عمران تیرا اِک اشارہ حاضر ہے لہو ہمارا

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

کل میں ہر لمحہ پرجوش نجی ٹیلی وژن کا کرکٹ کے حوالے سے ایک پروگرام دیکھ رہی تھی پروگرام میں پاکستان کے سیمی فائنل ہارنے کے بعد مایوس افسردگی چھائی ہوئی تھی پاکستان کے ہار جانے کے بعد تمام ستارہ شناس کرارے تنقیدی سوالوں کے مرحلے سے گزر رہے تھے یہ سب ایک روز قبل اسی پروگرام میں پیش گوئی کر چکے کہ ستارے کامیابی دکھا رہے ہیں ایک حضرت تو اتنے دلگرفتہ ہوئے کہنے لگے کہ میں نے عہد کر لیا ہے کہ آج کے بعد ساری دنیا کے بارے میں پیش گوئی کروں گا لیکن پاکستان کرکٹ ٹیم جیسی بے اعتبار ٹیم پر کبھی کچھ نہیں کہوں گا ان حضرات کا برا حال دیکھ کر چاہیے تو یہ تھا کہ میں بھی محتاط ہو جاتی اور اجتناب برتتی کسی پیش گوئی کے کرنے سے پہلے کرکٹ کا تعلق تو یہاں بھی ہے جس کے لئے لکھ رہی ہوں یہ وہ انسان ہے یا وہ معیار ہے جس نے کرکٹ کو عزت دی مقام دیا اعتبار دیا 1992 میں کرکٹ کو ناکامی کی عمیق گہرائیوں سے نکال کر کامیابی کی بلندی دی اورورلڈ کپ کی صورت تاج اس کے ماتھے پے سجایا ایسے ہونہار ایسے بلند قد کے لوگ تاریخی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جو زندگی میں صرف اپنے لئے نہیں جیتے بلکہ ان کی ذات اللہ نے کروڑوں لوگوں کی بھلائی سے منسوب کی ہوتی ہے انسان وہ بھی ہے جو اس ملک میں کیڑے مکوڑوں کی طرح ختم کیا جا رہا ہے اور انسان یہ بھی ہے جو ان بے بسوں کو اشرف المخلوقات کے رتبے پے واپس دیکھنا چاہتا ہے ان کے لئے دن رات جدوجہد کر رہا ہے۔

ناکامی کا لفظ زندگی میں پڑھنا گوارہ نہیں اس لئے اسکو اپنی لغت سے ہی مِٹا دیا ہے جیسے طارق بن زیاد نے ساحل پے اترتے ہوئے شکست کے خوف کو زائل یوں کیا کہ فتح یا موت کو مقدر مانتے ہوئے اپنی کشتیاں ہی نذرِ آتش کر دیں اور پھر اسکی کامیابی تاریخی حیثیت اختیار کر گئی یہی جوش یہ جذبہ اس عظیم انسان میں ہے جسے آپ سب عمران خان کے نام سے جانتے ہیں اس وقت پاکستان میں سیاسی بے اعتمادی کی فضا ہے کوئی اس قابل دکھائی دیتا کہ جس پر اعتبار کر کے اس کی سیاسی دنیا میں تقلید کی جائے ماسوائے ایک نام کے عمران خان اس انسان کی بحیثیت کھلاڑی بحیثیتِ کیپٹن بحیثیتِ سیاسی لیڈر اور اب عظیم تاریخی لیڈر میں کیا پورا پاکستان دل سے عزت کرتا ہے وہ الگ بات ہے کہ روایتی سیاسی نظام ہے جس کی وجہ سے بظاہر وہ نہیں مانتے لیکن دل میں نہ صرف وہ اپنے لیڈران سیرنجیدہ ہیں ور رشک سے عمران خان کو دیکھتے ہیں۔

