قارئین کے پرزور اصرار پر آج ہم امن کے حوالے سے چند باتیں ”فکرِ فردا ” کے ذریعے ”سُپر دِ قرطاس ” کریں گے جو دلوں کو جھنجھوڑنے اور سوچوں کی ایک نئی سمت متعین کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں حکومتی سطح پر قائم کی گئی امن کمیٹیاں محض خانہ پری کے طور پر کام کر رہی ہیں اور جو لوگ بھی امن کمیٹیوں میں اہم عہدوں پر برا جمان ہیں صرف اپنا ٹی اے ڈی اے کھرا کرنے کے لیے ”شو پیس ” کا کام دے رہے ہیں۔
اگر امن کمیٹیوں کے ” پر دھان منتری ” مخلص ہوتے تو آج سو سائٹی امن و محبت کا گہوارا ہوتی ، راقم کثیر تعداد میں ایسے احباب کو ذاتی طور پر جانتا ہے جو امن کمیٹیوں میں رہ کر امن و امان کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور حکومتی سطح پر بھی ایسے ”ٹَٹ پونجوں ” کو ممبر یا عہدیدار نامزد کیا جاتا ہے جو محض ”افسر شاہی ” کی حاشیہ بر داری کرنے والے ہوتے ہیں ،خیر اس پر کبھی تفصیل سے بات ہو گی کہ امن کمیٹیوں کے لوگ ”اندر کھاتے ” کیا ” کار نامے ” سر انجام دیتے ہیں۔
ہم میں سے ہر شخص ایک دوسرے کے حقوق کی امانتیں اٹھائے ہوئے ہے … اور جب تک ان امانتوں کو دیانت داری کے ساتھ حق داروں کو ہم لوٹانہیںدیتے ‘ امن ِ عالم ایک خواب کاعالم رہے گا۔حق دار کو حق لوٹانا’ کسی قانون یا سزا کے ڈر سے نہ ہونا چاہیے … کہ دیانت داری قانونی تقاضے سے بہت پہلے ایک اخلاقی تقاضا ہے۔ نیت میں اگر خیانت دَر آئے ‘ توقانون میں ترامیم بھی دَر انداز ہوتی چلی جاتی ہیں۔ درحقیقت جب تک نیت میں دیانت کو جگہ نہیں ملتی … کسی حق دار کو اُس کی امانت نہیں ملتی۔ ایک بدیانت شخص اپنے اردگرد بہت سی محرومیوں کا باعث بنتاہے… اورچھوٹی چھوٹی محرومیاں ‘بڑے بڑے جھگڑوں کاسبب بن جاتی ہیں ۔
قیام ِ امن کا پہلا جنیوا … ایک فرد ہے ‘جسے ایڈریس کیے بغیر عالمی امن کا کوئی کنونشن کامیاب نہیں سکتا۔ فردکو پُرسکون کرنا’ معاشرے کو امن کی بنیاد فراہم کرناہے۔ حالت ِ امن کا قائم ہونا … کسی انقلاب کے برپا ہونے سے کم نہیں اور یہ اِنقلاب سب سے پہلے ایک فرد کے قلب میں رُونما ہوتاہے ۔کوئی فرد ہویا قوم جب تک احساسِ تفاخر سے باہر نہیں نکلتی اَمن سلامت نہیں رہ سکتا۔ دوسروں سے بالا ہونے کا احساس خود کو قانون سے بالاترسمجھنے پر مجبور کر دیتاہے۔ احساسِ تفاخر ایک زعم کے سوااور کیاہے اور کتابِ معنی میں زعم اور وہم سراب کے ہم معنی ہیں۔زعم حسب کا ہو یا نسب کا حقیقت میں عالی ہونے کے باوجود حقائق سے دُور لاپھینکتاہے۔
