عوامی امنگوں اور خواہشات کی تکمیل

pakistan

pakistan

آزادی سے مراد ایسا ماحول جہاں نہ صرف انسان کھلی فضا میں سانس لے سکے بلکہ جہاں سب کوبرابری کی بنیادپرحقوق میسرہوں اورکسی پربھی کسی قسم کی غیرقانونی قدغن نہ لاگوہوتمام انسان دائرہ قانون میں رہتے ہوئے بغیرکسی دبا اپنی مرضی ومنشا اور اطمینان قلب کے ساتھ ہروہ عمل کرسکیں جس سے کسی دوسرے شخص کوتکلیف یانقصان نہ پہنچے ۔آزادی ہر شخص کاپیدائشی حق ہے اسے چھینا نہیں جاسکتا۔یہ حق قدرت کا عطا کردہ ہے اور تمام مذاہب اور معاشرے اس شخصی حق کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا میں ہمیشہ کمزور پرطاقتورنے غلبہ پانے کی کوشش کی ہے۔
یکم جنوری 2012  کوایم کیوایم نے بیسویں آئینی ترمیم کا مسودہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کر ادیا، اس میں نئے صوبے بنانے کی تجویز پیش کی گئی ہے، ایم کیوایم کے پچیس اراکین قومی اسمبلی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل ایک اور 239میں ترمیم تجویز کی گئی ہے آئین کے آرٹیکل ایک میں تجویز کر دوہ ترمیم میں کہا گیاہے کہ صوبہ ہزارہ بنایا جائے ، جبکہ پنجاب کے جنوبی علاقوں میں ایک یا زیادہ صوبے بنائے جائیں، آئین کے ارٹیکل 239کی شق4کو نکالنے کی تجویز بھی دی گئی ہے اس شق میں اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ صوبوں سے متعلقہ ترامیم کیلئے پارلمنٹ کی دو تہائی اکثریت سے منظوری کے علاوہ متعلقہ صوبائی اسمبلی سے بھی دوتہائی سے ترمیم کی منظوری حاصل کی جائے۔ اس کے علاوہ ایم کیوایم نے صوبہ پنجاب میں جنوبی پنجاب پر مشتمل نیا صوبہ یا نئے صوبے اور خیبر پختونخواہ میں ہزارہ خطہ پر مشتمل نیا صوبے سے متلعق سینیٹ میں دو الگ االگ قراردیں جمع کر ادی ہیں۔
ترمیمی بل قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کر وانے کے بعداس بحث کے لئے منظور کر لیا گیا تو اس موضوع پر گرما گرم بحث چھڑ گئی ، ایک طرف جہاں ا یم کیوایم کے اس عمل سے نئے صوبوں کے حامیوں کے جذبات کی صحیح معنوں میں ترجمانی کی گئی ہے وہیں دوسری جانب اسے مسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑرہاہے۔اصل میں مخالفت قرارداد کی نہیں بلکہ ایم کیوایم کی ہے اس لئے مسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی نے ایم کیوایم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور الزام لگاتے ہوئے اسے ایم کیوایم کی ہزاہ وال اور سرائیکی صوبوں کی قراردادکو خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں مداخلت قرار دی جبکہ مسلم لیگ ن کی جانب سے کراچی میں فوجی آپریشن اور فوجی عدالتیں قائم کرنے کی باتیں کی جانے لگی ہیں کیا یہ دوسرے صوبوں میں مداخلت کی بات نہیں ہے ؟اور ان کا یہ بھی کہناہے ایم کیو ایم کا ان علاقوں میں کوئی رکن اسمبلی تو کجا کوئی کونسلر تک نہیں پھر ایم کیوایم کو ان کا اتنا درد کیوں محسوس ہورہاہے ۔یہ سیاسی جماعتیں ٹھیک کہتی ہیں کہ وہاں ایم کیوایم کا ایک کونسلر تک نہیں لیکن یہ قطعی ضروری نہیں کہ جہاں ایم کیوایم کا کوئی عوامی نمائندہ موجودہوتو ایم کیوایم کوصرف ان کی فکر کرنی چاہیے، ایساشاید دوسری سیاسی جماعتیں کر تی ہونگی مگر ایم کیو ایم ایک ایسی جماعت ہے جو ہر مظلوم ومحکوم اورمحرومیوں کے شکار عوام کے بنیادی حقوق کی نا صرف فکر کرتی ہے بلکہ ان کو حق دلانے کے لیے اپنی تمام تر توانائی بروئے کار لاتی ہے۔نئے صوبوں کی تشکیل کیلئے اس بحث نے ملک گیر سطح پر ایک قومی مسئلے کی شکل اختیار کرلی ہے اور ملک کی اکثریت جن میں عوام اور سیاسی جماعتیں شامل ہیں اس بات کو تسلیم کر رہی ہیں کہ ایم کیو ایم نے نئے صوبے بنانے کی جو تجویز پارلیمنٹ میں پیش کی ہے وہ واقعی پاکستان عوام کے دیرینہ مطالبات میں سے ایک اہم مطالبہ ہے ۔ ان سب الزامات پر بحث کر کے ایم کیوایم نے وہ کام کر دکھایا کہ جو مسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی نہ کرسکیں ، جب بھی سرائیکی صوبہ اور ہزارہ وال صوبہ بنے گا تو اس کا سب سے زیادہ کریڈٹ ایم کیو ایم کو جائے گا کہ اس نے ان علاقوں کے عوام کے جذبات کی نہ صرف ترجمانی کی بلکہ عملی جدوجہد بھی کی۔
