اگرچہ بات زیادہ پرانی نہیں مگر زخم ابھی تازہ ہے پھر بھی درگزر کے مصداق ہم یہ داغ ہنس کر سہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین جناب ذکاء اشرف صاحب نے بنگلہ دیش پرئمر لیگ میں اپنے کھلاڑیوں کو این او سی جاری نہ کرنے کا جو جرأت مندانہ فیصلہ کیا ہے اس پر ڈٹے رہنا ہی ہمارے لئے بہتر ہے کیونکہ بنگلہ دیش نے ہر موقعے پر اپنے کھلاڑیوں کو پاکستان بھیجنے پر ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے۔ کیا بنگلہ دیش کے کرکٹ آفیشلز کو یہ نظر نہیں آتا کہ ابھی حال ہی میں کراچی کے انٹرنیشنل سطح کے 3 میچ کرائے گئے اور اس میں کئی ملکوں کے انٹرنیشنل کھلاڑیوں نے شرکت کرکے اس افواہ سازی کے ڈھنڈورا باکس کو ناقص کر دیا کہ ہمارے یہاں سیکوریٹی مسئلہ ہے۔ کیا ہماری عوام یہاں نہیں رہ رہی ہے، کیا ہمارے کرکٹر یہاں نہیں رہ رہے ہیں۔ یہ ہمارے کرکٹ آفیشلز یہاں نہیں رہ رہے ہیں۔ ایک ناگہانی اٹیک کا بہانہ بنا کر مسلسل کرکٹ ٹیم کو نہ بھیجنا ان کی ہٹ دھرمی نہیں تو اور کیا ہے۔
مان لیا جائے کہ وہ واقعہ جو لاہور میں رونما ہوا تھا جس کی بنا پر آپ ٹیم نہیں بھیج رہے تو موجودہ واقعہ کو بھی یاد رکھیں جب کراچی میں انٹر نیشنل سطح کے کھلاڑیوں نے آکر میچ کھیلا اور کسی قسم کا کوئی سیکوریٹی مسئلہ درپیش نہیں ہوا اور ان تمام کھلاڑیوں نے یک زبان ہوکر یہ کہا کہ پاکستان میں کرکٹ بحال ہونا چاہیئے کیونکہ یہاں کوئی سیکوریٹی کا مسئلہ نہیں ہے۔
اب جبکہ ہمارے چیئرمین صاحب نے ایک منصفانہ ایکشن لیا ہے کہ اگر آپ نہیں آئیں گے تو ہم بھی اپنے کھلاڑیوں کو BPLمیں اپنے کھلاڑیوں کو بھیجنے کے پابند نہیں تو انہیں اپنے ملک میں BPLکا انعقاد خطرے میں پڑتا محسوس ہو رہا ہے۔ اور دوسرے معنوں میں کمائی کا ذریعے کے رُکنے کا خطرہ درپیش نظر آیا تو موصوف نظم الحسن صاحب نے ذکاء اشرف سے ملاقات کرکے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔ان کے ذکاء اشرف صاحب کو منانے کیلئے آنے میں ایک اور راز پوشیدہ ہے کہ اگر ہمارے کھلاڑی وہاں نہیں گئے تو ان کا BPL نہ صرف بے مزہ ، بے وقعت اور بے کار ہو جائے گا بلکہ اس ٹورنامنٹ کا مزہ بھی جاتا رہے گا۔
Pakistan Cricket Team
میرے بھائی تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ مگر آپ تو تالی صرف ایک ہاتھ سے ہی بجانے پربضد ہیں۔ ایسا کہاں ہوتا ہے۔ آپ کو سوچنا چاہیئے تھا کہ پاکستان نے آپ کو IIC میں نائب صدارت بھی تحفے میں دے دی وہ بھی صرف اس لئے کہ آپ اپنی ٹیم ہمارے بھیج کر ہمارے یہاں کرکٹ بحال کرنے میں معاون ثابت ہونگے ،مگر آپ نے تو وہ عہدہ بھی لے لیا اور اپنی ٹیم بھی بھیجنے سے مُکر گئے۔ ہم تو اب بھی لچک دکھانے کے لئے تیار ہیں اور یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اپنی ٹیم بھیجیں ، سیکوریٹی اپنی جان سے بڑھ کر فراہم کریں گے ۔ Lets come to play only۔ آپ آئیں ، کرکٹ کھیلیں تا کہ ہمارے یہاں کرکٹ کی سرگرمیاں بحال ہو سکیں اور ہم آپ کو اپنا دوست تصور کر سکیں، کیونکہ ہم نے آپ کو ٹیسٹ کیپ دلوایا، ہم ہی آپ کو کرکٹ کی ہر سطح پر معاون و مددگار رہے۔ کرکٹ کے تمام رموز سے ہم نے ہی آپ کو روشناس کروایا، ہماری دوستی اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے ، اب آپ بھی کچھ دوستی کے فرائض نبھا دیں تاکہ ہمارا، ہمارے عوام کا اور ہمارے کرکٹ کے شیدائیوں کا آپ پر محبت کا گمان قائم رہ سکے۔
آپ نے ہر موقعے پر کرکٹ کے میدان میں اپنے آپ کو گرگٹ بنا کر پیش کیا۔ میر پور ، ڈھاکہ میں پاکستان نے ایشیاء کپ کے فائنل میں آپ کو 02رنز سے شکستِ فاش دیا اور ایشیا کی قیادت کا تاج اپنے سر پر سجایا، مگر آپ نے اس موقعے پر بھی بجائے ہمیںمبارکباد دینے کے آپ نے تعصبات کی فضا کو فروغ دیا اور ہماری جیت کے خلاف IICمیں اپیل کر دی ۔یہ سب بچکانہ ہرکتیں ہیں اسے فروغ مت دیجئے کہ یہ کرکٹ کے لئے نیک شگون نہیں کہلاتا۔ آپ بنگلہ دیش ٹائیگرز کہلاتے ہیں تو ٹائیگر والا دل بھی پیدا کریں اور آئیں کرکٹ کھیلیں، ہم بھی انجوائے کریں اور آپ بھی انجوائے کریں اس طرح دونوں ملکوں کے تعلقات بھی مضبوط ہونگے۔