کسی زعم میں مبتلا انسان کہیں کانہیں رہتاوہ انسانوںکی دنیا سے دُور خود پسندی کے ایک ایسے جزیرے میں بن باس لے بیٹھتا ہے جہاں تنہائی اُسے مزید تنہاکر دیتی ہے ،زعم کیلئے نہ کوئی مرتبہ وعلم ہی دلیل ٹھہرتا ہے اور نہ دولت اور عقل ہی حجت قرار پاتی ہے۔مرتبہ ‘دولت ‘ علم اورعقل دراصل درجہ بدرجہ ذمہ داریوں کی دلیلیں ہیںاگرکوئی مرتبے میںعالی ہے تو وہ کمتررُتبے میں رہنے والوں کی خدمت کرے اگرکوئی دولت میںدوسروں سے بڑھ کر ہے تووہ بڑھ کراپنی دولت میں غریبوںکو شامل کرے اگرکوئی علم و عقل میں عالی ہے تو وہ جاہلوں کی بے عقلی خندہ پیشانی سے برداشت کرے ۔ وہ جسے ہم اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں اگر اُس کا وجودمٹ جائے تو ہم نامکمل رہ جاتے ہیں۔
ہمارے وجود کی وحدت اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک باہر موجود کثرت سلامت نہ ہو۔ اپنے سے کم رتبہ لوگوں کی سب سے پہلی خدمت یہ ہے کہ اُن کے ساتھ تواضع سے پیش آیا جائے ۔ تواضع دوسروں کی عزت ِ نفس کا احترام کرنے کوکہتے ہیں۔ تکبر دوسروں کی اَنا کواپنے مرتبے کے بوٹوں تلے روندتے چلے جانے کانام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے سے کم تر کا خیال رکھنے کی بظاہر چھوٹی چھوٹی مگر بباطن بڑی بڑی اسے ہی متوجہ کرتی ہیں جو اپنے حال اورماضی پر زعم سے نجات حاصل کرچکاہو۔نجات حاصل کرنے کیلئے خود سے لڑنا پڑتا ہے۔ گویا جدوّ جہد کا آغاز اپنے گھر سے ہوتاہے۔جو اَپنے اندرخود سے لڑتارہتاہے مخلوقِ خدا اُس سے اَمن میں رہتی ہے اور جو اپنے اندر شکست کھاجاتاہے ‘ اُس کی لڑائی باہر بازاروں اورچوراہوں پر آجاتی ہے۔
آج کل اِصلاح کے نام پراَمن کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔مشرق مغرب کی اصلاح کرنا چاہتاہے اور مغرب مشرق کو سبق سکھانا چاہتاہے غالباً تہذیب کاکوئی سبق حالانکہ سورج آسمان کا ہویا تہذیب کا … مشرق سے اُبھرتاہے اور مغرب میں غروب ہوتاہے۔ خود کو چھوڑ کر دوسروں کی اصلاح کرنے کے جنون میں مشارق و مغارب باہم متحارب رہتے ہیں۔درحقیقت خود کو اصلاح یافتہ سمجھنا بھی ایک درجۂ غرور ہے۔ دوسروں کی اصلاح کرنے کا دعویٰ کرنے والا خود اصلاح یافتہ ہونے کے زعم میں مبتلاہوتاہے ،اصولوں کی خاطر جنگ کرنے کا نعرہ بلند کرنے والا ایک بنیادی اصول کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتاہے۔ اصولوں کی دنیا کا سب سے پہلا اصول امن ہے۔جو شخص اصول پسند ہوگاوہ سب سے پہلے اَمن پسند ہوگا۔ اصول انسانوں کوآسانیاں بہم پہنچانے کیلئے بنائے گئے ہیں انسان اصولوں کی بھٹی میں جھونکنے کیلئے نہیں پیدا کئے گئے۔ انسانوں کی دنیا میں اَمن سے بڑھ کرکوئی راحت نہیں اور بدامنی سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں۔ مہذب اور غیر مہذب دنیا میں پہلا فرق اپنے معاشروں میں امن ِ عامہ کاقیام ہے لیکن بندوق کے زور پرقائم کیا گیااَمن ِعامہ ہر وقت خطرے میںہیاور علم اور شعور کی بنیاد پر قائم اَمن کی عمر کو خضر کی آشیرباد حاصل ہوتی ہے۔
