سیاست کے بازی گرو ں نے سیاست کے بل بوتے پر ہر اس محکمہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی جس میں قانون کی یامستقبل کے معماروں کی تربیت کے پیش نظر کچھ امید کی کرن باقی تھی قیام پاکستان سے ہی ملک میں جمہوری قوتوں کو پنپنے کاموقع نہ مل سکاجس کی بڑی وجہ جمہوری جماعتوں کے اندر جمہوریت کا فقدان ہے جب بھی جمہوری حکومت کو اقتدار کا موقع ملا اسٹیبلشمنٹ نے اس کو ایسی راہ پر لگادیا جس سے انہیں اقتدار تو ملا مگر ان کی پالیسی سے عوام جلد ہی تنگ آگئے جس سے انہیں اسی عوام کے احتجاج نے اقتدار سے الگ ہونے پر مجبور کردیا پنی مدت سے قبل ہی ان کو اقتدار فوج کے حوالے کرنا پڑا اسی وجہ سے وطن عزیزمیں جمہوری دور کم اور مارشل لا دور کا عرصہ زیادہ رہا اسی طرح کی صورت حال موجودہ عوامی حکومت کے دور میں پائی جارہی ہے مرکز میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت جبکہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ہونے کے باوجود دونوں جماعتوں کے کارکنوں اور عام آدمی کے مسائل حل نہ ہونے کے باعث گومگو کی کیفیت ہے وفاقی حکومت اپنی پالیسیوں کو کامیاب قرار دے رہی ہے جبکہ پنجاب حکومت اپنے اقتدار کو کامیاب ترین قرار دے رہی ہے پاکستان کے عوام اور دونوں جماعتوں کے کارکنان وفاقی صوبائی قیادت سے نالاں ہے سیاسی جماعتوں کے کارکنان کے ان جائز مطالبے کو اگر اوپن کیا جائے تو پارٹی سے غداری کا لیول لگاکر کہیں انہیں بنیادی رکنیت سے فارغ کرکے غدار ی کا لیول چسپاں ہونے کے خوف کے باعث سچے اورمحب کارکنان احتجاج بھی نہیں کرپارہے پچھلی حکومت میں ان دونوں جماعتوں کے کارکنوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک روا نہ رکھا گیا پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو اپنے جائز کام کروانے کے لیے اتنا گلا شکوہ پچھلی حکومتوں پر نہ تھاجتنا اب ان کی اپنی حکومت سے ہے کیونکہ مرکزمیں پاکستان پیپلزپارٹی جس کا نعرہ روٹی کپڑا مکان اور غربت کا خاتمہ سمیت کارکنوں کوتحفظ فراہم کرنا تھا اقتدار حاصل کرنے کے بعد ان کارکنان جنہوں نے جمہوریت کی بحالی کے لیے جیلیں کاٹی شدید عقوبتوں کا نشانہ بنے ان کو پوچھنا تو درکنارمہنگائی بے روزگاری کے باعث ان کی دن بدن مشکلات میں اضافہ سنگین تر ہو گیا۔پنجاب حکومت جس نے اقتدار ملنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے عوام کوریلیف دینے کی بجائے ایسے اقدامات کیے جس سے عوام تنگ آگئے پاکستان مسلم لیگ ن نے اقتدار ملنے سے پہلے ہر پاکستانی کو روزگار دینے کے وعدے کیے مگر جب اقتدار ملا توعوام کو اسٹیبلشمنٹ کے رحم وکرم پر چھوڑدیا جس کی زندہ مثال پنجاب حکومت کی طرف سے تین سال گذرنے کے باوجود صوبائی محکمہ جات میں ہزاروں پوسٹیں خالی پڑی ہے مگر ان پر بھرتیاں کرنے کی بجائے التوا میں ڈال کر بے روزگاروں کو روزگارفراہم کرنے کے مواقع دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے چھوڑ دیے پنجاب حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کے جادوگروں کے مشورے پر پنجاب بھر کے پرائمری ایلمنٹری ،سیکنڈری ،ہائر سکینڈری سکولوں میں سائنس ،ریاضی ، کمپیوٹرسائنس اورانگلش ایجوکیٹر کی35 ہزار آسامیوں پر بھرتی کااعلان کیا جس میں بھرتی کا معیار ایلیمنٹری سکول ایجوکیٹر سائنس ،ریاضی بی ایڈ ایم ا یڈ ایم اے ایجوکیشن ،سینئر