کہا کہ:” اب تو فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے ۔موسیٰ نے عرض کیا”پروردگار، میرا سینہ کھول دے، اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ سْلجھا دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں”(٢٤-٢٨:طٰہ)۔ یعنی میرے دل میں اس منصب عظیم کو سنبھالنے کی ہمت پیدا کر دے۔ اور میرا حوصلہ بڑھا دے۔ چونکہ یہ ایک بہت بڑا کام حضرت موسیٰ کے سپرد کیا جا رہا تھا جس کے لیے بڑے دل گردے کی ضرورت تھی اس لیے آپ نے دعا کی کہ مجھے وہ صبر ، وہ ثبات ، وہ تحمل ، وہ بے خوفی اور وہ عزم عطا کر جو اس کام کے لیے درکار ہے۔ایک طویل جدوجہد،آزمائش ،مصائب و آلام کے دور سے گزرنے کے بعد نتیجہ کیا نکلا؟فرمایا:” تب ہم نے اْن سے انتقام لیا اور انہیں سمندر میں غرق کر دیا کیونکہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جْھٹلایا تھا اور ان سے بے پروا ہوگئے تھے۔اور ان کی جگہ ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے، اس سرزمین کے مشرق و مغرب کاوارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالامال کیا تھا۔ اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدہ خیر پورا ہواکیونکہ انہوں نے صبر سے کام لیا تھا”(١٣٦-١٣٧:الاعراف)۔یعنی بنی اسرائیل کو فلسطین کی سر زمین کا وارث بنا دیا۔
اسی عرض مقدس فلسطین کا وارث جہاں آج ظلم وستم اور زیادتیوں کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، انسانی حقوق کھلے عام اور ڈھٹائی کے ساتھ پامال کیے جا رہے ہیں،بچے بچیوں اورصنف نازک مظلوم خواتین کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کی جارہی ہے، چہار جانب زندگی کا دائرہ تنگ کرنے کی منظم سعی و جہد جاری ہے اور دعویٰ ہے کہ انہیں پتھر کے دور میں پھر سے لوٹادیں گے۔ان حالات میںایک گروہ تو وہ ہے جوبس چند دن پہلے تک ایک بچی کی حفاظت اور اس کے حق کے لیے تو پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹتا رہا لیکن آج اس کی زبانیں جنبش تک نہیں کر پا رہیں۔تو دوسرا گروہ وہ جو اُس وقت تو خاموش نہیں تھا لیکن آج ان کی معمہ کن خاموشی برقرار ہے،معلوم نہیں وہ کس چیز کے انتظار میں ہیں۔اس کے برخلاف “دنیا کے چودھری” اُس فرعون کی حمایت کر رہے ہیںجو نہ صرف ملزم بلکہ مجرم بھی ہے۔ عاشورہ کا روزہ اور یہود و نصاریٰ کی مخالفت :محرم کی دسویں تاریخ یوم عاشورہ کہلاتی ہے۔احادیث میں اس دن کے روزے کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ اس دن کے روزے پر گزشتہ ایک سال کے گناہوں کی معافی کی خوشخبری دی گئی ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:”مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ عاشوراء کے روزوں کی وجہ سے اللہ ایک سال گزشتہ کے گناہوں(صغیرہ) کو معاف کردے گا(مسلم)”۔عاشورہ کے روزے کی اسی اہمیت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے عاشوراء کے روزوں اور رمضان کے روزوں کے سوا فضیلت کے کسی دن کے روزے کا اتنا اہتمام کرتے نہیں دیکھا(متفق علیہ)”۔اہل قریش میں دین ابراہیمی کی جو باقیات عرصہ دراز سے چلی آرہی تھیں، ان میں ایک دسویں محرم(یوم عاشورائ) کا احترم بھی تھا۔ قریش دور جاہلیت میں بھی عاشورہ کے روزے کا اہتمام کرتے تھے۔اسی سلسلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں:”عاشورہ کے دن کا روزہ قریش جاہلیت میں رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہجرت سے قبل یہ روزہ رکھتے تھے۔پھر جب آپ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے روزہ رکھا اور لوگون کو بھی اس کا حکم دیا۔پھر جب رمضان کے روزے فرض کیے گئے تو آپ نے اس کا حکم دینا ترک کر دیا اور جو چاہتا روزہ رکھتا اور جو چاہتا نہیں رکھتا”(بخاری۔مسلم)۔حضرت عبدا للہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کا حکم دیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتلایا کہ اس دن تو یہود و نصاریٰ بھی تعظیم کرتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب آئندہ سال آئے تو انشااللہ ہم نو محرم کا روزہ بھی رکھیں گے۔حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے قبل ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے(مسلم)۔اس کے علاوہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم یوم عاشوراء کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو۔اور اس سے ایک دن پہلے یا اس کے بعد ایک دن کا روزہ رکھو”(مسند احمد)۔مخالفت کس سطح پر مطلوب ہے؟یوم عاشورہ،اس کی حقیقت و اہمیت اور عاشورہ کے روزے کی قدر و فضیلت واضح ہوجانے کے بعدنبیۖ کا حکم کہ” آئندہ سال ہم نو اور دس محرم میں عاشورہ کا روزہ رکھ کر یہود و نصاریٰ کے طرز عمل کے برخلاف عبادت کریں گے۔
اس بنا پر مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ شہادت پیش کریں کہ واقعی وہ ہر معاملہ میں یہود و نصاریٰ کی تقلیدسے گریز کرتے ہیں۔خصوصاً ان معاملات میں جو ان کی عاقبت خراب کرنے والے ہیں۔لیکن مخالفت اگر صرف عاشورہ کے روزے میں ہوگی تو اس کے نتائج بھی اسی حد تک ظاہر ہوں گے،جیسا کہ ہو رہا ہے۔یعنی یہ کہ مسلمان نماز بھی پڑھتے ہیں، روزہ بھی رکھتے ہیں،زکوٰة بھی دیتے ہیں اور حج بھی کرتے ہیں۔اس کے باوجود نہ ان کے شب و روز کے اعمال اسلامی تعلیمات کی روشنی میںڈھلتے ہیں اور نہہی ان کے معاملات معاشرتی و اخلاقی بنیادوں پر اس بات کی شہادت دے پارہے ہیں کہ واقعی وہ ایک خدا اور ایک نبیۖ کے حکم کی بجاآوری کرنے والے ہیں۔اس کے برخلاف اگر یہ عہد کر لیا جائے کہ مخالفت عاشورہ کے روزے میں بھی اور زندگی کے دیگر معاملات میں بھی کرنی ہے توپھر چند لمحات کے لییرک کر ہمیں اپنے شب و روز کا جائزہ لینا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ہم کیا کچھ کر رہے ہیںاورکیا کرنے کی تیاری میں ہیں؟ہمارا وقت، ہماری صلاحیتیں، ہمارا علم اور ہماری قوت کس جانب گامزن ہے؟ہمارا معاشرہ اور معاشرہ میں موجود ہمارا خاندان کس جانب پیش رفت کر رہا ہے؟ہمارے افکار ونظریات کہاں سے اپنی و ابستگیاںقائم کیے ہوئے ہیں؟ہمارے مسقبل کے منصوبے کیا ہیں؟اور جو ہیں کیا وہ یہود و نصاریٰ کے طرز عمل سے مختلف ہیں یا اسی سے موافقت رکھتے ہیں؟ہماری تعلیم کس نہج پر اب تک ہوتی رہی؟اور ہمارے تعلیمی ادارے جن میں ہمارا مستقبل پروان چڑھ رہا ہے وہ کس جانب گامزن ہیں؟سود پر مبنی نظام معیشیت جس میں ہم پوری طرح لت پت ہو چکے ہیں۔
