عظمت اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین

Hafiz Abdul Aala Durrani

Hafiz Abdul Aala Durrani

کتب اصول میں صحابی کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ صحابی وہ خوش نصیب انسان ہے ۔اس سعید روح کا لقب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو بحالت ایمان دیکھنے کی سعادت نصیب فرمائی ۔جسے اس لائق جانا کہ وہ اس کے حبیب ۖ کا رفیق بنے ،جس کے سینے پر انوار رسالت براہ راست پڑے ، جن کی نگاہوں نے دامن محمدی کو بوسے دئیے ۔ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام کے بعد سب سے بلند مرتبہ جماعت اصحاب محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ہے۔

یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے محبت و عشق کو ایک ایسا عنوان دیا جس سے تاریخ نا آشنا تھی ،عقیدت و جانثاری کے وہ باب رقم کیے جن سے صفحات تاریخ بالکل خالی تھے، ان سعید روحوں نے اسلام کے پرچم کو پوری دنیا میں لہرا دیا ، مشرق و مغرب کی طنابیں کھینچ لیں ۔ اورجذبہ فدا کاری کی وہ وہ مثالیں قائم کیں ، جنہیں سن کر انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ خدایا تو نے یہ کس قسم کے انسان پیدا کئے تھے ۔
رفقاء نبی سے محبت :اہل سنت کئے اس عقیدے کوقاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ نے بڑے جامع انداز میں یوں بیان کیا کہ” آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے احترام ، اعزاز اور محبت کے تقاضوں میں سے یہ بات بھی ہے کہ آپ کے ساتھیوں اور رفقائے کار کی عزت ، ان کا ادب اوران سب کا اعزاز و اکرام کرنا ، ان کے حق کو پہچاننا ، ان کی اتباع کرنا ، ان کی تعریف کرنا ، ان کیلئے دعائے رحمت و استغفار کرنا ، ان کے باہمی اختلافات میں دلچسپی نہ لینا اوران کے باہمی مناقشات پر لب نہ کھولنا اور مؤرخین شیعہ ، بدعتی اور جاہلوں کی پھیلائی ہوئی جھوٹی خبروں کی طرف توجہ نہ کرنا جس سے صحابہ کرام کی شان میں تنقیص و تحقیر پیدا ہوتی ہو ۔ ایسی تمام خبروں کی اچھی تاویل کرنا چاہیئے ورنہ نظر انداز کردینا چاہیئے ۔ بلکہ صحابہ کرام کی خوبیاں بیان کرنا ، ان کی تعریف و مدح کرنا اور ان کے ساتھ روز قیامت اٹھنے کی خواہش کرنا… یہ سب امور محبت رسول سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔سورہ الفتح کے آخر میں حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ” محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر شدید اور آپس میں رحیم ہیں’ تم انہیں دیکھتے ہو کہ وہ رکوع و سجود میں مشغول اور اللہ کے فضل اوراس کی رضاکی جستجو میں ہیں۔

ان کی پہچان ان کے چہروں پر سجدوں کا نشان ہے’ ان کی یہ صفت تورات میں ہے اور انجیل میں ان کی صفت یوں دی گئی ہے’کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے اپنی کونپل نکالی ، پھر اسے مضبوط کیا اور وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی ، جس سے کسان خوش ہوگئے ، اور اس کے پھلنے پھولنے پر کفار کے دل جلیں’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ان ایماندار اور صالح اعمال والوں کو مغفرت اور اجر عظیم عطا فرمائے گا(29) ان تمام لوگوں پر اللہ راضی ہوچکا ہے اور انہیں دنیا ہی میں چلتے پھرتے جنت کی بشارت دے چکا ہے۔ مثلاً اہل بیعت شجرہ کے بارے میں سورہ الفتح میں ارشاد ہوا کہ ”یقینا اللہ راضی ہوگیاان مومنوں سے جب وہ وہ درخت تلے تمہاری بیعت کررہے تھے۔ سورہ الاحزاب میں حق تعالیٰ نے اپنے وفاشعار بندوں کی یوں تحسین فرمائی کہ” ان لوگوں نے اللہ کے ساتھ کیے گئے عہد کو خوب نبھایا۔

