حضرت عمر فاروق رضہ اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے ۔ ان کے دور میں اسلامی مملکت28 لاکھ مربع میل تک پھیل گئی۔ایک مرتبہ آپ مسجد کے منبر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہو گیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے۔ جب تک یہ نہیں بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے۔ وہ زیادہ ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔ تو حضرت عمر فاروق رضہ اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ بھی موجود ہے۔ عبداللہ بن حضرت عمر فاروق رضہ اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہو گئے۔ حضرت عمر فاروق رضہ اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا بیٹا بتاؤ تمھارا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم اس ذ ات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداللہ بن حضرت عمر فاروق رضہ اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا، اور ان کے پاس پہننے کا لباس خستہ حال ہو چکا تھا اس لیے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد صاحب کو دے دیا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کی بیوی (عاتکہ) کہتی تھی کہ؛عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنھہ بستر پر سونے کے لیے لیٹتے تو نیند ہی اڑ جاتی تھی،بیٹھ کر رونا شرو ع کر دیتے تھے۔ تو میں پوچھتی تھی کہ ؛ اے امیر المومنین ،کیا ہوا ، وہ کہتے تھے ، ”حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خلافت ملی ہوئی ہے، اس میں مسکین بھی ہیں ضعیف بھی ہیں یتیم بھی ہیں اور مظلوم بھی ، مجھے ڈر لگتا ہے اللہ تعالیٰ مجھ سے ان سب کے بارے میں سوال کریں گے۔ مجھ سے جو کوتاہی ہوئی تو میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا جواب دوں گا۔” سیدنا عمر کہتے تھے ، اللہ کی قسم، اگر دجلہ کے دور دراز علاقے میں بھی کسی خچر کو راہ چلتے ٹھوکر لگ گئی تو مجھے ڈر لگتا ہے کہیں اللہ تعالی ٰ مجھ سے یہ سوال نہ کر دیں اے عمر، تونے وہ راستہ ٹھیک کیوں نہیں کرایا تھا ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کی انداز حکمرانی دیکھ کر ایک غیر مسلم یہ کہنے پر مجبور ہو ا کہ” اگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنھہ 10 سال اور ملتے تو دنیا سے کفر کا نام و نشان نہیں ملتا” ان کے انصاف اور عدل کے نظام نے ہزاروں لوگوں کو متاثر کیا اور اسلام قبو ل کرتے گئے۔
حکمران عوام کی تمام ضروریات ،تحفظ، انصاف ، مساوات ، تعلیم، صحت اور تمام سہولیات کا زمہ دار ہوتا ہے ۔ ہم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کی انداز حکمرانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حاکم ِ ریاست کی ذمہ دارہوتے ہیں ۔ سب سے اؤل بات کہ اللہ کو پائی پائی کاجواب دہ ہے مگر افسوس ہماری حکمران طبقہ “پڑھے لکھے جاہل” سے بد تر ہیں ان کو سمجھا سمجھا کر لوگ تھک جاتے ہیں مگر زرہ برابر بھی فرق اور احساس نہیں ہوتا ہے افسوس یہ لوگ اکثر کہا کرتے ہیں کہ وہ وقت اور تھا اور آج کا وقت اور ہے۔ یہ سراسر غلط خود فریبی ہی ہے کیونکہ انسان کی بات کریں مگر کسی حد تک وہ بھی مجبوری ک تحت کہ وہ انسان ہو تھے اور آج کے انسان اور ہیں لیکن قران مجید میں اللہ فرماتے ہیں ” اے ایمان والوں! اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرو” بالکل وا ضح ہے کہ ہم کو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی پیروی سے کرناہے اس کے علاوہ زرا برابر بھی گنجائش نہیں ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کی ساری نظریہ اور اعمال صرف اور صرف اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی سے تعلق رکھتے ہیں خود مختار نہیں تھے نا ہی کوئی اپنی اعمال تیار کیا۔ جو حضور اکرم پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا بالکل وہی کیا اور آج 14سو سال بعد بھی اگر ہم اس عظیم ہستی کی کردار کی تعریف ہی تعریف سنتے ہیں۔