ایلمنٹری سکول ایجوکیٹرسائنس کے لیے بی ایڈ ایم ایڈ ، ایم اے ایجوکیشن ،سینئر ایلمنٹری سکول ایجوکیٹر ریاضی کے لئے بی ایڈ ایم ایڈ ، ایم اے ایجوکیشن، سیکنڈری سکول ایجوکیٹر کمپیوٹر سائنس ، کیمسٹری ، فزکس ریاضی ، انگلش کے لیے بی ایڈ ایم ایڈ ، ایم اے ایجوکیشن کامعیار رکھ کر عمر کی حد 35سال کی گئی جبکہ دوسرے صوبہ جات میں بھرتی کی حد 40سال ہے تحصیل سطح پر بھرتی کا عندیہ دیاگیا سالہا سال سے بھرتی کے خواہشمند اساتذہ جوکہ عرصہ دراز سے پنجاب حکومت کی طرف سے بھرتی کا پنڈورا کھلنے کا انتظا رکررہے تھے محکمہ تعلیم کے جادوگروں کی طرف سے جاری کی گئی پالیسی دیکھ کر دنگ رہ گئے کیونکہ اس بھرتی پالیسی میں صرف سائنس مضامین کا اعلان کیاگیاپنجاب حکومت نے قومی زبان اردو ، مطالعہ پاکستان ، اسلامیات لازمی جس کا کوٹہ 40فیصد بنتاہے جبکہ آرٹس مضامین کا کوٹہ 30فیصد اور سائنس مضامین کا کوٹہ 30فیصد بنتا ہے کو نظرانداز کردیاسائنس مضامین جس کا کوٹہ 30فیصد بنتا ہے پر بھرتی کا اعلان کرکے لازمی مضامین اور آرٹس مضامین میں ماسٹر کرنے والے اساتذہ میں مایوسی بے چینی پیدا کردی ذرا غور کیجیے۔ پاکستان کی سب سے بڑی فاصلاتی تعلیم کی حامل علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سمیت پاکستان کی تمام بڑی اہم یونیورسٹیاں جو 90فیصد مضامین آرٹس اور لازمی مضامین میں ماسٹر کروارہی ہے کیا یہ یونیورسٹیاں بے روزگاری کے پلانٹ ہے جو نوجوان طالب علموں کوخواندہ کرکے انہیں محکمہ تعلیم کے جادوگروں کے رحم وکرم پر چھوڑدیں ؟ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا زندگی کا ہرشعبہ ان سائنس مضامین کے حامل افراد کے ذریعے چل رہا ہے۔کیا آئندہ پنجاب حکومت آنے والے وقت میں ان لازمی مضامین اردو ، مطالعہ پاکستان اسلامیات کو نصاب سے خارج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ؟ یا ان لازمی مضامین کو بھی کمپیوٹر یا سائنس مضامین میں ماسٹر کرنے والے اساتذہ کے ذریعے پڑھانا چاہتی ہے ذراغور کیجیے پنجاب حکومت کے پنجاب بھر کے تمام ایجوکیشن بورڈ کو آن لائن سسٹم کے امتحان لینے کے تجربے کو اس تجربہ میں طلبہ وطالبات کے مستقبل کو تباہ ہوناہی تھا اس پالیسی کے حامل ماہرین کا احتساب کس نے کیا ؟ صرف ایک ڈاکٹر ماجد نعیم کو جیل بھیجنے سے کیا ان ہزاروں طلبہ طالبات کا مستقبل واپس آجائے گا جو اس تجربہ کی بدولت اپنے مستقبل کو برباد ہوتے ہوئے دیکھا پنجاب حکومت کو اسی طرح کے تجربے کا ایجوکیٹر کی بھرتی میں بھی سامنا ہے کیونکہ وزیر اعلی پنجاب اقتدار کی بھول بھلیوں میں کارکنوں اور عوام سے رائے لینے کی بجائے وہ کام کرنے میں زیادہ فخر محسوس کرتے ہیں جس میں اسٹیبلشمنٹ کے جادوگروں کے مشورے شامل ہوں م مسلم لیگ ن کو پنجاب حکومت کی شکل میں پیپلزپارٹی کی جماعت کی طرح تیسری مرتبہ اقتدار ملا ان تمام ادوار کی غلطیوں پر غور کرنے کی بجائے مسلم لیگ ن کے رہنما میاں شہبازشریف نے ان غلطیوں کو دوبارہ دہراکر کارکنوں اور پڑھے لکھے نوجوانوں میں مایوسی پیدا کردی جنہوںنے سہانے سپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے اعلی تعلیم حاصل کی مگر آج وہ روزگار کی بجائے ہاتھوں میں ماسٹر لیول کی ڈگریاں لئے بے روزگاری کے ہاتھوں خودکشیاں کرنے پر مجبور ہے آرٹس گروپ کے ماسٹر گریجوایٹ امیدواروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پنجاب کے پالیسی سازوںنے صرف سائنس اورکمپیوٹر مضامین کے اساتذہ کو ترجیح دینی ہے تو پھر ہم جیسے لاکھوں امیدواروں کو کروڑوں اربوں روپے خرچ کرکے پنجاب بھر کے کالجز یونیورسٹیوں میں آرٹس کی تعلیم کے ذریعے بے روزگاری میں اضافہ کیوں کیا جا رہا ہے۔