سفر کوئی بھی ہو انسان کو نئی نئ راہوں نئی نئی منزلوں سے روشناس کرواتے ہوئے اس کے محدود علم میں نت نئے تجربوں کا اضافہ کرتے ہوئے اس کی علمی حیثیت میں گرانقدر اضافہ کرکے اسکو منزلِ مقصود تک پہنچادیتا ہے ـ
2009 میں اردو لنک ڈاٹ کام جیسے عالمگیر شہرت کے حامل پلیٹ فارم پے پہنچنا اور اردو ٹائپنگ سیکھنا قدرت کی طرف سے وہ ابتدا تھی جو میں تین سال پہلے سوچ بھی نہیں سکتی تھی ـ ابھی اردو ٹائپنگ سیکھ رہی تھی کہ وہاں کے ڈائریکٹر مہتاب احمد نے لائبریری اور فورم بنا ڈالا ـ لکھنے کا شوق تو تھا ہی لیکن ذہن زنگ آلود اور ہاتھ روانی سے ٹائپنگ کرنے سے بے بس ـ لیکن شوق نے ڈرتے ڈرتے لکھنے پے آمادہ کیا اور خوشگوار حیرت ہوئی جب اردو لنک ممبران نے تحریر کو سراہا ـ اس کے بعد جھجھک اتری اور پھر آج تک تحریر کا سفر اپنی ذہنی قابلیت کے مطابق جاری رکھا ہوا ہے ـ
لکھنے کا آغاز کیا تو پتہ چلا کہ خاندانی اثرات کسے کہتے ہیں میرا سارا خاندان شعبہ صحافت سے منسلک ہے ـ شادی سے پہلے کالج میگزین میں لکھا لیکن بی اے کے رزلٹ سے پہلے شادی ہو گئی اور فورا شادی کے بعد پیرس آمد نے گھریلو ذمہ داریوں نے جو تحریر کا سلسلہ موقوف کر دیا ـ جو اردو لنک ڈاٹ کام کی لائبریری فورم نے پھر سے زندہ کر دیا ـ فرانس میں روٹین لائف تھی ـ اس اردو لنک کے فورم نے جیسے پیاسے کوعلمی آبِ حیات پِلا دیا ہو ـ آج تین سال ہونے کو آئے میں قلم تو نہیں چلا سکی لیکن ٹائپ اتنا کر دیا کہ شائد ابھی تک کسی اور پاکستانی خاتون نہیں کیا ہوگا ـ
computer file management
شائد میں واحد ہی ایسی لکھنے والی ہوں جس کا تحریری مواد اس کے پاس کاغذ میں لکھا ہوا موجود نہیں ہے ـ آج تک کسی تحریر کیلیۓ تانا بانا نہیں بُنا کوئی واقعہ متاثر کرتا ہے تو قدم خود بخود ڈیسک ٹاپ کی طرف اٹھتے ہیں ـ انگلیاں کی بورڈ پے مچلنے کیلۓ بیتاب دکھائی دیتی ہیں ـ ہر کام ادھورا رہتا ہے جب تک وہ سوچ وہ خیال جامع تحریر کی صورت نہ ڈھل جائے ـ الحمد لِلہ ہمیشہ !! فی البدیہہ لکھا انگلیاں ٹائپ کرتی ہیں اور دماغ خیال دیتا ہے ـ
میرا ذاتی مسئلہ کچھ ایسا ہے کہ میرے پاس ان بڑے مصنفین صدف شازیہ عندلیب کی طرح اتنا وقت نہی ہوتا کہ میں سکون سے مطالعہ کر کے پھر اپنی تحریر کو اور زیادہ جازبِ نظر بنا سکوں ـ اسی لئے تو کہیں کہیں جھول رہ جاتا ہے ـ
