بہت سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ فلسطینیوں کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔کارن روس اقوام متحدہ میں برطانوی سفارتکار رہ چکیہیں اور مشرق وسطی کے امور کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیںفلسطینیوں کی دلیل یہ ہوگی کہ فی الوقت کوئی با معنی امن کا عمل موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اسرائیل سے بار بار کہا ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھے اور 1967 کی سرحدوں کی بنیاد پر دو ریاستوں کے حل اور یروشلم کے کسی معقول حل کے بارے میں بات کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل نے اس بنیاد پر بات چیت کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ وہ انتہائی محدود پیمانے پر بات کرنا چاہتا ہے ۔ اس وجہ سے فلسطینی مایوس ہو گئے ہیں۔روس کہتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کا نقطہ نظر اس سے مختلف ہے۔اسرائیل اور امریکہ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی اقوام متحدہ کی رکنیت کی کوشش سے در اصل امن کے عمل کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس سے فریقین کے درمیان اعتماد کم ہو رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سمجھوتہ دو طرفہ طور پر اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ہو۔اقوام متحدہ میں امریکہ کے سابق سفیر جان بولٹن اس رائے سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیںمیں نہیں سمجھتا کہ اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کے اقدام سے مشرقِ وسطی میں استحکام لانے میں، یا اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان اختلافات دور کرنے میں مدد ملے گی ۔ میرے خیال میں ایک متفقہ اور پائیدار امن کے لیے حالات پیدا کرنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ فریقین خود مذاکرات کریں۔ سب جانتے ہیں کہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کتنے مشکل ہیں، لیکن اس قسم کے اقدام سے ان میں کوئی آسانی پیدا نہیں ہوگی۔تجزیہ کار کہتے ہیں کہ دونوں فریقوں کے لیے نئی فلسطینی ریاست کی جغرافیائی حدود ، یروشلم کی حیثیت ، فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی اور مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر، بنیادی مسائل ہیں۔گذشتہ سال جب اسرائیل نے نئی بستیوں کی تعمیر شروع کر دی تو امن مذاکرات ختم ہو گئے ۔ فلسطینی عہدے داروں نے کہا ہے کہ جب تک بستیوں کی تعمیر نہیں روکی جاتی، وہ مذاکرات دوبارہ شروع نہیں کریں گے ۔ اسرائیل نے بستیوں کی تعمیر روکنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ پیشگی شرائط کے بغیر مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔لندن اسکول آف اکنامکس میں مشرقِ وسطی کے امور کے ماہر فواذ جرجیس کہتے ہیںبستیوں کی تعمیر جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی خوفزدہ ہیں۔ جب مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا وقت آئے گا، اس وقت فلسطینیوں کی قابلِ عمل ریاست کے لیئے کوئی زمین نہیں بچے گی۔اقوامِ متحدہ کی پوری رکنیت کے لیے فلسطینیوں کی درخواست سلامتی کونسل کے طریقہ کار سے گذر رہی ہے۔ اس عمل میں مہینوں نہیں تو ہفتے تو ضرور لگ سکتے ہیں۔ اس دوران چار کا گروپ جسے Quartet کہتے ہیں اور جو اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، امریکہ اور روس پر مشتمل ہے، مذاکرات کا ایک ایسا خاکہ تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے قابلِ قبول ہو۔اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں فلسطینی حکومت کے سابق مشیر خالد الغندے کہتے ہیں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے، کوئی نیا طریقہ استعمال کیا جانا چاہئیے۔ مغربی کنارے پر مسٹر عباس کی فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہے جب کہ غزہ کی پٹی شدت پسند حماس گروپ کے کنٹرول میں ہے، جسے امریکی محکمہ خارجہ دہشت گرد گروپ سمجھتا ہے۔اب تک، اوباما انتظامیہ اور Quartet کا طریقہ یہ رہا ہے کہ امن کے عمل کا غزہ یا مغربی کنارے کے مختلف حالات سے، یا حماس اور فتح کے درمیان تقسیم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ آپ ان تمام چیزوں کو مختلف خانوں میں بانٹ سکتے ہیں، اور مذاکرات کو ان چیزوں سے بالکل الگ کر سکتے ہیں۔ عملی طورپر ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔الغندے کہتے ہیں کہ ان تمام مسائل کو ایک دوسرے سے مربوط کرنا چاہئیے اور ان کے درمیان تعلق قائم کرنا چاہئیے تا کہ امن کا عمل جامع اور قابلِ عمل ہو اور اس میں تمام علاقائی اور دو طرفہ مسائل کا احاطہ کیا جائے۔