فجر کے وقت مسجد میں اعلان ہوا کہ مسجد میں بجلی بند ہونے کی وجہ سے پانی ختم ہوچکاہے لہٰذا نمازی گھر سے وضوکرکے آئیں،جب گھر میں پانی کی ٹوٹی کو ہاتھ لگایا تو اس نے بھی اپنی زبان میں یہی اعلان کیا،ایسا لگا جیسے ٹوٹی بھی سوالیہ انداز میں مذاق کر رہی ہوکہ جب مسلمانوں کی مسجد میں پانی نہیں ہے تو گھر میں کوئی خاص بجلی آتی ہے ،جومیںآپ کو پانی فراہم کروں؟ خیر وضو کے لیے کسی نہ کسی طرح پانی کا انتظام ہوگیا اور نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کا موقع بھی مل گیا۔ نماز کے بعد امام صاحب نے ملک و قوم کے ساتھ ساتھ بجلی کی صحت یابی کی دعا بھی کی ۔میں نے بھی آمین کہا اوراللہ تعالیٰ کاشکراداکیا جس نے بجلی نہ ہونے کے باوجود میرے لیے پانی کا انتظام کیا۔
نماز سے فارغ ہوکر گھر لوٹا تو پتا چلا کہ گیس نہیں آرہی اوربچوں نے اسکول بھی جانا ہے ،بچے کہہ رہے تھے اگر ہمیں ناشتہ نہ ملاتو ہم اسکول نہیں جائیں گے ،آس پاس کے گھروں سے پتا کیا کہ اگر کسی گھرمیں آگ جلانے کا کوئی انتظام ہے تو بچوں کے لیے ناشتہ تیار کرکے انھیں اسکول جانے کے لیے تیار کیا جائے لیکن دور دور تک ایسا کوئی انتظام نہ تھاہر کوئی اسی مشکل سے گزررہا تھا کسی نے بچوں کا ناشتہ تیار کرنا تھا،کسی کو کام سے دیر ہورہی تھی اور بجلی بند ہونے کی وجہ سے کوئی غسل کے لیے پانی تلاش کررہا تھا۔میں نے موٹرسائیکل نکالی اور بازار سے بچوں کے لیے ناشتہ لے آیا تاکہ بچے وقت پر اسکول جاسکیں لیکن ایسابھی نہ ہوسکا کیونکہ بچوں کی اسکول وین لیٹ تھی میں نے وین والے بھائی کو فون کیا تو پتا چلا کہ وہ سی این جی نہ ہونے کی وجہ سے لیٹ ہیں اگر ان کو سی این جی مل گئی تو وین آجائے گی ورنہ سوری، میں نے ایک بار پھر موٹر سائیکل نکالی اور بچوں کو اسکول چھوڑ آیا،پریشانی کے عالم میں یہ بات بھول ہی گیا کہ مجھے بھی کام پر جانا ہے۔
میں نے جلدی سے کپڑے تبدیل کیے اور بغیر کچھ کھائے پیئے کام کے لیے نکل پڑا ،بس سٹاپ پر پہنچا تو وہاں بہت رش تھا معلوم ہوا کہ سی این جی نہیں مل رہی اس لیے کافی دیر سے بس نہیں آئی ،کوئی ایک گھنٹے بعد بس آئی میں بھی دوسروں کی طرح دھکے دیتا لیتا کسی نہ کسی طرح بس میں سوار ہونے میں کامیاب ہوگیا ،میرے ساتھ ہی ایک بزرگ بھی بس میں سوار ہوئے ،ان کو پریشان دیکھ کر میں نے ان سے پریشانی کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ ان کی جیب کٹ گئی ہے ،میں نے ان سے پوچھا زیادہ نقصان تو نہیں ہوا وہ کہنے لگے زیادہ یا کم کی بات نہیں ہے میرا بیٹا بیمار ہے ۔بزرگ کی یہ بات سن کر مجھے لگا یہ مانگنے کا طریقہ ہے لیکن بزرگ کی پوری بات سننے کے بعدمیری سوچ غلط نکلی،بزرگ نے بتایا کہ بچہ بیماری کی وجہ سے کچھ کھا ،پی نہیں رہا اور اس نے ڈوسے بیکری کا بن کھانے کی حامی بھری تھی ،وہی بن میری جیب میں تھا جو کٹ گئی اب پریشانی اس بات کی ہے کہ گھنٹہ بھر بس سٹاپ پر کھڑے رہنے کے بعد بس ملی ہے اور ہمارے گاؤں میں ڈوسے بیکری بھی نہیں ہے اس لیے مجھے بن لینے کے لیے بس سے اترنا پڑے گا۔
Namaz e Fajar
