جس سماج میں جھوٹ، فریب، منافقت اور لاقانونیت کی حکمرانی ہو ،کرپشن ،بے انصافی ، لوٹ مار اوراقرباء پروری کا راج ہو ، اُس سماج کے لوگوں کا جھوٹی قسمیں کھانا اور قرآن مجید کو اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کیلئے استعمال کرنا غلط نہیں سمجھا جاتا ،غلط تو وہ سمجھتے ہیں اور ڈرتے تو وہ ہیں جنہیں اپنے ربّ کی گرفت کا احساس ہوتا ہے،جنہیں اِس بات کا خوف ہوتا ہے کہ اگر جھوٹی قسم یا جھوٹا قرآن اٹھایا تو وہ اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ پائیں،مگر جب انسان کے دل و دماغ سے سزاوجزاء کا یقین نکل جائے اور اپنے اعمال کے حساب وکتاب کا ڈر جاتا رہے تو وہ بے خوف ہوجاتا ہے،پھر اُسے اپنے موقف کو سچ ثابت کرنے کیلئے کچھ بھی کرگزرنے سے ڈر نہیں لگتا،ملک ریاض کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
عدالتی بیان پر اکتفا کرنے کے بجائے اُس نے عوام کی نظروں میں اپنا مقدمہ مضبوط بنانے کیلئے قرآن اٹھاکر چیف جسٹس پر الزامات لگائے،ارسلان افتخار کو ڈان قرار دیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اُس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے،ماہرین قانون کے نزدیک تو ملک ریاض صرف توہین عدالت کے مرتکب ہوئے،مگروہ عوام کی نظروں میں ذلیل و رسوا ہونے کے ساتھ ربّ کی پکڑ اور قرآن کی بے حرمتی کے سزاوار بھی ٹہرے ،شاید یہ ربّ کے کلام کی بے توقیری کی سزا ہے کہ انہوں نے اپنی دنیاوی نیک نامی کو خود اپنے ہی ہاتھوں خاک میں ملادیا،حالانکہ اصول و قاعدہ یہ تھا کہ اگر ملک ریاض کے ساتھ کوئی دھوکہ یا فریب ہوا تھا تو وہ قانونی راستہ اختیار کر کے ارسلان افتخار کے خلاف ایف آئی آر درج کرا سکتے تھے۔
Chief Justice Of Pakistan Son Dr Arslan
قانونی کاروائی کرسکتے تھے ، یہ کام اُن کیلئے کوئی مشکل نہ تھا کہ صدر اور وزیراعظم اُن کے قریبی دوست ہیں،مگرملک ریاض نے مقتدر حلقوں کی تائید سے جس سازشی ڈرامے کا سکرپٹ تیار کیا تھا، اُس کا مرکزی خیال چیف جسٹس پاکستان کو عوام کی نظروں میں گرانا،انہیں بدنام کرنا اور دباؤ ڈال کر مستعفی ہونے پر مجبور کرنا تھایا پھر اُن کے خلاف حکومت کو صدارتی ریفرنس کیلئے مواد کی فراہمی تھا۔اگر اُن کے اِس اقدام کا مقصد اُس 34کروڑ کی رقم کی واپسی تھا جو اُن کے بقول انہوں نے ارسلان افتخار کودی تو پھر ملک ریاض نے عدالت کے اندر اور باہراپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کیوں نہیں کیا؟ نہ ہی انہوں نے اُس کیلئے کوئی قانونی راستہ اختیار کیا،بلکہ دونوں مقامات پر اُن کا طرز عمل اِس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ وہ چیف جسٹس اور اُن کے خاندان کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر تے رہے۔
