کوئی بھی شخص اس حقیقت سے انکار کی جرات نہیں کر سکتا کہ اقوام عالم کی ترقی کا دار و مدار انکی تعلیمی میدان میں ترقی سے وابستہ ہے ۔ اور تعلیم کی موثریت کا اندازہ اسکے نظام ِ تعلیم سے لگایا جا سکتا ہے ۔جو اقوام اپنے نظام تعلیم کو اپنی قومی ضروریات کے مطابق ترتیب دیتی ہیں اور پھر اس کو معاشرے میں اس کی روح کے ساتھ پوری محنت اور قوت سے نافذ کرتی ہیں وہی ترقی کی حقیقی منازل طے کرتیں ہیں ۔ اور جو قومیں تعلیم اور تعلیمی نظام کو اک مذاق کے طور پر لیتی ہیں وہ ترقی کی دوڑ میں صدیوں کی مسافت پیچھے رہ جاتی ہیں ۔کیونکہ نظام ِ تعلیم ہی وہ چیز ہے جو معاشرے کی ہر جہت کو درست سمت میں متعین کرتا ہے۔لارڈ میکالے نے برِ صغیر کے عوام کو ایک لمبے عرصے کے لئے غلام بنانے کے لئے اک مخصوص نظام ِ تعلیم بنایا اور اس کو برِ صغیر میں نافذ کیا ۔ اس نظامِ تعلیم کا مقصود اپنے اقتدار کو دوام دینا اور حکومتی معاملات چلانے کے لیے کلرک پیدا کرنا تھا۔ یعنی خود ہمیشہ آفیسر یا حکمران رہنا اور غریب عوام کے بچوں کو کلرک یا چھوٹے موٹے ملازم تک ہی رکھنا تھا۔لہذا اس نظام ِ تعلیم سے انگریز کی خواہش کیمطابق ایسے ہی افراد پیدا ہوئے۔ قائد اعظم نظام ِ تعلیم کی اہمیت اور موثریت سے آگاہ تھے یہی وجہ تھی کی ان کی ہدایت پر پاکستان کے قیام کے فوراََ بعد 1947میں ایجو کیشن کانفرنس منعقد کی گئی جس میں انہوں نے نظام ِ تعلیم کی تشکیل کے لئے واضح ہدایات جاری کیں اور وطن عزیز کے لئے نظام ِ تعلیم کے بنیادی خدو خال وضع کر دیے ۔بدقسمتی سے قائدِ اعظم اس دنیا فانی سے جلد کوچ کر گئے اور بعد میں تعلیمی نظام کے پالیسی سازوں میں لارڈ میکالے کی روح حلول کر گئی اور انہوں نے اس سے ملتا جلتا نظام تعلیم اس ملک میں متعارف کروایا اور بعد ازاں نافذ کر دیا جو اب تک موجود ہے۔جس کی روح سے ان کا اور ان کی اولادوں کا ہمیشہ حکمران رہنے اور غریب عوام کو کلرک اور نوکر بنا کر رکھنے کا خواب ابتک بڑے کامیابی سے پورا ہورہا ہے ۔1947سے لیکر اب تک کئی ایجو کیشن کمیشن بنے مگر ملک کو یکساں اور موثر نظامِ تعلیم نہ دیا جا سکا ۔اب ملک میں سینکڑوں قسم کے نطامِ تعلیم رائج ہیں ۔ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ قوم کو تعلیم کس میڈیم میں دینی ہے؟دیگر سیاسی معاملات جس میں ان لارڈ میکالوں کے ذاتی مفادات ہوتے ہیں ان پر پلک جھپکتے میں قانون سازیاں بھی ہو جا اور آردینینس بھی ا جاتے ہیں مگر اس اہم بنیادی مسئلے پر نہ تو کوئی موثر قانون سازی ہوئی اور نہ ہی کوئی آرڈینینس فیکٹری حرکت میں آئی! یہ بات بڑی قابل توجہ ہے64 برسوں میں یہ انتہائی اہم کام کیوں نہیں ہو سکا؟ جواب بڑا سیدھا اور واضح ہے۔یہ اربابِ اختیار بھی دراصل لارڈ میکالے ہی ہیں جنہوں نے اس طبقاتی نظامِ تعلیم کی سازش کی تاکہ وہ خود اور ان کی اولادیں ہمیشہ حکمران رہیں اور عام عوام ہمیشہ ان کے غلام ہی رہیں ۔ سرکاری تعلیمی ادارے جو غریب عوام کے بچوں کی تعلیمی درسگاہیں ہیں وہ بھی اب تباہی کے آخری کنارے پر ہیں ۔ کہیں سکول کی عمارت ہے تو استاد نہیں ۔ کہیں استاد ہیں تو سکول کی عمارت نہیں رڑے میدان میں تعلیم جاری ہے۔گذشتہ ہفتے مجھے اپنے گائوں جانے کا اتفاق ہوا رستے میں دیکھا تو چک نمبر ٧٣ ر۔ب کریانوالہ کا سکول بغیر چار دیواری کے تھا۔ اس میں جانور بندھے ہوئے تھے۔ساتھ ہی پر تعفن جوہڑ تھا۔ گورنمنٹ جناح مسلم ہائی سکول ٧٣ ر۔