Zardari Pervaiz Ashraf
ہمارے حکمران منافقت کی بادشاہی میں ہیں۔ ان سے سچ بولا ہی نہیں جاتا ہے۔ نہ کوئی قابل ذکر کردار ادا کرتے ہیں کر لے ماضی بعید کو تم اپنی اے حکمرانوں! نہ تھی زرا تجھے بھی تو روٹی کپڑا اور مکان نہیں تھی زرا بساط تیری ہو گئی عوام مہربان در حقیقت تو خادم اعلیٰ ہی ہے اور عوام تیری ہے حکمران موجودہ صدراور وزیراعظم سے لیکر ان کے اتحادیوں تک کے لوگو ں کی کوئی قیمت ہی نہ ہوتی اگر عوام ان کو ووٹ نہ دیتی۔ جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی سیاست، صحافت ، معاشرت ،حکومت ، فلاحی ادارے ، عوامی ادارے ، اور حفاظتی ادارے ، نظم و ضبط ، ضابطہ حیات و زندگی کے تمام معاملات میں اسلامی نظام آکسیجن کی مانند ہے ورنہ گمراہی ہی گمراہی ہے۔ اسلامی سیاست سے منہ موڑنا ذلت رسوائی ہے جیسا آج کی سیاست و حکومت کی وجہ سے عوام اور حکمران زلیل و رسواہیں۔حکمران خود پریشان ہیں اورسکون کے لیے ساری ریاست ترس رہی ہے ۔ دن بدن عوامی مسائل میں اضافہ ہو ر رہا ھے۔ ہے۔ عوام کو اب اسلامی نظام کی طرف توجہ دینا چائیے۔ کیونکہ اسلامی ملک کا اسلامی نظام ہونا ضروری ہے۔اسلامی نظام میں حضرت عمر فاروق رضہ اللہ تعالی عنہ کا کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے ۔حکمرانوں کو اپنی گریبان میں جھانک کر دیکھنا چائیے کہ باتیں بڑی ہیں اور کردارصرف الفاظ بن کر سارے سیاستدانوں و حکمرانوں نکل رہی ہے۔ علماء کرام سے درخواست ہے وہ بھی سیاست کو نہیں نظام درست کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں۔
سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علماء کرام ایک پلیٹ فارم پر کیوں متحد نہیں ہیں؟ یہ سوال متحدہ مجلس عمل کے تمام ارکان سے ہے ایک اتحاد بنایا گیا تو قبل از وقت کیوں اختلاف پیدا ہوئے ؟ آج تمام مذہبی جماعتیں فرقہ پرستی کی بنیاد پر کیوں سیاست کر رہے ہیں ؟ علماء کرام فرقہ واریت کی جنگ کا کیوں شکار ہیں ؟
Imran Altaf Hussain
بحر حال عمران خان ، الطاف حسین، زرداری، گیلانی ، راجہ ، چوہدری ، نواز شریف سمیت تمام اہم سیاستدان وحکمران مسلمان ضرور ہیں مگر عالم دین نہیں ۔ ان کو روز قیامت کا احتساب کا بھی علم ہے مگر احساس نہیں ہے، لیکن عالم دین تمام حضرات مولانا فضل رحمن ، سید منور حسین ، حافظ سعید ، مولانا سمیع الحق سمیت تمام سیاستدان کیوں لاپر وائی کا مظا ہرہ کر رہے ہیں۔ کیا ان کو آج پاکستان کی حالات نظر نہیں آرہے ہیں ؟ کیا اللہ سوال نہیں کریگا ؟ اللہ سے ڈریں اور پاکستان کی حالت بدلنے کے لیے قران مجید سے نظام بنائیں۔ امریکہ پرستی بند کروائیں ۔ اگر نہیں ہوتا تو جہاد شروع کریں۔
اس کے لیے تمام علماء کرام فرقہ واریت کو نظر انداز کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حالت کو درست کرنے کے لیے متحد ہوجائیں۔ عمران خان ، الطاف حسین، زرداری، گیلانی ، راجہ ، چوہدری ، نواز شریف میں سے کوئی پاکستان کی حالت درست نہیں کر سکتا ہے ۔ صرف اسلامی نظام سے ہی ہمارے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں اگر علماء کرام میں اتحاد ہو سکتا ہے تب ایسا ممکن اور آسان بھی ہے۔