وجھ شھرت :: معروف سیاستدان اور سابق نگراں وزیراعظم
غلام مصطفی جتوئی نے 1952 میں اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور اسی سال ہی ضلع نوابشاہ کے ڈسٹرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے۔ انہیں یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ ڈسٹرکٹ بورڈ کے سب سے کم عمر چیئرمین تھے۔
غلام مصطفی جتوئغلام مصطفی جتوئی پاکستان کے سیاستدان اور سابق نگراں وزیراعظم ، نیشنل پیپلزپارٹی کے سربراہ اور معروف سیاستدان غلام مصطفی جتوئی 14 اگست 1931 کو سندھ کے ضلع نواب شاہ کے علاقے نیو جتوئی میں پیدا ہوئے اور طویل علالت کے بعد 78 سال کی عمر میں 20 نومبر 2009 کو لندن میں انتقال کر گئے۔
ابتدائی زندگی غلام مصطفی جتوئی نے اپنی ابتدائی تعلم گرامر سکول کراچی سے حاصل کی۔ غلام مصطفی جتوئی سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ان کے دادا خان بہادر امام بخش خان جتوئی 1923،1927،1931 کے دوران ممبئی قانون ساز اسمبلی کے ممبر رہے جبکہ اس وقت اندرون سندھ صرف چار نمائندے تھے۔ مصطفی جتوئی کے تین بھائی تھے وہ تمام بھائیوں میں سے بڑے تھے۔
سیاسی زندگی غلام مصطفی جتوئی نے 1952 میں اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور اسی سال ہی ضلع نوابشاہ کے ڈسٹرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے۔ انہیں یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ ڈسٹرکٹ بورڈ کے سب سے کم عمر چیئرمین تھے۔ 1958 میں پہلی مرتبہ مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔1965میں انہوں نے یہ الیکشن دوبارہ جیتا۔
1969میں پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور 1970میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ اس دوران وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں ان کو سیاسی امور ، پورٹ اینڈ شپنگ ، کمیونی کیشن، قدرتی وسائل ، ریلوے اور ٹیلی کمیونی کیشن کے عہدے دیئے گئے۔
غلام مصطفی جتوئی 1973میں وزیراعلی سندھ بنے اور یہ عہدہ ان کے پاس 1977تک رہا۔ جبکہ انہیں یہ بھی امتیاز حاصل ہے کہ وہ مارشل لاء سے پہلے سندھ میں سب سے زیادہ عرصے تک وزیراعلی رہنے والے شخص تھے ۔
مصطفی جتوئی نے بحالی جمہوریت تحریک (ایم آر ڈی) میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں 1983 اور 1985 میں گرفتار بھی کیا گیا۔ بعد ازاں انہوں نے نیشنل پیپلزپارٹی کے نام سے ایک جماعت قائم کی ۔کئی بڑے لیڈروں نے اس جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ مصطفی جتوئی اس پارٹی کے چیئرمین تھے۔
مصطفی جتوئی1988میں اسلامی جمہوری اتحاد کے بانی بنے اور 1989میں وہ کوٹ ادو سے ضمنی الیکشن میں رکن اسمبلی منتخب ہو ئے اور قومی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کے منتخب لیڈر بنے۔ مصطفی جتوئی بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت برطرف کئے جانے کے بعد ملک کے نگران وزیراعظم بنے جبکہ بعد ازاں مصطفی جتوئی نے نواز شریف حکومت کیخلاف تحریک میں اپوزیشن کا ساتھ دیا جس کی قیادت بینظیر بھٹو کر رہی تھی بعد ازاں 1993کے الیکشن میں مصطفی جتوئی نے پیپلزپارٹی سے ملکر الیکشن لڑا جبکہ وہ نیشنل الائنس میں بھی رہے اور اس دوران نیشنل الائنس نے 16 نشستیں قومی اسمبلی میں حاصل کیں۔
مصطفی جتوئی کے بیٹے بھی سیاست میں ہیں ان کے بیٹے غلام مرتضی خان جتوئی نے 12فروری 2008 کے انتخابات میں نوشہرو فیروز کے حلقہ این اے 211سے نیشنل پیپلزپارٹی کے جھنڈے تلے کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے پیپلزپارٹی کے امیدوار کو شکست دی جبکہ ان کے دوسرے بیٹے عارف مصطفی جتوئی نے پی ایس 19 سے اور تیسرے بیٹے مسرور جتوئی نے پی ایس 23 سے کامیابی حاصل کی۔ عارف مصطفی سابق وزیر خوراک و زراعت بھی رہے جبکہ آصف مصطفی جتوئی سینیٹر بنے اور جتوئی خاندان کیلئے یہ ایک ریکارڈ ہے کہ ایک وقت میں چار بیٹوں نے کسی بھی قانون ساز فورم میں کامیابی حاصل کی اور وہ قومی و صوبائی اسمبلی و سینٹ کے ممبر ہے۔