جب کوئی طاقتور فرد یا قوم کوئی اصول وضع کرتی ہے تو اُس کی اصول پسندی دراصل اپنی طاقت کوتحفظ دینے کی تدبیر ہوتی ہے۔ اسی طرح کسی مغلوب فرد یا گروہ کے بنائے ہوئے اصول بالعموم کسی طاقت کے جبر کے ردّ عمل میں اپنائے جاتے ہیں ۔ ”اصولوں” کی بالادستی کی جنگ کامیاب ہوجانے کے بعد بھی اَمن کی ضمانت فراہم نہیں کر سکتی کہ ایسی جنگ کے ما بعد کے منظر نامے میں ظالم مظلوم کی جگہ پرکھڑانظر آتاہے اور مظلوم ظالم کی جگہ پر اورجنگ کسی نئے محاذ پر ‘کسی نئے نام اور نعرے کے ساتھ شروع ہوجاتی ہے ۔
بدامنی کی ایک بڑی وجہ بدگمانی بھی ہے اور یہ وجہ جنگ کا بازار گرم کرنے اور رکھنے کی بے شمار وجوہات پیدا کرنے کا باعث ہے ۔ گھروں میں اسلحہ اور گوداموں میں بارود جمع نہیںہوسکتا جب تک دلوں میں ڈھیر ساری بدگمانی اکٹھی نہ کر لی جائے۔ بدگمانی کے اندھیرے میںانسان اپنے نادیدہ دشمنوں کے ساتھ نبرد آزما رہتاہے۔ گمان کی قوت ِ متخیلہ معدوم کوموجود کا لباس دے ڈالتی ہے۔ بدگمان انسان اپنے دشمن خود ایجاد کرتارہتاہے اور تخلیق کے نام پر تخریب کا عمل جاری رہتاہے ۔ بد گمانی دودھاری تلوار ہے ایک ہی وار میں دودِل زخمی کرتی ہے پہلے اپنا اور پھر دوسرے کااور گمان کا یہ خود کش حملہ معاشرے میں بدامنی پھیلانے کاسبب ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ بہت زیادہ گمان کرنے کو گناہ قرار دیاہے۔
اَمن کی تمنا ایک خواب رہے گی جب تک طاقتور کمزور کا احترام کرنے کی تہذیب سے آشنانہیں ہوجاتا۔ امن ِ عالم اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا’جب تک انسان دوسرے انسانوں کی عزت ِ نفس کوتقدیس اور تکریم کی نگاہ سے دیکھنے کا عادی نہیں ہو جاتا۔ دراصل جھگڑا شروع ہی اس وقت ہوتاہے جب کسی فریق کو شبہ ہوجائے کہ اس کی توہین کی جارہی ہے ۔ دوسروں کی توہین کرنے کا سبب غرور ہوتاہے یا کوئی تعصب ۔ درحقیقت تعصب بھی ایک درجۂ غرور ہے اپنی قوم قبیلے پر غرور اپنے قبیلے کی زبان ‘ رنگ ‘ نسل اورتہذیب پر غرور!! ہر مغرور شخص دوسروں کی توہین کا مرتکب ہوتاہے ۔ جھگڑا ختم کرنے کا ایک تیر بہدف نسخہ یہ ہے کہ دوسرے فریق کو ہر طریقے سے یہ باور کروادیا جائے کہ وہ قابل ِ عزت ہے۔
اپنی اَناکا بت منہ کے بل گِرا دیا جائے تو جھگڑا کھڑانہیں ہوتا۔ جھگڑا ہمیشہ اپنی اَنا کا گھوڑا آگے بڑھانے پر ہوتاہے یہی” پہلے ” والا جھگڑا آج بھی قوموںاور قبیلوں کے درمیان جنگ کا باعث ہے ۔فرد ‘فرد کا اور قوم’ قوموں کا اِحترام کرنا سیکھ لے عالمی اَمن قائم ہوجائے گا۔ بصورتِ دیگر ‘اَمن بقول حضرت واصف علی واصف دوجنگوںکے درمیان وقفے کانام رہے گا۔
انسان عظیم ہے …اِ سلیے اس کیلئے طاقت کا حصول ہی کافی نہیں … اِسے عظمت بھی چاہیے۔ کسی عظمت کے بغیرطاقت ‘ غرور کا ایک ابوالہول ہے۔غرور مہذب دنیامیں غیر مہذب ہونے کاایک چلتاپھرتااشتہار ہے۔ طاقت اپنی عظمت کو نہ پہنچے تو بجائے عزیمت کے ہزیمت کوپہنچتی ہے۔ طاقت میں عظمت اُس وقت آتی ہے ‘جب یہ جھکنے کا فن سیکھ لیتی ہے۔ طاقت کی عظمت ‘ اِس کا عجز ہے۔ عجز’ علم ہے… تکبر’جہالت !!