عمران خان کو حقیقی معنوں میں قائد اعظم کے بعد سچا سیاسی لیڈر تسلیم کرتے ہیں پاکستان کیلیئے کام کرنے کیلیئے میں کسی بھی سیاسی جماعت کو اس قابل تصور نہیں کرتی تھی کہ ان کے ساتھ مل کر کام کیا جائے میری سوچ بہت پختہ ہے کہ پاکستان کو اس طرح اجاڑنے کا باعث یہی سیاستدان بنے ہیں ان لاکھوں بھوکے انسانوں کے اصل مجرم یہی سیاسی لیڈران ہیں یہی وجہ ہے کہ نہ تو کسی سیاسی جماعت کو کبھی اہمیت دی اور نہ ہی سوچا کہ کسی کے ساتھ کام کروں گی وقت اپنے اندر کئی تغیرات رکھتا ہے اسی طرح سوچ میں تغیر تب رونما ہوا جب سونامی نے لاہور میں پی ٹی آئی کو الگ شناخت دلوائی اسی خوشیکو پیرس میں بھی پی ٹی آئی نے منایا تبھی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی کئی لوگوں نے ناک بھوں چڑہائی بہت سوں نے کہا کہ سیاست غلط ہے لیکن میں تو عمران خان کو جانتی تھی اس کی زندگی کے تمام واقعات کھلی کتاب تھے لہذا بغیر کسی تردد کے وویمن ونگ کی صدارت سنبھال لی اس کے بعد کئی مشکلات پیدا کی گئیں لیکن میں تو تحریک کے سفر میں شامل تھی وہ بھی اجڑے ہوئے پاکستان کو پھر سے بسانے کیلیئے اس لئے ہار نہی مانی آخر اپنے لیڈر کی جدوجہد سے کچھ توانسان سیکھتا ہے اس ایک گزرنے والے سال نے ثابت کیا کہ واقعی پی ٹی آئی ہی وہ واحد جماعت ہے جس نے ابھی تک اپنی انفرادیت ثابت کی ہے ہر معاملے میں الگ انداز ِ فکر الگ اطوار اپنے قائد کی منفرد شخصیت کی طرح پارٹی لیڈران کیلیئے اپنے گوشوارے جمع کروانے ہوں یا پھر شفاف الیکشن کے ساتھ منتخب شدہ نمائیندوں کا انتخاب ایسی جرآت آمیز روایت صرف یہی شیر کروا سکتا تھا لوگ تو وہی ہیں جو سالہا سال سے اس دقیانوسی نظام میں جکڑے ہوئے ہیں وہی ماحول ہے وہی علاقے کے مکیں ہیں لیکن جب یہ لوگ پی ٹی آئی میں آتے ہیں تو اس کا خاص انداز مخصوص سوچ ان کی سوچ کو مکمل تبدیل کر دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ جو ورکر یہاں ہے وہ واقعی الگ سوچ کا حامل سچا پاکستانی ہے اس کی سیاسی سوچ عملی اقدام بالکل ویسے ہی منفرد ہوں گے جیسی اس جماعت کی بنیاد ڈالتے ہوئے اس کے قائد کی خواہش تھی ایک کے بعد ایک بڑا اچھوتا انوکھا فیصلہ پھر اس پے ڈٹ کے اپنے مقف کی وضاحت اس کے بعد اس پر عمل اور ہمیشہ کی طرح کپتان شاندار مارجن سیاپنی سیاسی اننگز کھیل کرکامیابی کا ایک نیا باب سیاسی دنیا میں رقم کرتا ہے اور ہر بار کی کامیابی ان پختہ خیال سیاسی ناخداں کی سوچ و بچار میں ڈوبی ہوئی سیاہ راتیں صبح میں تبدیل کروا دیتا ہے۔

