عبدالقادر ملا پاکستان سے سچی محبت کرنے کی خاطر پھانسی پر چڑھ گیا: ناہید حسین

اربن ڈیموکریٹک فرنٹ UDF کے بانی چیئرمین ناہید حسین نے کہا ہے کہ عبدالقادر ملا پاکستان سے سچی محبت کرنے کی خاطر پھانسی پر چڑھ گیا اور یہ 65 سالہ بوڑھا آج پاکستان میں اور پاکستانیوں کی نظر میں اجنبی رہا نئی نسل اس کی شکل سے تک واقف نہیں اور ہمارا الیکٹرونک میڈیا اسے جنگی جرائم میں مرتکب قرار دے کے پھانسی دیئے جائے کی خبریں نشر کرتا رہا اور جبکہ عبدالقادر ملا جو دین کی خاطر پاکستان سے محبت کی خاطر ایک بنگالی پاکستان کیلئے پھانسی کے پھندے پر جھول گیا افسوس کے پاکستان میں ہی گمنام ٹھہرا ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا انہوں نے مزید کہا کہ عبدالقادر کا قصور کیا تھا، پاکستان سے محبت، وہ پاکستان کی تقسیم کے مخالف تھا اس محبت وطن پاکستانی کا خیال تھا کہ بھارت سے ساز باز کرکے پاکستان کو توڑنے کی سازش کرنے والے شیخ مجیب الرحمن کی اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینگے اور اس باہمت نوجوان نے پاکستانی فوج کا ہر اوّل دستہ بن کر پاکستان نظریہ پاکستان کا اور اسلام کی حفاظت کا بیڑہ اٹھایا ملا عبدالقادر کو سزا دینے والی بنگلہ دیشی خاتون وزیر اعظم کا باپ شیخ مجیب الرحمن اپنے مشن میں کامیاب ہو گیا۔ اور ٩٠ ہزار پاکستانی فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے۔

اور ملا عبدالقادر جیسے ہزاروں، لاکھوں نواجوانوں کو پاکستانی فوج کی مدد کرنے پر چن چن کر مارا گیا چوکوں میں پھانسیاں دی گئیں مگر انکے پائے استقلال میں لرزش نہ آئی پھر ایک موقع ایسا بھی آیا کہ بھپرے بنگلہ دیشی عوام نے شیخ مجیب الرحمن کو پاکستان توڑنے کی سزا دی اور حکومت کا تختہ الٹا گیا اور شیخ مجیب الرحمن کو اس کے اپنے ہی فوجیوں نے قتل کر دیا تب اس کی بیٹی بیرونِ ملک تھی اور بعد میں آ کر سیاست میں حصہ لیا تو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم بن کر جب سیاب تک اپنے باپ کا انتقام لے رہی ہے ۔ ناہید حسین نے کہا جن لوگوں پر آج جنگی جرائم میں مقدمات چلائے جارہے ہیں وہ لوگ اب دو دو دفعہ پارلیمنٹ کے ممبران بھی رہ چکے ہیں۔اور خود عبدالقادر ملا بنگلہ دیش کے آئین کے تحت دو دفعہ بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔

کیا کسی کو اُس وقت پتہ نہیں تھا کہ وہ غدار ہے انہوں نے کہ اس بنگالی عبدالقادر ملا کیلئے یہ مشکل تھا کہ وہ اپنی قوم کے نسل پرستوں سے معافی مانگ کر اپنا سر بچا لیتا؟ یہ تو آسان تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا کیونکہ اس نے نظریہ پاکستان پر جان دی ہے اس نے تسلیم کیا کہ اس نے ایک سب سے بڑی اسلامی ریاست کو بچانے کی جدوجہد کی اس نے ان لوگوں کا ساتھ دیا جو رنگ میں نسل میں زبان میں اس سے مختلف تھے لیکن افسوس ہے تو پاکستانی حکومت پر جس نے اپنے اس محسن کیلئے ایک آوا ز بھی نہیں اٹھائی وہ شہید ہو کر اپنے رب کے حضور جا پہنچا مگر ہم سب کو یہ سبق دے گیا کہ سر کو کٹایا جاسکتا ہے مگر باطل کے سامنے جھکایا نہیں جاسکتا۔ ناہید حسین نے آخر میں کہا کہ عبدالقادر ملانے اپنے لئے جس راستے کا انتخاب کیا وہ دنیا پرستوں کا راستہ نہیں ہے انہوں نے کہا بحیثیت قوم ہم پاکستانی بہت شرمندہ ہیں اور آپ سے اظہار ِ ہمدردی کے دو بول بھی نہ بول پائیں گے اور نہ آپ کے حق میں کوئی آواز اٹھا سکیں گے۔