یہ بات حیران کن نہیں کہ شاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی ہے ۔مگر یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ جب شاہ محمود قریشی جانتے تھے زردای کی موجودگی پاکستان کے اٹیمی پروگرام کے لیے خطرہ ہے تو پھر شاہ صاحب نے یہ بات اتنی د یر تک راز کیوں رکھی اگر شاہ محمود قریشی پیپلزپارٹی میں رہتے ہوے یہ بات کہتے جس طرح ذولفقار مرزابات کرتے ہیں تو شاید شاہ صاحب کی بات میں زیادہ وزن ہوتا۔پارٹی بدلنے کا علان کرتے وقت صدر آصف زرداری کے خلاف بات کرنااور شاہ محمودقریشی کا اپنے سابقہ باس کو فرعون کہنا تو صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہ بیان بھی اسی سیاسی تحریک کا حصہ ہے جو آج کل ملک میں زور شور سے چل رہی ہے۔جی ہاں آج کل ملک میں گوزرداری گوکا موسم ہے۔بظاہرتومسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھول چکی ہیں مگر دونوں کی تحریک کا نام اور نعرہ ایک ہی ہے یعنی گوزرداری گو۔لیکن عوام کی سمجھ میں یہ جملہ نہیں آرہا کہ گوزرداری گوکہنے کا مطلب کیا ہے۔کیونکہ گو لفظ کا تو کئی جگہ کئی طریقوں سے استعمال ہوتا ہے ۔جیسے کے میں ہرروز اپنے بیٹے کو کہتا ہوں گوشاہ زیب گو آپ کی اسکول وین آگئی ہے۔ایسا ہی جملہ ڈاکٹر افضال نے مجھے پچھلے دنوں جب میری بڑی بھابی کو دوران اپریشن اونیگٹیو(o_)خون کی اشدضرورت تھی تب کہاتھا کہ گوامتیاز گوجلدی سے خون کا نتظام کرو۔اور جس طرح پرویز مشرف نے مارشل لا لگاتے وقت میاں نواز شریف سے کہا کہ اب آپ کے جیل جانے کا وقت آ گیا ہے ۔ گو نوازشریف گو۔ جب سابق صدر پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار چودھری کو ان کے عہدے سے برطرف کیا تب وکلاء تحریک نے یہی جملہ کہا تھا کہ گو مشرف گو اورپھر جب جناب صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے مل کرپرویز مشرف کو ایوان صدر سے نکالا تب بھی یہی جملہ دہرایا گیا تھااب اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ میاں نوازشریف اور عمران خان صدرآصف علی زردای کو گو کہہ کر اسکول جانے کے لیے گوکہہ رہے ہیں ۔یا ڈاکٹر افضال کی طرح خون کا انتظام کرنے کے لیے گوکہہ رہے ہیں۔یا جیسے پرویزمشرف نے میاں نوازشریف کووزیراعظم کے عہدے سے زبردستی برطرف کرکے انھیںجیل بھیجتے وقت کہا تھا کہ گونوازشریف گو۔یا جس طرح ماضی میںوکلاء نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی ان کے پرعہدے پر بحالی کے مطالبے کے ساتھ پرویزمشرف کو کہا تھا کہ گو مشرف گو۔یا پھر جس طرح موجودہ صدر آصف زاداری اور نوازشریف نے مل کرسابق صدر پرویزمشرف کو صدر کا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کر کے اس کو پورے سرکاری عزاز کے ساتھ ایوان صدر سے رخصت کرتے وقت کہاتھا کہ گومشرف گو۔خیر اس جملے کا مطلب کچھ بھی ہوایک بات تو بہت واضع ہوچکی ہے جب سے پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت بنی مخالفین کی تنقید کا نشانہ صرف صدرآصف علی زرداری ہی ہیں۔جب کے وہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے وزیراعظم کے اختیارات واپس بھی کرچکے ہیں اس کے باوجودوزیراعظم جناب یوسف رضاگیلانی کو نہ میاں نوزشریف نے کبھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور نہ ہی عمران خان نے ۔پاکستان کے پہلے مطفقہ وزیراعظم منتخب ہونے والے یوسف رضاگیلانی ماضی میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار کو غدار کہہ چکے ہیں اور اب اپوزیشن نے استعفے دے کر ان کی حکومت گرانے بات کی ہے تووزیراعظم یوسف رضاگیلانی کہتے ہیں کہ استعفوں کی باتیں نہیں ہونی چاہیے حکومت بھی اپوزیشن سے زیادہ محب وطن ہیں ۔قارئین اب اس بات کا فیصلہ اپ خود ہی کریں جووطن کے غدار ہیں حکمران بھی انھیں کے طرح محب وطن ہیں ۔اور اس پہ سونے پر سوہاگہ وزیراعظم کہتے ہیں اپوزیشن عوامی مسائل لائے ۔