پاکستان جل رہا ہے خیبر سے کراچی تک آگ کا دریا بنا دیا گیا ہے سب جانتے ہیں بین القوامی سازش ہے لیکن اس سازش کو پھیلنے سے روکا جا سکتا تھا اگر پہلی بار پاکستان کی فضائی حدود کی پائمالی کرنے والے ڈرون کو مار گرایا جاتا لیکن افسوس!! کہ پاکستان کے شہری ایک طویل عرصے گوشت پوست سے بنے ہوئے انسان تو شائد سمجھے ہی نہیں جاتے ان کو مشینی روبوٹس سمجھ لیا گیا ہے جن کے مارے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا بے حس بے جان عوام کی جان و مال کا تحفظ حکومتِ وقت کا فرض اولین ہے وقت ایسے بد ترین دور میں ہم کو رکھے ہوئے ہے کہ ان مردہ ذہن لوگوں کو حکمران کہنا اور عوامی سلامتی کی توقع رکھنا کسی غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ان ڈرونز کو حکومتی آشیر باد حاصل ہے جس کی وجہ سے ظلم کا یہ بازار گرم ہے ہزاروں معصوم بے گناہ کومل نازک پھول سے بچے جو خاک و خون میں نہلا دیے گئے دہشت گردوں کے نام پر کوئی المناک واقعہ ہو نام کراچی ہو تو میڈیا چیخ چیخ کر اپنے گلے تھکا لیتا ہے بے حسی کی انتہا ہے کہ ہم نے وزیرستان میں ہونے والے ان اٹیکس کو جیسے کوئی معمول کی کاروائی سمجھ لیا ہے اس کی خبر خبروں کے درمیان یوں دی جاتی ہے جیسے یہاں جان سے جانے والے پاکستانی نہیں تھے یا پھر وہ ویسے انسان نہیں تھے دکھ ایک جیسا ہونا چاہیے ہم نے ایسی ہی بے اعتنائی برت کر پاکستان کو وفاق سے اکائی میں تبدیل کر دیا ہے بلوچستان ہو یا وزیرستان ہم خود بھی حکومتی منفی رویے کے عادی ہو چکے ہیں۔

وزیرستان تاریخی حیثیت کا حامل علاقہ ہے یہ اکھڑ غصیلے کسمپرسی کے مارے ہوئے غیور لوگ ہیں جو محبت پے جان قربان کرتے ہیں غنڈہ گردی پے جان سے چلے جاتے ہیں بے غیرت نہیں بنتے نا ہی مفاہمت کرتے ہیں اپنے قبائلی نظام سے بغاوت پے آمادہ نہیں ہوتے اپنی روایات پے فخر رکھتے ہیں خود کو الگ انداز میں دنیا میں قائم رکھے ہوئے ہیں ان پر ڈھائے جانے والے مظالم پر تحریک انصاف نے ہمیشہ ہی احتجاج کیا ہے اور عمران خان وہ واحد لیڈر ہیجو ابتدا سے ہی حکومتی مفاہمتی عمل میں شامل ہوئے بغیر ان مظالم کے خلاف کھل کر بولا دہشت گردی کی جنگ کو بے سروپا اور خود ساختہ قرار دیتے ہوئے اس کے وسیع نقصانات کا ہمیشہ بے جگری سے ذکر کیا آج جب یہ شیر اپنا ہراول دستہ لے کر پاکستان کے جوانوں کے ساتھ بہنوں بیٹیوں کے ساتھ اپنے ہم وطنوں کو پرسہ دینے جا رہا ہے تو نجانے کیوں ان سیاسی نا خداں کی نیندیں حرام ہو رہی ہیں۔

عام مفروضہ بڑہا چڑہا کر پیش کیا جا رہا ہے کہ ایک دن میں یہ وزیرستان پہنچ ہی نہیں پائیں گے یہ بین القوامی میڈیا پے آنے کی یا شہرت کی کوئی سیاسی سوچ ہے جس کو امن مارچ کا نام دے کر عمران خان سیاسی حیثیت کو کیش کر رہا ہے۔
اس موقعے پے سنجیدہ رہ کر لکھوں تو یہ شعر ہے کہ
یہ ہوش و خرِد سے بیگانے بیکار کی باتیں کرتے ہیں
پائل کے غم کے پتہ نہیں جھنکار کی باتیں کرتے ہیں
اور اگر ان کی ذہنی سطح کے مطابق لکھوں تو شعر یہ ہونا چاہیے
توں کی جانیں پولئی مجے انار کلی دیاں شاناں
ایس دکان تے پان وِکیندے توں سمجھے نے پٹھے
میرا سچا رب کہتا ہے کہ تم اچھائی کی نیت کرو تو میں اسی وقت سے ثواب دینا شروع کرتا ہوں یعنی نیت کا کرنا اجر کا ملنا ہے تو جب نیت کر لی اب آگے کیا ہوتا ہے وہ الگ کہانی ہے ابھی تو سچ یہ ہے کہ عمران خان سے پہلے مولانا فضل الرحمن انہی علاقوں میں جلسہ کر چکے محسنان پاکستان نے بھی کیا لیکن جس شدت سے عمران خان کو ایک نجات دہندہ کی صورت دیکھا جا رہا ہے اور جتنا بے صبری سے عمران کا انتظار کیا جا رہا ہے وہ کسی اور کی قسمت میں نہیں ایک اینکر آج کہہ رہا تھا کہ عمران وہاں اکیلا جاتا تو بھی تمام لوگوں نے بے تابی سے گھروں سے باہر نکل کر پل بھر میں جمع ہوجانا تھا سبحان اللہ یہ ہے عوامی قائد ابہام پھیلائے جا رہے ہیں۔