میں اندر ہی اندر بزرگ کو غلط سمجھنے پر بہت شرمندہ تھا ،خیر میں نے اپنی شرمندگی چھپاتے ہوئے ان سے کہا کہ اگر آپ کے پاس پیسے کم ہیں تو میں آپ کی کچھ مدد کرسکتا ہوں ۔وہ بولے نہیں بیٹا میرے پاس پیسے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے۔اتنے میں میرے باس کا فون آگیا انھوں نے میری خیریت دریافت کرنے کے بعد میرے لیٹ ہونے کی وجہ پوچھی تو میں نے ان سے کہا جناب لمبی داستان ہے ۔ پہنچ کر سناتا ہوں راستے میں ہوں ۔ دفتر پہنچ کراللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور سوچا پہلے اپنا کام دیکھ لوں داستان سفر بعد میں سنا لوں گا،یہ سوچ کر میں نے اپنا کمپیوٹر آن کیا ابھی کمپیوٹر پوری طرح سٹارٹ نہ ہوا تھا کہ بجلی بند ہوگئی،ایک ٹھنڈی آہ بھرنے کے بعد مجھے یاد آیا ابھی تک ناشتہ نہیں کیا لہٰذاآفس بوائے کو چائے کے ساتھ اخبار لانے کو کہہ دیا۔
تھوڑی دیر میں چائے اور اخبار میرے سامنے تھے ،کیونکہ چائے ابھی گرم تھی اس لیے پہلے اخبار پڑھنے کا موقع مل گیا،سب سے پہلے جس خبر پر نظر پڑی اس میں لکھا تھا ”صدر آصف علی زرداری نے اورسیز انویسٹرز اور چیمبر آف کامرس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں توانائی کا بحران اتنا سنگین نہیں جتنا بتایا جا رہا ہے ۔بعض لوگ اس مسئلے سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ۔یہ خبر پڑھ کر لگا جیسے میں ابھی نیند سے بیدار ہواہوںاور بیان کردہ معاملہ خواب کہانی ہے ،لیکن جب میں نے اپنے سر کو زور سے جھٹکتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھا تو پتاچلا کہ میںبیڈ روم کی بجائے دفتر میںہی موجودتھا ، زندگی تیزی سے رواں دواں تھی اور شام ہونے کو تھی،اب مجھے یہ فکر لاحق ہونے لگی کہ صبح پھر گیس بند ہوئی تو بچوں کا ناشتہ کیسے بنے گا؟اسی فکر نے مجھے کوئی کام نہ کرنے دیا اور میں دفتر سے چھٹی لے کرصبح گھرمیں آگ جلانے کے لیے لکڑیوں کی تلاش میں نکل پڑا کافی تلاش کے بعد ناکام ہوکر گھر پہنچا توذہنی و جسمانی تھکاوٹ کی وجہ سے حالت غیر تھی۔
بجلی کی موجودگی کو غنیمت جانا اورجلدی سے پانی کی موٹر چلا کر صبح کے لیے پانی جمع کیا،گھروالی سے کہا کہ کھانے سے پہلے میرے اور بچوں کے کپڑے استری کردیں تاکہ صبح بجلی بندہونے کی صورت میں مشکل نہ ہو ،کپڑے استری کرنے کے بعد گھروالی کھانا لے آئی ابھی کھانا شروع ہی کیا تھا کہ بجلی چلی گئی،موبائل فون کی ٹارچ لائٹ آن کر کے کھانا کھایا اور سونے کی کوشش کرنے لگا لیکن دیرتک اس سوچ نے سونے نہ دیا کہ صدر صاحب تو کہہ رہے تھے کہ ملک میں توانائی کا بحران اتنا شدید نہیں ہے جتنا بتا یا جا رہا ہے ۔مجھے لگا جیسے میرا علاقہ ملک سے باہر ہے یاپھرپاکستان کے صدرپاکستان کی بجائے شائد کسی دوسرے ملک کی بات کررہے ہوں یہی سوچ کر اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوشش کی مگر دل دماغ نے تسلیم کرنے سے انکار کردیااسی کشمکش میں دو گھنٹے گزرگئے اور بجلی صاحبہ بھی ایک بارپھر تشریف لے آئیں،جس کافائدہ اُٹھاتے ہوئے قلم اٹھا کر کاغذ سے باتیں کرنے لگا اور رات بیت گئی۔