علم روشنی ہے … مگر یہ جس قندیل سے نکلتی ہے اسے محبت کہتے ہیں۔ سب سے بڑا علم’ محبت کی قندیل سے تعلق قائم کرناہے … اور سب سے بڑاجہل’ شمعِ محبت سے رُوگردانی کرناہے۔ محبت سے محروم ہونا … علم سے محروم ہوناہے۔محبت سے محروم انسان تعصب اور جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتا رہتاہے۔ محبتوں اور محبوبوں کامنکر ‘ جاہل ِ مطلق ہوتاہے۔ محبت ایک ولایت ہے … اور یہ ولایت انہیں عطاہوتی ہے جو ہر غرض سے پاک ہوتے ہیں۔ بے غرض انسان حالتِ امن میں ہوتاہے اور اُس سے اَمن ِ عالم کوکوئی خطرہ نہیںہوتا۔ نفرت ‘ حسد ‘بغض اور کِبر… انسانی نفس کی متفرق اور متکثراغراض ہیں … اور انہی اغراض ومقاصد کا ٹکرائو ‘جنگ کا طبل ہے ،محبت … وحدت ہے، نفرت… تکثیر … بلکہ وحدت کی تکفیر! محبت جمع کرتی ہے … نفرت … تقسیم … بلکہ تقسیم در تقسیم ۔نفرت … بھائیوں کے درمیان پہلے دیوار کھینچتی ہے … پھر تلوار۔
وسائل پر تصرف کی اندھی خواہش انسان کو طاقت کی لاٹھی گھمانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اپنے اندر قناعت اور سکون کی دولت سے محروم ہوجانے کے سبب افراد اور اقوام ایک دوسرے کے ساتھ بے سمت اور بے مصرف مقابلے میں مصروف ہیں …یہی مقابلہ مجادلے سے ہوتاہوا مقاتلے تک پہنچتاہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ ہم نے باہم مقابل اور متحارب رہنے کانام ”عمل ” رکھ لیا ہے۔ گویا ہماری ”عملی زندگی”… عملی طور پر مسلسل جنگی جنون میں مشغول رہنے کانام ہے ۔ جنگی جنون میں مبتلا ہونا … شعور سے نکل کر شور اور شورش میں مبتلا ہونا ہے ۔ قوموں کے درمیان وسائل پر جھگڑاتصادم کی شکل اختیار کر لیتاہے… اور تصادم میں سب سے پہلے جس چیز کا خون ہوتاہے ‘ وہ انسانی وقار ‘ عقل اور شعورہے۔ جب تک حالت ِ اَمن اندر نافذ نہ ہو … باہر اَمن کی حالت کا نفاذ ممکن نہیں۔ باالفاظِ دیگر جنگ وجدل سے نجات’ خواہش سے نجات حاصل کئے بغیر ممکن نہیں۔
اَمن … امان دئیے بغیر ممکن نہیں … اور اَمان ایک طاقتور ہی کمزور کو دے سکتا ہے … یوں قیام ِامن کی ذمہ داری ہمیشہ طاقتور کے سرہی رہے گی۔ اَمان… معافی اورخدمت کی طرح غیرمشروط ہوتا ہے۔ مشروط امان کو باجگزاری کہتے ہیں… اورمشروط خدمت کا نام تجارت ہے۔ اَمن کا قیام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک طاقت کی تلوارکو تہذیب کی نیام میں ڈالنے کی تمنا بیدار نہیں کر دی جاتی ہے ۔اَمن کاخرمن… بِیا کاگھونسلہ ہے … برداشت اور رَواداری کا تنکا تنکا جمع کرنے سے بنتاہے۔