میڈیا کو گمراہ کن خبریں دی جا رہی ہیں وہاں پہنچنا یا نہ پہنچنا یا پھر راستے میں اتنے طویل قافلے سے خطاب کر کے لوٹ آنا یہ سب مفروضات گو اپنی سیاسی حیثیت میں تو مضبوط ہیں لیکن !! کوئی اور ہے جو یہ کوشش کرنے کی ہمت رکھتا ہو ؟ اتنے ہجوم کو لے کر اس بے جگری سے قیادت کرتے ہوئے سینہ تانے ایسے پرخطر علاقے میں جاسکے؟اگر وہاں نہیں پہنچ سکتے اور ان سیاسی پنڈتوں کو اس کا علم بھی ہے تو یہ کیوں نہیں ایک تیر سے دو شکار کرتے؟ایسے کھیل کھیلنے کے تو یہ برسوں سے عادی ہیں یہ جانتے ہیں ان کی نوٹنکی کا بھانڈا اب بیچ چوراہے پھوٹ چکا ہے وہاں نہ جا سکیں لیکن عوام مین کہہ کر سیاسی اہمیت بڑہا لیں زبانی کلامی ان میں اتنی سکت بھی نہیں ہے اندر سے انتہائی ڈرپوک اور بزدل ہیں اس کے علاوہ جانتے ہیں کہ ان کی ایسی خلوص سے کھوکھلی پکار پے کسی نے پاں باہر نہی دھرنا یہ عوامی اعتماد سے محروم قائدین ہیں عمران کا نوجوان سونامی “” یہ ہر ایک کا اعتبار کرنے والی نہیں باریک بینی سے معاملات کی پرکھ رکھتی ہے ایک لاکھ نفوس پے مشتمل یہ امن مارچ مجھے نجانے کیوں لگتا ہے لاکھوں کی تعداد میں نظر آئے گا فرض کرتے ہیں کہ تعداد لاکھ سے کم ہوتی ہے پھر بھی اس کا دوسرا روشن پہلو یہ ہے کہ اس کے نتائج بہت شاندار ہوں گے۔

راستے کی دشواریاں راستے کا طویل ہونا اتنی بڑی تعداد کو سست روی سے لے کر چلنا نامساعد حالات جان کا خطرہ ایسا پرخطر قافلہ تو بس حسین کا دیکھا تھا جو جانتے تھے کہ کیا ہوگا لیکن قصد کر چکے تھے لہذا ارادہ متزلزل نہیں ہونے دیا سر کٹا دیا پیچھے نہیں مڑے اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی اللہ کی امان میں ایک ایک فرد ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں اس قافلے کو اللہ کی رضائیں امان دیں گی حفاظتی نکتہ نظر سے حکومتی اکابرین واویلا مچا رہے ہیں لیکن عمران خان نے ہر نکتے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے ہر صورت وہاں پہنچنے کا ارادہ کر لیا امریکن میڈیا کے 8 لوگ ان کے ساتھ ہیں جان کا خطرہ موجود ہے اور حکومتی رضامندی بھی نہیں ہے کئی قوانین ہیں جن کی پاسداری ضروری ہے لیکن بڑے مقاصد حاصل کرنے کیلیئے ان چھوٹے قوانین کو کبھی کبھار توڑنا انسانیت کے بہترین مفاد میں ہوتا ہے۔