ب جو ایک تاریخی درسگاہ تھی ۔ جو کبھی علم کا گہوارا تھا کھنڈر بن چکا ۔عجیب مذاق ہے؟ حکومت کے پاس تعلیم پہ خرچ کرنے کو کوئی قابل ذکر فنڈ ہی نہیں آپ خود اندازہ کریں کہ ان سرکاری سکولوں میں الف انار اور ب بکری پڑھنے والا بچہ۔ کیا ان لارڈ میکالوں کے انگلش میڈیم سکولوں ، ایجوکیٹر، سٹی، ایل جی ایس،امریکن لائسٹف میں پڑھنے والے بچوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ یہی وہ سازش ہے جس کے ذریعے وہ عوام کو غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ یہ طبقاتی نظامِ تعلیم کیوں ہے ؟ کیوں اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتا ؟ عدالت عظمیٰ اس پہ بھی اک نوٹس لے لے کہ یہ بھی عوام کے بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے1998-2010کی ایجوکیشن پالیسی کے مطابق قومی اور صوبائی سطح پر ایک باڈی ہونی چاہیئے جو پرائیویٹ سکولوں کی تعلیمی سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرے ۔ یہ باڈیاں کہاںہیں اور کیا کر رہی ہیں ؟ اس وقت ملک میں پچاس ہزار کے قریب پرائیویٹ سکولز ہیں ۔ جن میں61 فیصد شہری علاقوں میں اور39 فیصد دیہی علاقوں میں ہیں ۔ جن میں داخلہ کی شرح پرائمری سطح پر 18 ، مڈل لیول پر16 اور ہائی لیول پر14 فیصد ہے ۔ یہ سکول اپنی اپنی مرضی کا نصاب پڑھا رہے ہیں اور اپنی اپنی مرضی کی فیسیں لے رہے ہیں ۔ بعض سکولوں کی فیس تو پندرہ سے بیس ہزار روپے ماہانہ ہے؟ ہے کوئی پوچھنے والا؟ کیا ان سکولوں میں کوئی غریب آدمی اپنے بچے پڑھا سکتا ہے؟یہ تعلیمی دہشت گردی ہے اور ریاست بھی اس میں برابر کی شریک ہے۔غریب کے بچوں کے لیئے سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھائی نہیں اور پرائیویٹ سکولوں میں رسائی نہیں؟مدرسوں کا نظام الگ سے ہے جس میں غریب طلبا کی کثیر تعداد علم حاصل کرتی ہے کیونکہ یہاں تعلیم تقریباََ مفت ہوتی ہے۔ ان کے نصاب کو جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان کو قومی تعلیمی دھارے میں لایا جا سکے ۔ اس موضوع پر علما ء کرام سے مذاکرات کرکے مناسب اور فوری اقدامات کئے جا سکتے ہیں ۔ آخر میں عوام سے گذارش ہے کی وہ اپنے خلاف ہونے والی تعلیمی سازش کو سمجھیں اور اپنی اولاد کے اچھے مستقبل کی خاطر جدو جہد کریں اور ارباب اختیار سے بھی گذارش کہ خدا سے ڈریں ۔ ملک میں یکساں نظامِ تعلیم نافذ کریں ۔ ہر طبقے کو بلا تفریق رنگ و نسل علم حاصل کرنے کے یکساں مواقع مہیا کئے جائیں ۔ عوامی نمائندوں اور سرکاری ملازمین پر لازم کیا جائے کہ ان کے بچے صرف ملکی سرکاری تعلیمی ادارواں میں تعلیم حاصل کریں گے۔ جو اس کی خلاف ورزی کرے گا اپنی ملازمت اور عوامی نمائندگی سے محروم ہو جائے گا۔ پھر دیکھنا نظام اور نصاب کس طرح اور کتنی جلدی ایک ہوتے ہیں اور تعلیم کے لیے فنڈ بھی آ جائیں گے۔اساتذہ کو معاشرے میں قابل عزت مقام دیا جائے اور انہیں معاشی فکروں سے آزاد کیا جائے ۔ ہم نے مغرب سے جمہوریت تو سیکھ لی ہے تعلیم کی اہمیت نہیں سیکھی۔ اساتذہ کا مقام بھی ان سے سیکھ لیتے۔اساتذہ کو جدید زمانے کے تقاضوں سے نبرد آزما ہونے لئے وقتاََ فوقتاََ مناسب ٹریننگ دی جائے ۔ اور یوں نظام تعلیم کو موثر کرکے اور معیار تعلیم کو بلند کرکے دنیا میں اپنی کھوئی ہوئی عظمتِ رفتہ کو بحال کیا جائے ورنہ ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔شہزاد چوہدری