میرے وطن کے حکمران اس کہانی کے فاتح بادشاہ کی سی حکمرانی کرتے ہیں جو مجھے بچپن میں میرے بڑے بھائی اشفاق علی شاکر سنایا کرتے تھے ۔میں جب بھی کہانی سنانے کی ضد کرتا تو بھائی مجھے وہی ایک کہانی سنایا کرتے جس کاخلاصا کچھ یوں ہے ۔کسی ملک میں بادشاہ چننے کاطریقہ یہ تھا کہ سال کے پہلے دن صبح سب سے پہلے جوبھی اجنبی ملک میں داخل ہو تا اسے ملک کا بادشاہ بنادیا جاتا اور پہلے بادشاہ کو ویرانے میںلے جا کر بے یارومددگار مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ایک مرتبہ سال کے پہلے دن سب سے پہلے اس ملک میں ایک اجنبی فقیر آگیا اور وہاں کی عوام نے اپنے دستور کے مطابق اس فقیر کو ملک کا بادشاہ بنا دیا ۔وہ فقیر بہت سمجھدارتھا بہت حیران ہوا کہ یہ کیسی قوم ہے جس نے ایک اجنبی فقیرکو اپنا بادشاہ بنا دیا۔اس فقیر نے خود کو خطرے میں محسوس کیا اور کچھ سوچ کر اپنے وزیر کو تنہائی میں اپنے پاس بلا کر کہا تم لوگوں کا وہ بادشاہ کہاں ہے جومجھ سے پہلے تھاوزیر کے نہ بتانے پر فقیر بادشاہ نے اسے کہا کے اگر اس نے نہ بتایا توبادشاہ اس کو سزائے موت کا حکم سنادے گاجس پر یہ راز فقیر بادشاہ کو بتا دیا کہ وہ لو گ اپنے ملک کے تمام سابق بادشاہوں کو ایک ویرانے میں پھینک آئے ہیں اور جب نیا بادشاہ آے گا تو اس فقیر بادشاہ کو بھی اسی ویرانے میں بے یارومددگار چھوڑ دیا جاے گا۔فقیر کونکہ بہت سمجھدار تھا اس نے ایک سال میں اس ویرانے میں بہت سی نہریں کھدوا کر وہاں بہت سے باغات لگوا دئیے بہت سے میٹھے پانی کے کنویں نکلوا دئیے اور بہت سی عالی شان عمارتیں بنوا کر اس ویرانے کو ایک عالی شان شہر میں بدل دیا اس طرح اس فقیر نے نہ صرف اپنی جان بچا لی بلکہ ساری زندگی سکون سے بسر کرنے کا بھی انتظام کرلیا ۔شائد پاکستان کے عوام بھی اس کہانی کے عوام جتنے ہی ظالم ہیں جن کے حکمران بھی پچھلے64برس سے اس کہانی کے فقیر کے جیسے ہی ملے ہیں جو باہر سے آتے ہیں اور دوران حکمرانی ملکی وسائل کا بے دریغ استعمال کر کے اپنے محلات باہر ہی بناتے ہیں پاکستان پر صرف حکمرانی کرتے ہیں اور قوم کی دولت لوٹ کر دوسر ے ملکوں کے بنکوں میںکرتے رہتے ہیں وہ بھی غیر ملکی کرنسی میں ۔ پاکستان سیاسی اور حکومتی حلقوں میں روح پزیر ہونے والے تازہ ترین حالات واقعات کو مدنظر رکھتے ہوے جیسے کے آج کل پاکستان میں جلسے جلوسوں کے سلسلے کو لے کرعوامی حلقوں میں یہ بحث زور پکڑتی جا رہی ہے اب سیاسی منظر بدل جاے گا اورپھر ایسے وقت میں پاکستانی سفیرکے خفیہ خط کامنظر عام پر آنے سے اس بحث میں اور بھی شدت بھر دی ہے۔گلیوں میں۔بازاروں میں ۔گاڑیوں میں ۔ٹی سٹالوں پرالغرض کے جہاں دو چار لوگ اکھٹے ہوتے ہیں وہاںسیاست پرتبصرے ضرور ہوتے ہیں ۔ ہر کوئی اپنی سیاسی وابستگی اور دانش کے مطابق اپنی رائے دے رہا جس میں زیادہ ترلوگوں کی رائے یہی ہے کہ شاید اب آصف زرداری بھی مشرف کی طرح ہی ملک سے چلے جائیں اور پھر ملک واپس نہ آئیں۔ اور ماضی کی طرح یہ جمہوری حکومت بھی اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے اور عبوری حکومت بن جائی جو جلدازجلد الیکشن کروا کر نئی حکومت بننے کے تک کام کرے گی ۔ کچھ ماضی ہی کی طرح آج پھر پاکستانی عوام حکومت کو مشکلات میں دیکھ یہ اندازہ لگا رہی ہے کہ اب اس حکومت سے جان چھوٹ جائے گی اور نئی حکومت ایک تبدیلی لائے گی ۔ یہ سوچ ہے اس طبقے کی جونہ ایجنسیوں کے ماملات جانتا ہے اور نہ ہی حکومتی ماملات سے کچھ واقفیت رکھتا ہے لیکن کوئی یہ نہ سمجھے کے پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہونے کے بعد کوئی آسمانی فرشتے حکمران آنے والے ہیں اس بار بھی ہمیشہ کی طرح عوام سے دھوکا ہی ہوگا۔جہاں تک بات ہے عمران خان کی وہ ایک پر وقار شخصیت کے مالک ہیں ۔لیکن جو لوگ ان کے ارد گرد جمع ہوچکے ہیں ان زیادہ تر پرانے چور ہیں۔ تبدیلی کاوہ خواب جو عوام نے 30_10_2011کومینار پاکستان میں ہونے عمران خان کے کامیاب جلسے کے بعد دیکھا تھا عوامی حلقوں میں وہ خواب بھی دھندلا سا گیا ہے۔ عمران خان جن سے عوام بہت سی امیدیں وابستہ کر بیٹھے تھے وہ بھی دوسرے سیاست دانوں کی طرح مصحلت کا شکار نظرآتے ہیں انھیں بھی دوسرے سیاست دانوں کی طرح الیکشن جیت کر حکومت بنانے کی جلدی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی پارٹی میںان لوگوں کوبھرتی کررہے جن کوعوام پہلے کئی مرتبہ آزماء چکے ہیں ۔کیا ہی اچھا ہو اگر عمران خان کسی قسم کے ملکی یا غیرملکی دبائوکو قبول نہ کریں اور اپنے ذہن میں یہ بات نہ آنے دیں کہ پاکستان میں تبدیلی صرف وڈیروں۔جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی مدد سے ہی آسکتی ہے کیونکہ اگر ایسا ممکن ہوتا توآج عمران خان کو تبدیلی کی بات نہ کرنی پڑتی اور نہ ہی ملک میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہوتی ۔مگر آج عوام ملک میں بڑھی تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے سب کی نظریں عمران خان پرلگی ہوئی ہیں ۔عمران خان اگر وقتی مصحلت نہ کریں اور تحریک انصاف کو بالکل نئی پر عزم ۔پرجوش ۔ باضمیر۔محب وطن ۔ پڑھی لکھی ۔ صاف کردار کی مالک اور سب سے اہم بات کے قرآن مجید کو سمجھنے والی اور جو اسلام کی روح سے جہاد اور دہشتگردی کا فرق جانتی ہو ۔ جس کے ذہن فرقہ واریت سے پاک ہوںاور جو انسانیت کے تقاضوں سے بھی اچھی طرح واقف ہوایسی نوجوان نسل کی قیادت دیں تاکہ پاکستان کے عوام کو ایک خوش حالی والی تبدیلی مل سکے اور آگے چل کر پاکستان ہرقدم ترقی کی منازل طے کرے اورپاکستانی عوام دنیا و آخرت کے تمام معاملات میں سرخرو ہو پائیں ۔خیر ایسا تو شائد راقم کی زندگی میں نہ ہو ۔کیونکہ وہی عمران خان جس کو عوام اپنے مسیحا کے روپ میں دیکھ رہے ہیں اسے اپنی حکومت بنانے کی بہت جلدی ہے ۔شائدعمران خان کو بھی ماضی کے حکمرنوں کی طرح گرین سیگنل دے دیا گیا ہے جس کی وجہ سے عمران خان اعتمادسے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ مارچ میں الیکشن ہو سکتے ہیں۔ لیکن انھوں یہ نہیں بتایا کے مارچ 2011یا2012یاپھرمارچ؟