عمران خان نے ثابت کر دیا کہ وہ واقعی پورے پاکستان کا لیڈر ہے بے خوف بے جگری سے خطرات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والا جو اسلامی حاکم کی طرح دشمن کو سامنے دیکھ کر ایوانِ صدر نامی بنکر میں چھپ کر نہیں بیٹھے گا بلکہ اپنی عوام کی بقا کیلئے تلوار سونت کر دشمن کا بے جگری سے مقابلہ کرتے ہوئے اس کو جہنم رسید کرے گا کل کیا ہوگا یہ اوپر والا جانے اس دورِ پر آشوب میں جب ایک طرف یہ امن مارچ ہونے جا رہا ہے تو دوسری طرف ناموسِ رسالت پے جاگتی غیرت حسبِ سابق پھر سے معدوم ہو کر دم توڑتی دکھائی دے رہی ہے مجھے اس امن مارچ میں ناموسِ رسالت پے ہوئے احتجاج کی کامیابی دکھائی دیتی ہے کہ ابھی غیرت اسلام زندہ ہے جرآت کردار باقی ہے آج اگر اتنے پرخطر علاقے میں اتنا بڑا لشکر اتارا جا رہا ہے تو انشااللہ کل کو اور لوگ بے خوف ہوں گے اور ناموسِ رسالت پے اسی طرح متحد ہو کر لاکھوں کی تعداد میں کامیاب احتجاج کر کے انشااللہ کوئی نہ کوئی بین القوامی قانون منظور کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے اسی عظیم لیڈر اسی تاریخی نام عمران خان کی زیرِ قیادت ایسے کئی اور تاریخی معرکے وقوع پزیر ہوں گے جو ان جھوٹے سیاسی دیوتاں کیلیے باعثِ ندامت ہوں گے۔

Imran Khan

Imran Khan

عمران خان !! پوری قوم کا آپ فخر ہیں آپ کی مضبوط شاندار قیادت اس کے تحت کئے گئے جرآت مندانہ سیاسی مفادات سے پاک صرف اور صرف عوامی بھلائی کیلیئے کئے گئے تمام کے تمام فیصلے ماضی میں درست ثابت ہوئے ہیں آپ کی تیزی سے بڑہتی مقبولیت کا آسمان کو چھوتا گراف بتا رہا ہے کہ اربوں کھربوں میڈیا پے خرچ کر لئے جائیں تب بھی یہ سادہ عوام اپنے اگلے سیاسی رہنما کا جانچ چکی پرکھ چکی اس پاکستان کو جتنا ادھیڑنا تھا ظالموں نے ادھیڑ دیا انشااللہ اگلا سال اس قوم کیلئے کامیابی کا فخر کا سر بلندی کا سال ہوگا پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کے آپکی پشت پے موجود ہے یقین جانیے میں جانتی ہوں میرے جیسے بہت ہیں جو تڑپ رہے ہیں کہ ہم اس تاریخی لمحے سے محروم رہ گئے اور یہی کامیابی ہے کسی بھی سیاسی لیڈر کی کہ اس کے ووٹرز اس تک رسائی حاصل نہ کر سکیں اور دکھی ہوں آپ کے ہر بڑہتے ہوئے قدم کے ساتھ ہم سب کی لاکھوں دعائیں رہیں گی انشااللہ کل پہنچتے ہیں یا نہیں یا درمیان میں سفر ختم ہوتا ہے لیکن اول فول کہنے والے یاد رکھیں یہ سفر کا آغاز ہے اس بار نہیں تو اگلی بار لیکن اس امن قافلے کو پڑا وہیں ڈالنا ہے اپنے بہن بھائیوں کے دکھی دلوں کوپرسہ دینے کیلئے ہمت نہ قائد ہارتا ہے اور نہ ہی اس کے سپورٹرز لہذا سفر ادھورا رہے یا مکمل انشااللہ اپنے تمام تر مقاصد کو ضرور حاصل کرے گا کیونکہ گھر کی خاطر سو دکھ جھِیلیں گھر تو آخر اپنا ہے۔ انسانیت کا پیغام سفر کے درمیان میں کھڑے گھروں سے نکلے ہوئے ان ہمدرد انسانوں کا دور پہاڑوں سے پرے مظلوم انسانوں کے دلوں تک ضرور پہنچے گا ایسا میرا ماننا ہے انشااللہ عمران تیرے جانثار بے شمار بے شمار۔

تحریر : شاہ بانو میر