حقائق بتاتے ہیں کہ ملک ریاض نے سپریم کورٹ میں اپنے خلاف مقدموں میں ریلیف لینے کیلئے نہ صرف چیف جسٹس پاکستان کے قریبی وکلاء اعتزاز احسن اور حامد خان کی خدمات بھاری فیسوں پر حاصل کیں بلکہ اپنی کامیاب پالیسی ”فائلوں کو پہیئے لگانے” کے مطابق ارسلان افتخار کو بھی استعمال کیا،لیکن جب اُن کی یہ تمام کوششیںرائیگاں ثابت ہوئیں اور انہیں سپریم کورٹ سے مقدمات میں ریلیف نہ ملا توانہوںنے چیف جسٹس پاکستان کے خلاف یہ ڈرامہ کھیلا اور انہیں بلیک میل کرکے خوف زدہ کرنے کی کوشش کی ،لیکن اَمرربیّ ہے کہ حق اور سچ کبھی مغلوب نہیں ہوتا،نہ ہی زیادہ دیر چھپایا جاسکتا ہے۔
ہاں وقتی طور پر جھوٹ کے تانے بانے سچائی کوگدلا ضرور دیتے ہیں،لیکن بہت جلد حقیقت طشت ازبام ہوجاتی ہے اور حق اپنی تمام تر سچائی کے ساتھ نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔کہتے ہیں سازش کبھی چھپائے نہیں چھپتی اورسازشی کردار اپنے لب و لہجہ ، حرکات و سکنات سے سازش کے تانے بانے خود ہی بے نقاب کردیتا ہے ،اِس کیس میں بھی یہی ہوا،وہ ملک ریاض جس کے بارے میں عام تاثر یہی تھاکہ وہ ایسی کرشمہ ساز شخصیت ہے ،جس نے زیرو سے ہیرو تک کا سفر کامیابی سے طے کیا اوراپنے راستے میں آنے والے ہر ممکنہ شخص کو ہٹانے کے بجائے اپنی طاقت کے بل پر اپنے حلقہ احباب میں شامل کرلیا،خود اپنے ہی جال میں پھنس گیا اور اپنے ہی کھودھے ہوئے گڑھے میں گرگیا، وہ انٹرویو جو اُس نے اور اُس کے حواریوں نے منظم منصوبہ بندی کے تحت چیف جسٹس کے خلاف تیار کیا تھا، اُس انٹرویو کے ابتدائی اور وقفے کے درمیان ملک ریاض اور اینکرز کے درمیان ہونے والی آف دی ریکارڈ گفتگو کی وڈیو سامنے آتے ہی اِس سازش کے سارے کردار عریاں ہوکر قوم کے سامنے آگئے،اِس وڈیو کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ حکمران جماعت کس طرح ملک ریاض کے ساتھ نہ صرف شامل ہے بلکہ مقتدر طبقے کی جانب سے ٹی وی چینلز مالکان اور اینکرز پرسنز کو پیسے کے زور پر خرید کر اپنی مرضی کے پروگرام پیش کرکے عوام کو کیسے گمراہ کرتے ہیں،اب ملک ریاض کے خودساختہ انٹرو یو اور ٹی وی مالکان اور اینکرپرسنز کی منافقانہ روش منظر عام پر آنے کے بعد پرائیویٹ چینل کی جانب سے مسلسل یہ پروپیگنڈہ کیاجارہا ہے کہ ملک ریاض انٹرویو کی لیک ہونیو الی فوٹیج دراصل ملک کے ایک مشہور و معروف ٹی وی چینل کی جانب سے اُن کے خلاف کی جانیو الی سازش کا نتیجہ ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنی خفت مٹانے ا ور چینل مالکان و اینکرپرسنز کی جانب سے اختیار کئے جانیو الے منافقانہ روئیے پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے،اِس کا ثبوت ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز کا استعفیٰ ہے،جو ظاہر کرتا ہے کہ اِس ادارے کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوئی ،بلکہ ادارے کے مالکان خود اِس منافقانہ روش میں شامل تھے۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ جس طرح ملک ریاض نے ڈاکٹر ارسلان افتخار کے حوالے سے ریکارڈ محفوظ کیا اور ہوٹلوں ، کلبوں، شاپنگ سینٹروں کی تصاویر بنائیں ،یہ تمام عمل منظم سازش کی چغلی کھاتے ہیں،جبکہ دوسری