ہمیں کیا چاہیئے ‘اخوت ‘محبت اور باہمی اتفاق۔ اگر ہم مسلم ہوکربھی ایک دوسرے کے زخم پرمرہم نہ رکھ سکیں تو یقین کیجئے غیر مسلم انسان ہم پر برتری کاحق رکھتا ہے۔کپتان کی مخالفت یا حمایت کی بات ہوتی تو شاید قلم ہی نہ اُٹھاتا(موجودہ حالات میں )لیکن بات اُن معصوم چہروں کی ہے ۔جن کے ٹکڑوں میں تقسیم ‘پھڑپھڑاتے لاشے یہ سوال کرتے ہوئے دم توڑ جاتے ہیں جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں اب توامریکی بھی اس مارچ میں شرکت کرنے کیلئے بے تاب ہیں تو کیا پھر مسلم نہیں ؟؟امن مارچ کی مخالفت کا مطلب یہی سمجھاجائے گاکہ یہ لوگ بے جرم سزاپریقین رکھتے ہیں ۔جب چاہا ‘جسے چاہا’جہاں چاہا قتل کردیا۔
اکیسویں صدی میں چنگیزیت کا راج ہے۔غیر توغیراپنوں کی بھی حکمت ودانائی سے بھری کھوپڑی طوطے کی مانند اتناہی بولتی ہے جتنا مالک بولنے کا اختیاردیتے ہیں۔خوب ہیں ایسے رہنماء جو ہربات کو سیاست و الیکشن کے ترازو میں تولتے ہیں۔آپ دیکھئے گا وزیرستان کے مارچ پر بھی انگلیاں اُٹھانے والوں کی تعداد کم نہ ہوگی۔اگر وزیرستان کا مارچ کامیاب وکامران لوٹا تو پھر پاکستان میں تبدیلی کا سورج طلوع ہونے کوہے۔چاہے کسی بھی فرد کی کی رہنمائی ہومگرخلوص اور قیادت کی صلاحیت اور شفاف سیاست کاشغف ازحد ضروری۔
کہتے ہیں اُبھری ہوئی اور اُبھرتی جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کاشکارہیں۔ارے محترم ہمیں کسی جماعت سے نہیں پاکستان سے اُلفت ہے۔سناہے کپتان کی جماعت میں بھی رسہ کشی عروج پرہے لیکن دل نہیں مانا(دل توپاگل ہے)۔حالانکہ جماعت میں ہرقسم کی شخصیت ظہورپذیرہے۔خیر سیاست کا کچاچٹھاکھولنے کے بجائے وزیرستان کے زخم خوردہ لوگوں کی بات ہوجائے توبہترہوگا۔کچھ حلقے اس بات کااظہار کررہے ہیں کہ وزیرستان مارچ عمران خان کا سیمی فائنل ہوگا انکی بات اپنی جگہ حقیقت ہے لیکن میرے خیال میں یہ ہمارے ارادوں’دلوںاور محبت کافائنل ہوگا ۔
ہر پاکستانی کو چاہیئے کہ بلاخوف وخطر اس مارچ کو اپنی سطح پر کامیاب بنانے کی تہ دل سے کوشش کرے۔اب دیکھنایہ ہے کہ اس ضمن میں انتظامیہ کا کردار کیاہوگا؟۔کیاوہ اسے سیاسی مارچ سمجھ کر اقتدار کی آہنی دیوار(یاد رکھیئے اقتدار جتنابھی قوی ہوبسااوقات ذراسی لغزش بھی اُسے ریت کی دیوار کی مانند کردیتی ہے) کا روپ اختیار کرے گی یاپھر ہم وطنوں کے دکھوں کامداواکرے گی۔یہ مارچ پاکستان کے سیاسی ومعاشی افق پر تبدیلی لاسکتاہے اگر اس کا انجام وآغاز دلفریب ہوا۔جہاں یہ کپتان کی جماعت کی انتظامی صلاحیت کا امتحان ہوگاوہیں یہ ڈرون حملوں پر سیاسی بیان نشرکرنے والے رہنمائوں کی اصلیت بھی واضح کردے گا۔
Drone Attack
رہ گئی بات ڈرون حملوں میں امریکیوں کی شرکت کی’تو انکی شرکت یہ واضح کردے گی کہ تمام امریکی اسکے حامی نہیں ؟پھر اس مارچ کو امریکہ کیسے نظرانداز کرے گا’جس میں اسکے شہری بھی شریک ہوںگے ؟کس زاویے کس انداز سے دفاع کرے گا؟یہ سوال اپنی جگہ لیکن یہ بھی تو سوچیئے اس ضمن میں پاکستان کی گورنمنٹ اور اپوزیشن کس جانب رخ کریں گی ؟ کیا وہ امریکی پالیسیوں سے دشمنی پالنے کاذوق رکھتی ہیں ؟کیا وہ امریکیوں کی موجوگی کو اپنی بے رحمی کارنگ دیں گے یابے بسی کا؟ یہ سب سوال حسن ظن کے تحت کیئے گئے مگر یاد رکھئے اگر مارچ ناکام ہوا یاکیاگیا توسوئے زن رکھنے والے زبان درازی کرکے اپنے آپ کو اپنی ہی نظروں میں حقیربنا دیں گے اور مارچ کے حامی ہار کربھی جیت جائیں گے کہ خداکے ہاں بات عمل پر نہیں نیت پرمنتج ہوتی ہے البتہ اہل دنیاکا ذوق نرالاہے۔ہمیں کیاچاہیئے ‘اخوت ‘محبت اور باہمی اتفاق۔اگرہم مسلم ہوکربھی ایک دوسرے کے زخم پرمرہم نہ رکھ سکیں تو یقین کیجئے غیرمسلم انسان ہم پر برتری کاحق رکھتاہے۔ تحریر : سمیع اللہ سمیع