ایک شعلۂ استکبار … اَمن کے خرمن کو جلاکر راکھ کر دیتاہے۔اِسلام … امنکا اسلام ہے ‘مخلوق کے نام ! السّلامُ علیکم… سلامتی کا پیغام ہے … اگر کوئی قبول کرے!!کتنی بڑی رحمت کابادل انسانیت کے سروں پر اُمڈآیا تھا اُس روز… جب رنگ’ نسل اورزبان کے تعصبات یک قلم مٹی میں ملا دیئے گئے تھے … جبلِ رحمت پررحمت ِ عالم مجسم ہو گئی تھی… پوری انسانیت کیلئے پیغام ِ رحمت … امن ‘ سکون اور سلامتی کا پیغام ‘عرفات کی فضائوں اور ندائوں کو عطر بیز کر رہا تھا۔ عالمِ انسانیت میں یہ کس شان کی وحدت تھی اور کیسی وحدت کی شان تھی کہ رنگ ‘ نسل اور زبان کے فخرو مباہات اور تعصبات… وقوفِ عرفات کے روز موقوف ہو گئے۔ اِستحصال کا ہر ممکنہ پہلو قلم زد کر دیا گیا… سُودکاتمام کاروباربلاتخصیص ِسُود وزیاںختم کردیا گیا۔
اَمانتوں کو اُن کے حقداروں تک پہنچانے کاحکم فی الفورنافذ کردیاگیا۔ آج اِنسانی مذاہب کی تاریخ نے اپنے صفحات میں ایسی لبرل بات محفوظ کرلی ‘ جو کُل عالمِ اِنسانیت کیلئے یکساں قابلِ قبول بھی ہے اور قابلِ عمل بھی ! بانی ٔ دینِ مبین صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ایک عام مسلمان کی جان’ مال اور آبرو کو ہر مقدس دن ‘ مقدس مہینے اور مقدس شہر کی طرح محترم قرار دے رہے ہیں۔ اس سے پہلے انسانی لہو معبدوں کی حرمت پر بہتا چلا آیاتھا۔آج دُنیا ئے عالم کے مذاہب کی تکمیل اِس بات پر ہو رہی ہے کہ انسان کی حُرمت اُولیٰ ہے … انسان کی تکریم اَولیٰ ہے ۔ آج فکر ِ انسانی کو نیا رُخ دیا جاتاہے … انسان مقدم ہے اور ہر وہ چیز مؤخر … جو انسان کی تکریم کی راہ میں حائل ہے … یہاں تک کہ نماز باجماعت حاصل کرنے کیلئے بھی دوڑ کر شامل ہونے کی ممانعت ہے …کہ دوڑ خواہ کیسی ہی ہو’ اِنسانی وقارکے منافی ہے۔
خطبہ ٔ حجتہ الوداع ہر دورمیںپوری انسانیت کیلئے اَمن کاپیغام ہے ۔ یہ اَمن وسلامتی کا پیغام’ اَمن ِ عالم کی ضمانت ہے … اُس ذات کی طرف سے ‘جو رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہے …محبو ب ِ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ربّ العالمین ہے۔ اِس لیے جو قوم بھی اِس پیغامِ اَمن کو … جس کی روح امانت ‘ دیانت ‘ انصاف اور انسان کی قدر شناسی ہے… اپنی روحِ عمل کا حصہ بنائے گی ‘وہ اَمن و سلامتی کے ثمرات سمیٹ لے گی !تب تک کے لیے اجازت ، کل کسی نئے موضوع کے ساتھ آپ سے ملاقات ہو گی ، اللہ حافظ ! رابطہ کے لیے !email jamianoor786@hotmail.com cell ,03314403420