ویسے بھی لاہور پولیس نے بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کیلئے سیکویٹی پلان جو جاری کیا تھا اس کی مثال نہیں ملتی ، ان کا کہنا تھا کہ مہمان ٹیم کو صدرِ مملکت کے برابر سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ یہ فیصلہ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور غلام محمود ڈوگر کی زیرِ صدارت اجلاس میں کیا گیا تھا۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ ائرپورٹ سے ہوٹل اور ہوٹل سے قذافی اسٹیڈیم تک 2000ہزار اہلکار تعینات ہونگے۔ 80گھڑ سوار پولیس اہلکار اور کوئیک ریسپانس فورس کے دستے بھی روٹ پر گشت کریں گے جبکہ ٹیم کا روٹ سراغ رساں کتوں کی مدد سے چیک کیا جائے گا۔ ٹیم کے روٹ پر بلند عمارتوں پر شوٹر تعینات کئے جائیں گے ، ٹیم کی موومنٹ کے دوران سڑک کے دونوں اطراف ٹریفک بھی بند رکھی جائے گی۔ اس کے علاوہ محکمہ داخلہ سے ہیلی کاپٹر بھی طلب کر لیا جائے گا۔ اتنا فول پروف انتظام کرنے کے باوجود آپ نے ہمارے یہاں آکر کھیلنے کو ترجیح نہیں دی۔ IICنے بھی اس موقعے پر اپنے فرائض ادا نہیں کئے اس کا مطلب ہے کہ ہمارے یہاں کرکٹ کی بحالی میں آپ سمیت IICبھی مخلص نہیں۔
Dhaka High Court
یہ پہلو بھی درگزر نہیں کیا جا سکتا کہ آپ ہی کے ملک میں ڈھاکہ ہائیکورٹ نے صرف چار ہفتوں کیلئے کرکٹ ٹیم کا دورہ منسوخ کیا تھا ، لیکن ان چار ہفتوں میں اور آج تک آپ نے پاکستان کے دورے کیلئے اپنے حلقہ بگوش کو اعتماد میں نہیں لیا۔ یہ کیس بھی آپ ہی کے مسٹر پروفیسر خان دیدارالسلام (ڈھاکہ ڈفوڈل یونیورسٹی) اور بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے وکیل کمال حسین نیازی نے ہائی کورٹ میں فائل کیا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان کی سیاسی صورتحال بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے حق میں نہیں، میرے دوست! سیاست الگ چیز ہے اور کرکٹ سیاست سے مبرا ہوتا ہے۔ آپ کے ان ذہین دوستوں کو اس بات میں تمیز کرنا چاہیئے تھا۔ اگر کوئی شخص عدالت سے رجوع بھی کر لیتا ہے تو بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ کا یہ فرض بنتا تھا کہ وہ فوری طور پر اپیل کرتا اور سپریم کورٹ میں جاتا وہاں اپنے مؤقف تفصیلاً بتایا جاتا انہیں قائل کیا جاتا مگر ایسا نہیں ہو سکا اور نہ بنگلہ دیشی کرکٹ آفیشلز نے ایسا کرنا مناسب سمجھا۔ ہمیں تو اس بات پر حیرانگی و پریشانی ہے کہ کرکٹ کا معاملہ عدالت میں گیا ہی کیوں،تمام شواہد اکھٹا کرنے پر راقم اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ یہ انوکھا واقعہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔
میں اس فیصلے پر تنقید کرنے کا مجاز نہیں ہوں مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ یہ دورہ اس قسم کا نہیں تھا کہ جس میں کوئی قانونی مسئلہ درپیش ہوتا۔ اگر اسی طرح کے فیصلے آتے رہے تو کرکٹ روکنے کی روایت پڑ جائے گی جس سے کرکٹ پر اور کرکٹ کے شیدائیوں پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔ درخواست گذاروں کے اس اقدام سے پاکستان اور بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے درمیان تعلقات نہایت کشیدہ صورت اختیار کر گیا ہے ۔ ان محرکات کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کرکٹ بورڈ، پاکستانی شائقینِ کرکٹ اور دنیا بھرکے شائقینِ کرکٹ کو شدید مایوسی کا سامنا بھی ہے۔امید ہے کہ بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ ان تمام معاملوں کا از سرِ نو جائزہ لیکر اپنی حکمتِ عملی وضع کرے گا تاکہ کرکٹ اور کرکٹ کے شائقین کرکٹ سے دور نہ رہیں۔