حکومت کو فی الفور آرٹس مضامین اور لازمی مضامین پڑھانے پر پابندی عائد کرنا چاہیے تاکہ خواندہ بے روزگاری کی فیکٹریاں بند ہوسکیں عوام کے ووٹوں سے منتخب کیے گئے عوامی نمائندوں کومحکمہ تعلیم کے جادوگروں کی طرف سے بے اثرکرنے وزیر اعلی پنجا ب میاں شہبازشریف کے زمینی حقائق کو جانے بغیر اصطلاحات کے نام پر عوام پر تجربات کرنے اور ان تجربات کے ناکام یا کامیاب ہونے کے نتائج کا انتظار کیے بغیر عوامی خدمت کے دعووں پر اگر پنجاب کے حکمران غور کرکے عملی اقدامات کریں تو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ نہ صرف اپنی مد دآپ کے تحت تمام مسائل پر قابو پالے گا بلکہ حقیقی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔ اقتدار کو کامیاب قرار دینے کے جادوگر اشتہار بازی اور چاپلوسی کے ذریعے وزیر اعلی پنجاب کو سب اچھا کا سلوگن دے کر زمینی حقائق سے کوسوں دور لے جاتے ہیں جہاں پر انہیں بے روزگاروں کی آہ زاریاں سنائی نہ دیں ۔۔ مگر عوامی احتجاج کو قیود وحدود میں پابند نہیں رکھا جاسکتا جس طرح آج طالب علم ایجوکیشن بورڈ وں کے سامنے جلائو گھیرائو کرتے نظر آتے ہیں مسیحائی کے کردار نرسیں پنجاب اسمبلی کے سامنے اپنے مطالبات کے لئے سراپا احتجاج ہے کیا پنجاب حکومت آنے والے وقت میں ماسٹرلیول کے بے روزگاروں کے احتجاج کی کی منتطر ہے ؟جو اپنی ڈگریاں پنجاب اسمبلی کے سامنے جلاکر کم ازکم روزگار تو نہیں دل کا بوجھ توہلکا کرسکیں گے محکمہ تعلیم کے جادوگروں سمیت پنجاب کے وزیر اعلی کو احساس دلائیں گے کہ وہ اپنی پچھلی حکومت کی گریجوایٹ پالیسی کو اپنا لیں تاکہ کچھ نہ کچھ کریڈٹ ان کی حکومت کو مل سکے مگر وزیر اعلی پنجاب کو فرصت کہاں ؟ انہیں تو اسٹیبلشمنٹ نے سب اچھا کا سلوگن دے دیا ؟؟؟جس کو دہر ادہرا کر وزیر اعلی پنجاب عوامی خدمت کے دعوے کررہے ہیں۔ وزیر اعلی پنجاب میاں شہبازشریف کو اپنی حکومت میں زندگی کے ہر شعبہ میں ان پالیسی میکروں کو تعینات کرنا چاہیے جنہیں زمینی حقائق سے واقفیت ہو جنہیں زمینی حقائق سے واقفیت نہ ہو اور پھر اس سے عوامی بھلائی کی توقع رکھی جائے یہ سب ناممکنات سے ہے وزیراعلی پنجاب میاں شبہاز شریف سمیت مرکزی حکومت کو ان تمام عوامل پر غور کرنا چاہیے جس سے عوام کے مسائل حل ہونے کی بجائے روز بروز بڑھتے جارہے ہیں عوام جنہوںنے پچھلے آٹھ سال سختیاں جھیلی اور مصائب کا سامنا کیا اور اب تمام تحریکوں میں حصہ لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں آئے روز مسائل نے ان سے روزگار چھین لیے گئے اور وہ کارکن مر ے کو مارے شہہ مدار کے مترادف کس سے گلہ کریں ؟کس سے شکایت کریں ؟کیونکہ ان کی اپنی عوامی حکومت جس کے لیے انہوںنے سختیاں مصائب اور پابندیاں برداشت کی ان کو ووٹ دینے کا مزا چکھا رہی ہے۔ عوام آئے روز بحرانو ں سے تو تنگ ہی تھے الٹا اختیارات اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میںدے کر ان پر زمین تنگ کردی عوام کومسائل سے نکالنے کے لیے کوئی پالیسی وضع کرنی ہوگی نہ کہ ان پر زمین تنگ کرنے کی پالیسی نافذ کی جائے۔