فیصلہ عوام کو کرنا ہے۔۔۔۔!

Imran Rajput

Imran Rajput

پاکستان میں موسم جیسے جیسے سرد ہورہا ہے سیاسی ماحول ویسے ویسے گرم ہوتا جا رہا ہے۔ پنجاب اور سندھ تو خاص کر اس کی لپیٹ میں ہیں قارئین آپ دیکھیں گے جیسے جیسے الیکشن کا وقت قریب آتا جائے گا سیاسی ماحول میں گرما گرمی بڑھتی جائے گی اور سیاست کے بازار لگتے جائیں گے۔

پارٹی قیادت کے محلوں میں لگے یہ بازار ایک عجب اور دلکش منظر پیش کر نیگے جہاں چھوٹے بڑے تمام سیاستدان اپنے بھرپور جوبن کے ساتھ اپنے ہاتھوں میں سیاستدان برائے فروخت کا پلے کارڈ اٹھائے پیش پیش نظر آئیں گے جو پارٹی جتنی اچھی بولی لگائے گی انہی کے ہاتھوں اپنے ووٹروں کا سودا کر بیٹھیں گے اور بے چارے سیاسی قائدین اپنے دلوں میں خوابِ اقتدار کی شمع روشن کئے غریب عوام کے ووٹوں کے بدلے سیاسی منڈی میں موجود تمام سیاست دانوں کو حاصلِ اقتدار سے پہلے ہی وزارتوں سفارتوں کے دم بھرتے ہوئے پاکستان کی بھولی بھالی غریب عوام سے الیکشن کے دن ان ضمیر فروشوں کی سلیکشن کروائیں گے بلکہ باز جگہوں پر تو یہ فریضہ بھی خود ہی انجام دے لینگے اورشام ڈھلتے ہی سلیکشن زدہ الیکشن میں اپنی کامیابیوں پر ڈھول بجاتے بھنگڑے ڈالتے اسلحے کے زور پر موت کا رَکس کرتے غریب عوام کو منہ چڑا چڑا کر جمہوریت زندہ باد کا نعرہ لگائیں گے۔

لو بھئی ہوگئے الیکشن آگئی تبدیلی چھاگئی جمہوریت۔ اور اس طرح ایک بار پھر سے جمہوریت اُسی آب وتاب کے ساتھ پھلے پھولے گی جیسے ابھی پھل پھول رہی ہے۔عوام بے چاری سوکھتی جائے گی اور جمہوریت پھولتی جائے گی ویسے بھی عوام نے مشرف دور میں بڑے مزے کئے ہیں مشرف کے ساتھ انھیں بھی تو سزا ملنی چاہیئے۔نقصان تو جمہوریت کا ہوا ہے لہذا عوام جائے کھڈے میں معشیت جائے بھاڑ میں امن وامان کوئی ایشو نہیں اصل ایشو توجمہوریت ہے جسے پروان چڑھانا ضروری ہے کیونکہ روزانہ سات ارب روپے کی کرپشن کے لیے جمہوریت کا ہونا بہت ضروری ہے۔قوم کی رہنمائی کرنے والے ہی جب کرپٹ ہوں تو کرپشن کو کیونکر ختم کیا جاسکتا ہے ملک کی تقدیر بدلنے والے ہی جب ٹیکس چورہوں اورٹیکس کی مد میں ایک روپیہ دینے کے روادار نہ ہوں تو ملک کی معشیت کو کس طرح پروان چڑھایا جاسکتا ہے وڈیروں لیٹروں جاگیرداروں سرمایا داروں سب کا ایک ہی مشن ہو کہ بس ملک کو لوٹنا ہے تو ملک کو ابتر حالت سے کون نکال سکتا ہے۔

پاکستان کی تمام جماعتیں خود کو ملک پر حکمرانی کا اہل سمجھتی ہیں ہر جماعت کے پاس ملک کو مسائل سے نکالنے کا حل بھی موجود ہے لیکن یہ نسخہ کسی کو بتانے کا نہیں ہے یہ تو وہ نسخہ ہے جس پر الیکشن سے پہلے سیاست کی جاسکتی ہے اور اقتدار ملنے کے بعد یہ نسخہ اپوزیشن کو تھمادیا جاتا ہے کیونکہ اب عوام کو بے وقوف بنانے کی باری انکی ہے جن عوام کے سہارے یہ اپنی مراد کو پہنچتے ہیں۔

تمام سیاست دان اب اس بات پرمتفق ہوچکے ہیں کہ آپس میں لڑنے جھگڑنے سے بہتر ہے مل بیٹھ کر موجودہ نظام کو چلایا جائے اور عوام کو خوب بے وقوف بنایا جائے اس سے پہلے کہ یہ نظام لپیٹ دیا جائے اور کسی کے ہاتھ کچھ نہ آئے۔

Election

Election

آنے والے الیکشن کے بعد نئی حکومت چاہے کسی کی بھی بنے جمہوریت من وعن اسی طرح پھلے پھولے گی جس طرح آج پھل پھول رہی ہے اور اگر واقعی یہی کچھ ہوا تو عوام سمجھ لیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔لہذا اب یہ اس ملک کی عوام پر ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں موجودہ نام نہاد جمہوریت کو پھلتے پھولتے دیکھنا یا اپنے آپ کو یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے۔

تحریر : عمران احمد راجپوت