سورہ توبہ میں حق تعالیٰ نے تمام اصحاب محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم پر اپنی رضامندی کو ان کی رضامندی سے ملایا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا لوگو : میں ابوبکر سے خوش ہوں ، میں عمر سے ، علی سے ، عثمان سے ، طلحہ سے ، زبیر سے ، سعد سے ، سعید سے ، عبدالرحمن بن عوف سے اور ابو عبیدہ سے خوش ہوں ۔ تم ان کا مرتبہ پہچانو ۔اے لوگو! حق تعالیٰ نے جنگ بدر میں شریک ہونے والوں کی اور بیعت رضوان میں شریک ہونے والوں کی مغفرت فرما دی ہے۔ تم میرے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کے بارے میں میرا لحاظ کیا کرو اور ان لوگوں کے بارے میں جن کی بیٹیاں میرے نکاح میں ہیں یا میری بیٹیاں ان کے نکاح میں ہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ روز قیامت تم سے کسی ظلم کے بدلے کا مطالبہ کریں پھر وہ معاف نہیں کیا جائے گا۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ میرے ساتھیوں اور میرے دامادوں کی رعایت کیا کرو۔ جو ان کے بارے میں رعایت کرے گا اللہ دنیا و آخرت میں اس کی حفاظت فرمائیں گے ۔اور جو ان کے بارے میں میرا بھی لحاظ نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے بری ہیں ۔اور جس سے اللہ بری ہوجائے وہ اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتا ۔ مزید ارشاد ہوا کہ میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، ان کو ملامت کا نشانہ نہ بناؤ جو شخص ان سے محبت کرتا ہے وہ میری محبت کی وجہ سے محبت کرتا ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ میری وجہ سے بغض رکھتا ہے ۔جو شخص ان کو اذیت دیتا ہے وہ مجھے اذیت دیتا ہے ، (عنقریب وہ اللہ کی گرفت سے بچ نہیں سکتا) سب سے بہتر زمانہ میرا پھر میرے صحابہ کا اور پھر ان کے بعد وال؛ وں کا۔

Quran Majeed

Quran Majeed

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کابیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سے زیادہ رحم والے ابوبکر ہیں، اور سب سے زیادہ اللہ کے احکام کو نافذ کرنے والے عمر ہیں اور سب سے زیادہ حیادار عثمان ہیں اورسب سے زیادہ صحیح فیصلے کرنے والے علی اورسب سے زیادہ قرآن کے قاری ابی بن کعب ہیں ۔ اور سب سے زیادہ فرائض کو جاننے والے زید بن ثابت ہیں اور حلال و حرام کے عال معاذبن جبل ہیں اور ہر امت کاامین ہوا کرتاتھا میری امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں ۔ سہل بن عبداللہ تستری کہتے ہیں کہ جو شخص صحابہ کی تعظیم نہ کرے وہ حضور پر ایمان ہی نہیں رکھتا ۔حضرت ایوب سختیانی کہتے ہیں کہ جس شخص نے ابوبکر سے محبت کی وہ صراط مستقیم پر چلا اور جس نے عمر سے محبت کی اس نے دین کے واضح راستے کو پالیا اور جس نے عثمان سے محبت کی وہ اللہ کے نور سے منور ہوا اور جس نے علی سے محبت کی اس نے دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا۔

جو صحابہ کی تعریف کرتا ہے وہ نفاق سے بری ہے اور جو صحابہ کی بے ادبی کرتا ہے وہ بدعتی ، منافق اور سنت کا دشمن ہے مجھے اندیشہ ہے کہ اس کا کوئی عمل مقبول نہیں ہوگا ۔حضور نے فرمایا میرے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کو گالیاں نہ دیا کرو اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کی برابر سونا خرچ کرے تو وہ ثواب کے اعتبار سے صحابہ کے ایک مد یا آدھے مد کی برابر بھی نہیں ہوسکتا ۔ترمذی) ایک روایت میں ہے کہ جو میرے صحابہ کو گالیاں دے اس پر اللہ کی لعنت اور فرشتوں کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت ۔ نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل ۔ اللہ نے انبیاء کرام کے بعد تمام مخلوق میں سے میرے صحابہ کو چھانٹ لیا ہے اور ان میں سے چار کو ممتاز کیا ہے ۔ ابوبکر و عمر وعثمان اور علی ۔ان کو تمام لوگوں پر فضیلت دی ۔رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین۔

تحریر : حافظ عبدالاعلےٰ درانی