آواز طاہر القادری کے ساتھ شامل ہے، انداز اپنا اپنا، سوچ اپنی اپنی۔ طاہر القادری جوانی میں درس حاصل کر نے کے لیے مختلف مراحل سے گزرے ۔ پروفیسر طاہر القادری کی شکل میں کچھ سیکھا اور کچھ سیکھایا۔

ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے بعد ملک کی خدمت بھی اپنی بقاء کے ساتھ ساتھ شامل رہی، یہاں تک تو ان کی زندگی کا یہ سفر بھی پاکستان کے عوام سے پوشیدہ نہیں ۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم کسی کمزور کو طاقت وار دیکھنا نہیں چاہتے یہ ایک منافقت ہمارے اندر بطور انسان پائی جاتی ہے۔ بحرحال جب انسان ایک صحیح سمت کی جانب گامزن ہوتا ہے بلا شبہ بحثیت قوم ہمارے اندر شک و شبہات جنم لیتے ہیں یہاں تک کہ جب ایک شخص حج کی سعادت حاصل کرنے بھی جارہا ہو اور حاجی کیمپ کے اندر تبلیغی جماعت کے افراد جو ان حاجیوں کی رہنمائی اور مشکلات سے آگاہ کر رہے ہوتے ہیں۔

ہم ان کی مخلصی پر شک کرنے سے گریز نہیں کرتے ،ڈاکٹر طاہر القادری نے اس ملک کی سیاست کو دیکھا ، سمجھا ، سوچا اور پاکستان میں غربت ، افلاس ، ناہمواری کو محسوس کیا تو انہوں نے شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے روپ میں عوام کی محرومی کو محسوس کر تے ہوئے انتہائی محنت اور محبت اور خلوص کے ساتھ عوام کا مقدمہ لڑنے کا عزم کر لیا۔عوام نے دامے درمے سخنے قدمے، ساتھ نبھانے کا عہد کر لیا ، پوری قوم نے قبول کیا، تسلیم کیا اور سراہہ بھی دوسرا پہلو ڈاکٹر طاہر القادری کو ایک بھر پور تنقید کا بھی سامنا تھا یہ جانے بغیرکہ ان کی سمت درست ہے یا غلط،ڈاکٹر طاہر
القادری نے اپنی علمی بصیرت کو کسی بھی موقعہ پر فراموش نہیں کیا انہوں نے پہلے دن سے آخری دن تک مضبوط اور منظم عصابی قوت کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ پاکستان کے آئین ، اخلاقیات اور اسلامی اقتدار کا دامن ہاتھ میں لیے بڑھتے رہے اور عوامی مقدمہ میں کسی جگہ بھی جھول نہیں آنے دی۔

Tahir-Ul-Qadri Long March

Tahir-Ul-Qadri Long March

میڈیا نے ساتھ دیا جہاں تک وہ دے سکتا تھا، عوام نے ساتھ دیا آخر تک، عوام اس لانگ مارچ میں ذہنی طور پر شہادت کا رتبہ حاصل کر کے تبدیلی کا انقلاب لانے کے خواہاںتھے۔ عوام نے اپنا فرض پورا کر دیا تمام جمہوری حکومتوں کو ایک اعلیٰ راستہ متعین کر کے دیا، اسی لیے یہ نعرہ بھی گونج رہا ہے کہ جمہوریت کی فتح ہوئی ہے۔ جمہوریت کی فتح تو ہو گئی لیکن جمہوریت کی کامیابی اس وقت ہو گئی جب پاکستان میں طبقاتی نظام کا خاتمہ ہو گا ملک میں اینرجی کریسز ختم ہوں گے، مافیا کا راج ختم ہو گا، ملک کی تعمیر و ترقی کا بول بالا ہو گا۔

لوگوں کو روزگار باوقار طریقے سے ملے گا، عوام کی جان و مال کو تحفظ ملے گا، حکمران ٹولہ تو اپنے مفاد میں اکٹھے بھی ہوے جو پوری قوم نے دیکھا ۔افسوس آج تک کوئی حکمران عوام کے مفاد میں اکٹھے نہیں ہوئے ۔ یہ بات بھی سر عام ہے کہ عوام کے مفاد میں بھی اکٹھے ہو کر بھی تمام سیاسی قوتیں بھی اس قسم کی لانگ مارچ کر سکتی ہے اور نہ ہی اتنا منظم منظر پیش کر سکتی ہے۔ یہ بات کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ جن قوموں کے سربراہان اپنی قوم کے لیے رول ماڈل ہوں تو وہاں مارچ اور دھرنے ہوتے ہی نہیں،اگر ہوں بھی تو کامیاب نہیں ہوتے۔

حکمران عوام کو مایوس کرتے ہیں قول و فعل میں متنازعہ ہوتے ہیں تو اسی طرح کی تحریکیں جنم لیتی ہیں۔ عوام یہ بھی جاننا چاہتی ہے کہ قادری صاحب کے پیروکار ان کی عقید ت میں بے پناہ مشکلات کے باوجود ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے، ہمارے پاس ایسے لیڈروں کا فقدان ہے کہ عوام ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے اور ہمیں جعلی

Democratic System

Democratic System

مینڈیٹ اور ہر قسم کے منفی ہتکھنڈے استعمال کر کے اسمبلیوں تک پہنچنے کا شوق تو ہے لیکن عوامی خدمت کا جذبہ نہیں۔ موجودہ جمہوری نظام کی حکمرانی کو اس ترازو میں تول کر درگزر تو کیا جا سکتا ہے کہ پہلی بار ایک اسمبلی نے اپنی مدت پوری کی، کیا سیکھا ، کیا کھویا کے عمل سے گزرتی رہی کیا آنے والے انتخابات میں قوم کی وہ خواہش پوری ہو سکے گی جو وہ انتخابی اصلاحات کے ساتھ چاہتے ہیں۔

کیا وہ حکمرانی آ سکے گی جو عوام کی خدمت کے لیے آئے ، اگر ایسا ہو جائے گا تو بلا شبہ ہر سیاسی پارٹی اور سیاسی لیڈر کے وقار میں اضافہ ہوگا ، وگرنہ حکمرانی کے لیے اور عوام کو وقتی خوش کرنے کے لیے چند مراسی ہی کافی ہیں ۔ میری میڈیا سے اپیل ہے کہ وہ قادری کے اچھے پہلووں کو زندہ رکھیں اور سانحہ کوئٹہ جیسے واقعات پر پہلے سے زیادہ نظر رکھیں ، لانگ مارچ میں چند بدروحوں نے حملے کی سازش تیار کر لی تو پورا پاکستان کے سراپا احتجاج میں شدت آ گئی یہ غلطی سوچنی بھی نہیں چاہیے۔
تحریر : سہیل الیاس، اسلام آباد
ایڈیٹر این این اے
فون:0333-5164061