جانب ریلیف نہ ملنے کے باوجود ڈاکٹر ارسلان پر سرمایہ کاری کا جاری رہنا ،سازش کو منطقی انجام تک پہنچانے کا اہم ثبوت ہے ، اگر ملک ریاض بے گناہ ہوتا تو وہ آغاز میں ہی براۂ راست یا بالواسطہ چیف جسٹس کو ڈاکٹر ارسلان کی بلیک میلنگ سے آگاہ کرسکتا تھا ، مگراُس نے خفیہ ایجنڈے کے تحت آبرو مندانہ راستہ اختیار کرنے کی بجائے شاطرانہ راستہ اختیار کیا اور صحافیوں اور وکلاء کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے انہیں مبینہ دستاویزات دکھاتا رہا،چونکہ ملک ریاض کا مقصد اپنے مقدمات میں ریلیف حاصل کرنا اور ریلیف نہ ملنے کی صورت میںچیف جسٹس کو بدنام کرنا تھا،اِس لیے اُس نے ذرائع ابلاغ کے بعض عناصرکی مدد سے یہ ہنگامہ مچایاتاکہ چیف جسٹس کو اپنے منصب سے علیحدہ ہونے پر مجبورکردیاجائے یا پھر انہیں حساس مقدمات کی سماعت سے روک دیاجائے، اِس عمل میں وہ یہ بھول گیا کہ حق اور باطل کی جنگ میں ہمیشہ حق کی فتح لازم ہے،یہ درست ہے کہ ماضی میں ہماری عدالیہ کے کردار پر سوالیہ نشان لگتے رہے۔
Supreme Court Of Pakistan
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری کے2007ء میں مشرف کے سامنے انکار اور2009ء میں ا ُن کی بحالی کے بعد عوام کی نظروں میں عدلیہ کا وقار بلند ہوا ہے اور اُن کی نظریں عدلیہ پر ہی لگی ہوئی ہیں،یہی وجہ ہے کہ اب عدلیہ کو نشانے پر لیا جارہا ہے،جبکہ یہ اَمر بھی کسی سے مخفی نہیں کہ موجودہ حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں روز اوّل سے زبان زدِ عام ہیں اور عدالتی فیصلوںاور ناقابل تردید ثبوتوں کے باوجود صدر، وزیراعظم، وزراء اور پیپلز پارٹی کی قیادت” میں نہ مانوں” کی پالیسی پر گامزن ہے، گذشتہ دنوں عدالتی احکامات نہ ماننے کی وجہ سے وزیراعظم نہ صرف مجرم ٹھرائے گئے اورمستقبل میں انھیں نااہلی کا بھی سامنا ہے۔اگر گذشتہ چار سالوں کی حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو حکمرانوں کے سامنے عوام، فوج،سمیت تمام ادارے اور قوتیں بے بس نظر آ تی ہیں۔
دوسری جانب بالادستی کی دعویدارپارلیمنٹ ربڑاسٹمپ کا کردار اد کرتی دکھائی دیتی ہے ، مگر اِس ناگفتہ بہ حالت میں بھی ایک فرد ایساہے جو پاکستان کے بے بس اور لاچار عوام کیلئے اُمید اور روشنی کی آخری کرن ثابت ہوا ہے اوروہ فرد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودہری صاحب ہیں،جنہوں نے اپنے کرداروعمل سے سپریم کورٹ آف پاکستان کو عوام کی نظروں میں عزت و باوقار بخشا اور عوام کا کھویا ہوا اعتماد بحال کروایا ہے، اسی لیے ہمارے حکمران انہیں اپنی راۂ کی رکاوٹ سمجھتے ہوئے ہٹانے کیلئے اِس قسم کے اوچھے حربے استعمال کررہے ہیں،آج پاکستانی عوام یہ بات بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر ارسلان اور ملک ریاض اسکینڈل منظر عام پر لانے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے،سازش تیار کرنے والے شاید اِس خوش گمانی میں مبتلا تھے کہ چیف جسٹس صاحب انصاف کے مقابلے میں شفقت پدری کو ترجیح دیں گے اور بلیک میل ہونے یا سودے بازی کرنے پر مجبور ہوجائیںگے۔