ان مسائل کا حل نکال کر ایوان سے اٹھیں گے ۔ذرہ سوچیے جو اپوزیشن غدار ہو وہ کس طرح ہموطنوں کے مسائل حل کرنے کا سوچیں گے ۔قربان جائوں اپنے وزیراعظم کی سادگی پر ملک میں بجلی نہیں ،گیس نہیں ،امن نہیں،روزگارنہیں،ملک میں مہنگائی اس قدر زیادہ ہوچکی ہے کے لوگ خودخوشیاںکررہے۔غریب کی بیٹی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھر بیٹھی بوڑی جاتی ہیں۔روزڈرون حملوں میں معصوم شہری مارے جاتے ہیں جناب کو چوتھا سال پورا ہونے کو ہے پاکستان کے وزیراعظم بنے اورآج تک ان کو عوامی مسائل کا کوئی پتہ ہی نہیں ہے ۔وزیراعظم فرماتے ہیں کہ جمہوریت کو بچانے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں جانے انھوں نے کس جمہوریت کی بات کی ہے اگر ان کی جمہوریت صرف سیاست دانوں کی گرفت میں حکومت رکھنے والی ہے پھرتو شائد وہ صرف سچ ہی کہہ رہے ہیں ۔ یہاں اگروہ سچ بولتے تو یقین وہ یہ کہتے کہ ہم اپنی کرسی کوبچانے کے لیے کسی بھی حد سے گزر سکتے ہیںکہیں ایسا تو نہیں کے وزیراعظم نے کرسی کا نام ہی جمہوریت رکھ لیا ہے اوروہ سچ ہی بول رہے ہیں ۔ایک طرف توان کا کہنا ہے کہ اب وہ ٹھیک ہونے کو بھی تیار ہیںاور دوسری طرف جن لوگوں کو وہ ماضی میں غدار کہہ چکے ہیں آج انھیں لوگوں کو یقین دلا رہے ہیں کہ وہ خود بھی ان کے جتنے ہی محب وطن ہیں ۔اور اگر پھر بھی جناب وزیراعظم کو واقعہ ہی عوامی مسائل کے حل کوئی دلچسپی ہے تو اپوزیشن سے عوامی مسائل کی نشان دہی کرانے کی کوئی ضرورت نہیں اور ہی ان کو پاکستان کے گلی کوچوں میں جانا پڑے گاحکومت نے چھوٹے ملازمین کی کم از کم سات ہزار روپے ماہانہ مقرر کررکھی ہے۔اسی سات ہزار میں پاکستا ن کی نصف سے زیادہ آبادی کاجینااور مرنا چلتا ہے۔جناب وزیراعظم آپ سات کی بجائے دس ہزارا لے کر بازار جائیں اور تیس دن کی بجائے صرف دس دن کا سادہ بلکل سادہ ساراشن خریددیکھ لیں آپ کو خود اندازہ ہو جاے گاعوامی مسائل کا۔یاد رہے ابھی صرف آٹے دال کی بات کی کہیں جناب کو بجلی اور گیس کا بل بھی اسے دس ہزار روپے میں سے دینا پڑے تو آنکھیں کھل جائیں ہاں مگر بازار عام آدمی بن کر جائیے گا کیونکہ اگر وزیراعظم پاکستان بن کر آپ بازارچلے گئے تودس دن کیا؟ آپ کودس سال کاراشن مل جائے گا اور ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوگااس طرح عوامی مسائل جناب کی سمجھ میں نہیں آئیں گے ۔یہ مشورہ میں جناب کواس لیے دے رہا ہوںکیونکہ مجھے یقین ہے کہ جناب نے کبھی آٹا دال خریدنے کے لیے بازار جانے کی زحمت نہیں اٹھائی ہو گی۔عوامی مسائل سمجھ لینے کے بعد اگران کا حل سمجھ میں نہ آئے تو اس کیلئے بھی ایک مفید مشورہ ہے میرے پاس ایسا کریں کچھ دن ان مزدورں کے ساتھ جا کر مزدوری کریں جو ٹولیوں میں سارا دن کام کرنے کے بعدشام کوسارے دن کی کمائی کو آپس میں تقسیم کرتے ہیں ۔ جس طرح وہ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں وہ بے مثال ہے اگر ان میں کوئی بوڑھایاکمزور ہو تو اسے سب سے کم اور آسان کام دیا جاتا ہے اور پیسے سب کو برابر ملتے ہیں اورجتنی ایمانداری سے وہ مزدورایک دوسرے کا حصہ دیتے ہیں ۔ اتنی ایمانداری اگر حکومتی ٹولے میں پیدا ہوجائے توملک کے عوام کا کوئی بھی ایسامسئلہ نہیں جس کاحل نہ ہو پائے۔آخر میں ایک خاص بات اگرہم خوددار اورخودمختار قوم ہیں ۔اگر دہشتگرد کی پشت پناہی نہیں کرتے اور نہ ہی پاک سرزمین کودہشتگردی کے لیے استعمال کرنے کی کسی کو اجازت دیتے ہیں۔اگر پاکستانی حکومت کسی قسم کی ڈکٹیشن لیے بغیر اپنے ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات رکھنا چاہتی ہے۔جیسے کہ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی قرارداد وفاقی کابینہ پاس کرچکی ہے ۔مسائل تو اور بھی بہت ہیں پھر بھی اگر حکومت واقعہ ہی محب وطن ہے ۔عوامی مسائل حل کرنا چاہتی ہے اور جمہوریت کو بچانا چاہتی ہے تو پھر بھیک مانگنا چھوڑکیوں نہیں دیتی ۔تحریر: امتیاز علی شاکر