خصوصا سرائیکی صوبہ اور ہزارہ صوبہ کا مطالبہ سب سے پہلے ایم کیوایم نے اپنے منشور کا حصہ بنایا جبکہ جناب الطاف حسین کی جانب سے فاٹا میں بھی قبائلستان صوبہ بنانے کا مطالبہ سامنے آیااوردو ٹوک الفاظ میں کہاہے کہ صوبہ سندھ کی دھرتی ایک ہے اور ایک رہے گی سندھ دھرتی کی تقسیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پاکستان میں نئے صوبوں کی آواز اٹھنے کے حوالے سے تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں کہ نئے صوبوں کی آواز آخر کیوں اٹھی ایسی کیا وجہ ہوئی کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی عوام نے نئے صوبوں کی بات کی ہے ۔ نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ اپریل 2010میں شروع ہوا جب 8اپریل 2010اٹھارویں ترمیم میں صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے صوبہ خیبر پختونخواہ رکھا گیا ۔اس عمل کے خلاف صوبہ خیر پختونخواہ کے ہزارہ ڈویژن کی عوام نے سخت ردعمل وتحفظات کاا ظہارکر تے ہوئے ا لگ صوبے کے قیام کا مطالبہ کر دیا جس کے بعد ہزارہ ڈویژ ن کی عوام نے خیبر پختونخواہ سمیت دیگر علاقوں میں صوبہ کا نام تبدیل کرنے پر بے شمار احتجاجی مظاہرے کیے جو تاحال جاری ہیں۔پھر12اپریل2010 کوہزارہ کے صدر مقام ایبٹ آباد میں پر تشدد مظاہروں میں پولیس کی فائرنگ اور شیلنگ سے 12افراد لقمہ اجل بن گئے ۔ جس کے بعد ملک میں نئے صوبوں کے قیام کے مطالبے نے زور پکڑا۔
مضبو ط اکائیاں مضبوط وفاق کی علامت ہے کیونکہ وفاق اکائیوں سے مل کر بنتا ہے نہ کہ وفاق سے اکائیاں بنتی ہیں اسلئے نئے صوبے بننے سے وفاق کوکوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا ۔نئے صوبے ایک ہو ںیا زیادہ اس سے وفاق کو کو ئی فرق نہیں پڑتا ۔ صوبائی خود مختاری کسی بھی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ جس نے بھی اپنی اکائیوں کو خود مختاری دی انہوں نے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی پوری دنیا کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلو م ہوتا ہے ہر ملک نے وقت کے ساتھ ساتھ نئے صوبوں کو انتظامی بنیادوں پر تشکیل دیا اور اپنے ملک و قوم کیلئے طاقت اور ترقی کی راہیں ہموار کیں ہیں۔ یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جن کی چند مثالیں آپ کے سامنے پیش ہیں ، یونان میں 1940کی دہائی میں 39صوبے تھے جو موجودہ قت میں بڑھ کر 147صوبے ہوگئے ہیں۔ بالکل اسی طر ح ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں آزادی کے وقت صرف 9صوبے تھے بھارت نے اپنی ریاستوں کو انتظامی بنیادوں پروسیع کرتے ہوئے نئے صوبوں کی بنیاد ڈالی اور آج بھار ت میں 28 صوبے اور 7وفاقی حکومت کے زیر انتظام مرکز ہیں ۔ایران کے پاس 1950تک 12صوبے تھے لیکن موجودہ وقت میں وہاں 31صوبے ہیں اور دہشت گردی میں گھرے ہوئے ملک افغانستان میں اس وقت 34صوبے ہیں جنہیں انتظامی بنیادوں پر مزید اضلاع میں تقسیم کیا گیاہے ۔ ایسے بہت سے ممالک ہیں جو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کررہے ہیں۔
لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں جتنے زیادہ صوبے ہونگے ملک اتنی ہی زیادہ ترقی کریگا اور طاقتورومضبوط ہوگا ۔لہذا ہم چاہتے ہیں کہ تمام پہلوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جہاں جہاں نئے صوبوں کی آواز بلند ہورہی ہے وہاں وہاں نئے صوبے بنادئیے جانے چاہے تاکہ خدنخواستہ پھر کوئی سانحہ سقو ط ڈھاکہ جیسا واقعہ پیش نہ آسکے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے حل کرنے کی مخلصانہ کوششیں کی جائیں نہ کہ بحث برائے بحث کا راستہ اپناتے ہوئے اس مسئلے کو سنگین اور ناقابل عمل بنا دیا جائے، اس تمام صورتحال کودل و دماغ سے اور منطقی انداز سے حل کرنے کی ضرورت جتنی آج محسوس ہوتی ہے اواس سے پہلے کبھی نہ ہوئی، چنانچہ جلد از جلد ملک کے وسیع تر مفاد میں اس مسئلے کو عوامی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے۔
تحریر :  اسد شیخ