قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر جوڈیشل افسران کی عام انتخابات کے دوران بطور ریٹرننگ آفیسر تعیناتی کی منظوری دیدی ہے۔ الیکشن کمیشن نے گزشتہ ماہ چیف جسٹس افتخار چودھری سے ایک درخواست کے ذریعے جوڈیشل افسران کو عام انتخابات کے دوران بطور ریٹرننگ آفیسر تعینات کرنے کی درخواست کی تھی۔ ابتدائی طور پر چیف جسٹس کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں اس تجویز کا خیرمقدم کیا گیا لیکن ساتھ ہی عام انتخابات عدلیہ کی نگرانی میں کروانے کا فیصلہ بھی مؤخر کر دیا گیا تھا اور اس کی وجوہات یہ بیان کی گئیں کہ پالیسی ساز کمیٹی نے زیر التواء مقدمات کو جلد نمٹانے اور عوام کو انصاف کی فراہمی ممکن بنانے کیلئے یہ پابندی لگائی تھی کہ جوڈیشل افسران عدالتی امور کے علاوہ کوئی اور فرائض سرانجام نہیں دینگے۔
مگر چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے جوڈیشل پالیسی کا دوبارہ جائزہ لینے کی درخواست کے بعد اگلے اجلاس میں یہ درخواست منظور کرلی گئی ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بطور ریٹرننگ آفیسر عام انتخابات کے دوران فرائض سرانجام دے گا، جبکہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز اور اڈیشنل ججز کو ڈی سی اوز کے اختیارات حاصل ہوں گے۔پاکستان میں پہلی مرتبہ آزاد الیکشن کمیشن کے تحت انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور پوری قوم کی یہ آواز ہے کہ غیر جانبدارانہ انتخابات کیلئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن کی نگرانی میں عدلیہ اور فوج کی مدد سے انتخابات کروائے جائیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے آئندہ انتخابات میں ضرورت پڑنے پر عدلیہ اور فوج سے مدد لینے کے فیصلے سے اُن سیاسی پارٹیوں کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ہے جن پر نہ صرف ماضی میں دھاندلی کے الزامات لگتے رہے ہیں بلکہ آئندہ بھی کچھ ایسا ہی ارادہ رکھتی تھیں۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ ماضی میں ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگاتی رہی ہیں اور اس فیصلے سے یقینا یہ دونوں جماعتیں شدید متاثر ہوں گی۔ اگرچہ بہت سی سیاسی جماعتیں سیاسی نظام میں تبدیلی نہیں چاہتیں کیونکہ یہی فرسودہ نظام ان کیلئے آئیڈیل ہے لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس نظام میں بہت سی اصلاحات کی ہیں جیسے ساڑھے تین کروڑ جعلی ووٹ ختم کرنا، آئندہ الیکشن نادرا کے شناختی کارڈ پر کرانا، تصاویر والی ووٹر لسٹیں، واٹر مارک والے بیلٹ پیپر وغیرہ۔ اس کے علاوہ سب سے بڑی بات یہ کہ نو کروڑ نیا ووٹر لسٹوں میں درج ہوا ہے جو یقینی طور پر نوجوان ووٹر ہے۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے اب نیا سخت ترین انتخابی ضابطہ اخلاق بھی جاری ہو چکا ہے جبکہ آئندہ انتخابات میں عدلیہ اور فوج سے مدد لینے کے فیصلے نے پوری قوم کے دل جیت لئے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اس فیصلے کی کھل کر مخالفت تو نہیں کی البتہ اس کا یہ مؤقف ضرور ہے کہ آئندہ انتخابات آئین کی بیسویں ترمیم کے مطابق نگران حکومت ہی کرائے گی، جبکہ نون لیگ نے عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے فیصلے کے بعد اس تجویز کی حمایت تو کر دی ہے لیکن فوج کی مدد کے معاملے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ مسلم لیگ (فنکشنل) بھی یہ مطالبہ کر چکی ہے کہ منصفانہ انتخابات کیلئے فوج اور عدلیہ دونوں کی مدد لی جائے، جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو فوج کی نگرانی میں انتخابات کرانے پر تحفظات ہیں البتہ عدلیہ کی نگرانی میں الیکشن کے حامی نظر آتے ہیں۔ آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ پرویز مشرف بھی آئندہ انتخابات فوج کی نگرانی میں کرانے کا مطالبہ کر چکے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ان انتخابات میں عدلیہ بھی اپنا آئینی کردار ادا کرے تاکہ آزمائے ہوئے سیاست دان دوبارہ نہ آ سکیں۔ ایم کیو ایم، اے این پی اور قاف لیگ کا تاحال اس فیصلے پر کھل کر کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔
PTI
اسی طرح تحریک انصاف بھی عدلیہ اور فوج کی نگرانی میں انتخابات کی حامی ہے البتہ خان صاحب اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے الزام کے خوف سے فوج کا نام زبان پر لانے سے کتراتے ہیں وگرنہ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں کسی مثبت اور خوش آئند تبدیلی کیلئے آئندہ الیکشن کا فری اینڈ فیئر ہونا نہایت ضروری ہے اور اگر الیکشن کمیشن کی نگرانی میں عدلیہ اور فوج کی مدد سے انتخابات ہوتے ہیں تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھی تحریک انصاف کو پہنچے گا۔ غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات اکیلے الیکشن کمیشن کے بس کی بات نہیں اور یقینا اس میں عدلیہ اور فوج کی مدد بھی حاصل کی جائے گی کیونکہ پاکستان میں انتخابی دھاندلیوں کی تاریخ کھلی کتاب کی طرح ہے۔ ماضی کے انتخابات گواہ ہیں کہ ہارنے والی جماعتوں اور اُمیدواروں نے جیتنے والوں پر دھاندلی کے الزامات لگائے اور الیکشن کمیشن کے اس اقدام سے یقینا دھاندلی کا راستہ بند ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن کی درخواست منظور ہونے پر کئی جماعتیں کھل کر اپنی رائے کا اظہار نہیں کر رہی ہیں۔ لگتا ہے اس پریشانی میں کوئی خوف بھی چھپا ہے ورنہ جن لوگوں کو منصفانہ انتخابات کی تمنا ہے اور جو انتخابات کے دوران عوام کی تائید و حمایت کی توقع رکھتے ہیں ان کی طرف سے تو عدالت اور فوج ہی کے زیر نگرانی میں انتخابات کا مطالبہ کیا جائے گا۔
فخر الدین جی ابراہیم انتہائی ایماندار شخصیت کے حامل ہیں اور پورا ملک اُن کی عزت کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات سے قبل جو بھی اصلاحات کی ہیں وہ یقینا لائق تحسین ہیں مگر چند ایک اصلاحات ہونا ابھی باقی ہیں مثلاً کسی بھی شخص کے ایک سے زیادہ حلقوں میں انتخاب لڑنے پر پابندی ہو۔ اسی طرح نیب زدگان، قرض نادہندگان اور ٹیکس چوروں کے کاغذات نامزدگی کسی بھی صورت قبول نہ کیے جائیں، جبکہ ایک سیاسی جماعت اگر ہار جائے یعنی حکومت سازی کے قابل نہ رہے تو اس کے سربراہ کو مستعفی ہونا لازمی ہو اور آئندہ دو سال سے پہلے سیاسی جماعت کے سربراہ کا انتخاب لڑنے کا بھی اہل نہ ہو۔ ہمارے بیشتر سیاسی مسائل کا سبب یہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہان تاحیات ”قائد” کے خطابات اور القابات سے پکارے جاتے ہیں۔ اس طرح کے فیصلے سے کسی سیاسی جماعت پر ایک شخص یا خاندان کا سیاسی کنٹرول ختم ہو سکتا ہے۔