چیف جسٹس کے ازخود نوٹس نے اُن کے سارے حربے ناکام بنادیئے اور ارسلان کیس کی ابتدائی سماعت میں ہی واضح کردیا کہ انصاف اندھا ہوتاہے اوروہ یہ نہیں دیکھتا کہ ملزم باپ ، بیٹا یا بھائی یا پھر کوئی اور رشتہ دار ہے، کیا آج پاکستان کی موجودہ تاریخ میں دور نبوی ۖاور سنت فاروقی جیسی کوئی اور ایک ایسی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔؟اب جبکہ چیف جسٹس اور عدلیہ کے خلاف تمام سازش بے نقاب ہوچکی ہے اور یہ حقیقت بھی سامنے آچکی ہے کہ اِس مبینہ سازش کا شر خود چیف جسٹس صاحب کیلئے خیرکا باعث اور ملک ریاض کیلئے برْے دنوں کا نقطہ آغاز بن چکا ہے، ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ارسلان افتخار اور ملک ریاض کے ہمراہ وہ اصلی چہرے بھی بے نقاب کیے جائیں جو اُس سازش کے پیچھے کارفرما ہیں۔
Chief Justice of Pakistan
قارئین محترم ! آج اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیںکہ چیف جسٹس افتخارمحمدچودھری کی جانب سے طاقتورقوتوں کے مقابلے پر ”حرف انکار”نے پاکستان کی سیاست کا رخ بدل دیا ہے، جنرل مشرف سے معزولی اورعوامی تحریک کے نتیجے میں چیف جسٹس افتخارمحمدچودھری کی بحالی کے باوجود آزادعدلیہ کے پرکاٹنے کی سازشیں ابھی ختم نہیں ہوئیں،طوفان ابھی ٹلا نہیں ہے ،بے لاگ تحقیقات کے عدالتی حکم کی آڑ میںفتنہ وفساد سے بھر پور ناٹک رچانے کا موقع ابھی بھی حکومت کے ہاتھ میں ہے،اسی وجہ سے ملک ریاض کے بے سروپا الزامات نے قوم کو ایک بارپھریکسو کردیا ہے اور عدلیہ کی حفاظت کرنے والی قوتیں دوبارہ منظم ہورہی ہیں، اِن حالات میںپاکستان کی سیول سوسائٹی اور خاموش اکثریت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اِن کرپٹ مافیا کے خلاف آخری جنگ لڑنے کیلئے میدان عمل میں آنے کی تیاری کرلیں ،کیونکہ اب وقت آگیا ہے کہ حق اور باطل،سچے اور جھوٹے ، کھرے اور کھوٹے میں تمیز پیدا کی جائے اوراُن قوتوں کا ساتھ دیا جائے جو حق کی علامت، سچائی کی علمبردار اور ظالم و استحصالی قوتوں کے خلاف عدل و انصاف کا نشان ہیں۔
آج چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ذات تبدیل شدہ، آزاد عدلیہ میںانصاف کی ضمانت و بنیاد ہے، ہمارا ماننا ہے کہ ایک ایسے شخص کو اُس کے عاقل و بالغ بیٹے کے گناہوں اور کوتاہیوں کی سزا ہرگزنہیں دی جاسکتی جو کرپٹ مافیا کے خلاف جہاد کررہا ہے،جو بے لگام اداروں کو آئین و قانون کے تابع لانے کیلئے دن رات کام کررہاہے اور جس کا عمل وکردار عوام سمیت پوری دنیا کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہو، لہٰذایہ جدوجہد صرف چیف جسٹس افتخارمحمدچودھری کے تحفظ اور استقرار کی نہیں بلکہ اُس آزاد عدلیہ کے عزت وقار اور بقاء و سلامتی کی ہے جو66سال سے غلام و محکوم اورمجبور و بے بس قوم کیلئے آج اُمید کی آخری کرن ہے۔تحریر : محمد احمد ترازی mahmedtarazigmail.com