کیا اس نظام معیشت سے ہمیں کبھی اکتاہٹ یا کراہت محسوس ہوئی ہے؟ اگر نہیں توکیوں اور اگر ہاں تو ہم اس کے لیے کیا اقدامات کیا چاہتے ہیں؟ہماری سیاست جو بہت حد تک کفر و الحاد پر مبنی ہے کیا اس کے کڑوے کسیلے پھل کو کبھی ہم نے محسوس کیا ؟یا زقوم کے پھل ہم کھائے جا رہے ہیں اور ہماری قوتِ ذائقہ ختم ہو چکی ہے؟سوالات بہت ہیں جنہیںآپ سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے کرناہے لیکن مخاطب تو آپ بھی ہیں!لہذا سوالات کے جواب ہمیں اور آپ کوعاشورہ کے دن حالتِ روزہ،اُس سے قبل اور اُس کے بعدڈھونڈنا پڑیں گے۔سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ہم اِس کے لیے اپنے آپ کو تیارپاتے ہیں۔
Day of Ashura
کہا یہ گیا تھا “کہ اب تو فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے”اور فرعون تو ہر زمانے کے سرکش ہی رہے ہیں۔لیکن دیکھنا یہ چاہیے کہ میرے اور آپ جیسے مسلمان کیا وحدہ’ لاشریک کی سرکشی میں مبتلا نہیں؟اسی مالک کائنات کی سرکشی میںجس نے ہمیں زندگی بخشی،جسمانی اور عقل و فہم کی قوتوں سے مزین کیا،علم عطا کیا اور رزقِ حلال فراہم کیا،مال و دولت اور اولاد سے نوازا اورہر طرح کی پریشانیوں اور آزمائشوں سے نجات بخشی ۔ ان آزمائشوں،پریشانیوں اور مصائب و آلام سے نجات جو سابقہ امتوں کو پیش آچکی ہیں۔قرآن کی تلاوت کرنے والے ، اس پر غور وفکر کرنے والے اور اس پر عمل کرنے والے ان حقیقتوں سے واقف ہیں جن سے وہ بچا لیے گیے۔قرآن نے مسلمانوں کی ہمت و شجاعت اور صبر وثبات قائم کرنے کے لیے مختلف مقامات پر گزشتہ امتوں کے واقعات اسی غرض سے بیان کیے ہیں۔جن میں ایک جانب اُن غلط ریوں سے بچنے کی تلقین ہے تو وہیں دوسری جانب بنی اسرائیل اور ان ہی جیسی دیگر قوموں کا تذکرہ اس لیے بھی کیا گیا ہے کہمسلمان ہر لمحہ اپنے قول و عمل کاجائزہ لیں، تجزیہ کریں اور ساتھ ہی اصلاح بھی کرتے رہیں۔اور اگر آزمائشیں آئیں تو ہر معاملہ میں ثابت قدم رہیں۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یو نہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ ان پر سختیاں گزر یں، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتٰی کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔۔۔۔ اس وقت انھیں تسلّی دی گئی کہ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔”(البقرہ:٢١٤)۔ انبیاء کرام جب کبھی دْنیا میں آئے، انھیں اور ان پر ایمان لانے والے لوگوں کو خدا کے باغی و سرکش بندوں سے سخت مقابلہ پیش آیا اور انھوں نے اپنی جانیں جو کھوں میں ڈال کر باطل طریقوں کے مقابلہ میں دینِ حق کو قائم کرنے کی سعی و جہد کی۔
اس دین کا راستہ کبھی پھولوں کی سیج نہیں رہا کہ اٰ مَنَّا کہا اور چین سے لیٹ گئے۔ اس “اٰ مَناَّ” کا قدرتی تقاضا ہر زمانے میں یہ رہا ہے کہ آدمی جس دین پر ایمان لایا ہے ، اسے قائم کرنے کی کوشش کرے اور جو طاغوت اس کے راستے میں مزاحم ہو، اس کا زور توڑنے میں اپنے جسم و جان کی ساری قوّتیں صرف کر دے۔بس اسی معنی میں ہمیں بھی یہو و و نصاریٰ کی مخالفت کرنی ہے اور بحیثیت مسلمان اسلام کو مکمل طور پر اپنے شب و روز کے اعمال میں داخل کرناہے۔یہی وہ پس منظر اور پیغام ہے جو یوم عاشورہ اور اس کے روزے سے ہمیں حاصل کرنا ہے۔