میں نئے الیکشن ہو سکتے ہیں ۔چلئے اگر عمران خان کی خواہش کے مطابق الیکشن اگلے مارچ میں ہی ہوجائیں یامارچ سے پہلے ہی ہو جائیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ الیکشن جب بھی ہوں عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی صرف اور اقتدار کی تبدیلی ہوگی اور کچھ نہیں آج جولوگ حکومت سے باہر ہیں کل کے حکمران ہونگے اور ہمیشہ کی طرح نئے حکمران پرانے حکمرانوں کو تمام مسائل کا ذمہ دار کہہ کر عوام کو ٹالیں گے اور سارادھیان فوج اور آئی ایس آئی کے سارے اختیار ات کے علاوہ بھی پاکستان کے ہر ادارے کے اختیارات کو اپنی مٹھی میں لے کر پاکستان اپنی حکمرانی سدا قائم کرنے پر ہی ہوگا۔اور آج کے حکمران حکومت سے باہر بیٹھ کر آج کی اپوزیشن اور باقی لوگوں کی طرح درل کھول کر حکومت پر تنقید کریں گے اور عوامی مسائل جوں کے توں پڑے رہیں گے ۔اور پاکستان بھی کی طرح ایک غریب آدمی کے گھر کی طرح چلتا رہے گا۔جس طرح ایک غریب آدمی گھراللہ تعالیٰ کے بھروسے پر ہی چلتا ہے اسی طرح پاکستان بھی پچھلے 64سال چلتا آیا ہے۔پاکستانی حکمرانوں نے ہر دور میں عوام سے بڑے بڑے وعدے اور دعوے کیے ہیں انھیں میں سے ایک وعدہ ا یسا بھی ہے جو ہر حکمران نے کیاہے ۔کسی حکمرانوں نے کسی وعدے کویاد رکھا ہویا کسی وعدے کو بھلا دیاہو کسی دعوے پر قائم رہا یا دستبردار ہوگیا ہو لیکن خوش قسمتی سے غربت کے خاتمے کا وعدہ کوئی نہیں بھولا ۔ اس ایک وعدے کو پورا کرنے کوشش بھی ہر حکمران نے جی جان سی کی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے وطن عزیز میں غربت نے ہر حکمران کے دور میں ترقی کی ہے۔آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ میں نے غربت کی ترقی میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی بات کیوں کی تو جناب وطن عزیزمیں جو آج تک حکمران آئے ہیں ان سب کے پاس غربت کے خاتمے کے لیے ایک ہی فارملا رہا ہے وہ یہ ہے کہ تمام غریب مار دو تو غربت اپنے آپ ختم ہو جائے گیاور اگر غریب پھر بھی زندہ ہے تو پھر میں کیوں نہ کہوں یہ غریب پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل وکرم ہے اور حکمرانوں کی خواہش کے برعکس غربت نے ترقی کی ہے یعنی غریبوں کی تعدادکم ہونے کی بجائے بڑھی ہے اور پھر بھی غریب آدمی زندہ ہے تو کیا یہ غریب آدمی پر اللہ تعالیٰ کا فضل نہیں ہے؟ ہوسکے تو عوام آئندہ ووٹ صرف اس پارٹی کو دیں جس کی لیڈر شپ کی تمام جائیداد پاکستان میں اور تمام رقوم بھی پاکستانی بنکوں میں ا ور جس پارٹی کی لیڈر شپ قرآنی تعلیمات سے بہراور باعمل ہو۔ راقم پاکستانی قوم کو اس مشورے کے بعددعا گوہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو سچے مسلمان حکمرانوں سے نوازے اور وطن عزیز کوتمام بیرونی اور اندرونی دشمنوں سے محفوظ رکھے اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے اورساری کائنات کی سب مخلوقات پر اپنی رحمت فرمائے ۔آمین تحریر : امتیاز علی شاکر