ڈنمارک کی معروف شاعرہ مصنفہ صدف مرزا سے تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ فرانس کی چھوٹی سی علمی ادبی دنیا سے ہٹ کر کوئی اور بھی بہت بڑی ادبی محفل ہے ـ جس سے یہ صدف مرزا وابستہ ہیں ـ فون پر ان سے ہونے والی گفتگو سے ان کی ذہانت دلچسپ انداز بیاں اور علمی سطح کا اندازہ کر چکی تھی ـ یہ محترمہ مجھے دو باتوں سے حیران کر گئیں ـ ایک تو مصنفہ شاعرہ اور ادیبہ ہیں یعنی ہمہ جہت شخصیت ہیں ـ پھر ان کی تحریریں بچگانہ انداز میں نہیں بلکہ مضبوط معتبر عنوانات کے ساتھ ان کی وسیع علمی سوچ کی مظہر ہیں ـ پختہ خیال شاعرہ اور بہترین کالم نگار اچھوتے منفرد مشکل عنوانات پے لکھنا ان کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ـ یورپ بھر میں ادبی شناخت اپنے کام کی وجہ سے رکھتی ہیں ـ ادبی دنیا کی نامور ہستیوں میں شمار ہوتی ہیں ـ
معروف شعراء کرام کے ساتھ پروگرامز کرتی ہیں بہت وسیع قابل قدر شخصیات پر مبنی ادبی حلقہ رکھتی ہیں ـ ٹی وی پروگرامز کرتی ہیں ـ جس دوسری بات نے مجھے کئی دنوں تک حیران کئے رکھا وہ تھا صدف کی فیس بک اوپن کرنے کے بعد حیرت انگیز جھٹکا ـ یورپ خواتین کی ظاہری شخصیت پے عمرکے اثرات بڑی حد تک کم ڈالتا ہے ـ لیکن یہ پہلی خاتون ہیں جو خود بضد ہیں خاتون لکھوانے پر ـ یہ کسی بھی طرح سے اپنے مہین نازک سے سراپے سے خاتون نہیں لگتیں ـ مگر ان کو بڑی بننے کا جنون ہے ـ میری طرح برملا کہتی ہیں میں بہن نہیں ماں ہوں ـ ماں بننے کے بعد بھی خود کو لڑکیوں کی صف میں کس خوف سے رکھا جاتا ہے یہ حیرت انگیز سوال ہے جس کا جواب کوئی جدت پسند خاتون تو دے سکتی ہیں مجھ جیسی ماں نہیں ـ
صدف مرزا کا خوبصورت ترو تازہ چہرہ مجھ جیسی کشمیرن کو بھی کبھی کبھار حیرت زدہ کر جاتا ہے ـ ان کے پاس ایسا کونسا آزمودہ نسخہ ہےـ کہ یہ محترمہ آگے جانے کی بجائے عمر کی ٹائم مشین کو سیٹ کر کے مسلسل نازم اندام سی لڑکی نظر آتی ہیں ـ ایک خیال یہ بھی آیا کہ حسن وآرائش کی دِلدادہ “” قلوپطرہ”” ان کو کوئی کم عمر رہنے کا قدیم نسخہ تو نہی دے گئی ؟
ان کے چہرے کی بشاشت اور تروتازگی کا راز اس دن کھلا جس دن میں نے ان کی تحریر کو پڑھا ـ ان کی شاعری کو دیکھا تب پتہ چلا کہ انسان کے سراپے پے اس کی سوچیں اس کا اندازِ فکر بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے ـ اس خاتون کی سوچ بہت مضبوط بہت غیر جانبدار اور وطن پرستی پے مبنی ہے صاف واضح خیال کوئی الجھاؤ نہیں ـ
پاکستان پے ان کا کلام پڑہوں تو اش اش کر اٹھتی ہوں اتنے پیارے انداز میں لکھتی ہیں کہ میں تجھے بچا سکتی تو زیور بیچ کر ہی بچا لیتی ـ یہ منفرد سوچ یہ خیال ماں کو ہی آ سکتا ہے ـ کسی الہڑدوشیزہ کو نہیں ـ جتنے دقیق مسائل پے یہ تحقیقاتی مضامین جس عرق ریزی سے تحریر کرتی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے ـ ان کا لائبریری جا کر گھنٹوں کتب کو کھنگالنا ڈینش زبان پے عبور رکھتے ہوئےان کتابوں سے اپنے پاکستان کے لٹریچر کا موازنہ کرنا بلاشبہ بہترین کاوش ہے ـ
میری ایک تو تعلیم ہی کم ہے دوسرے کچھ ذاتی مسائل ایسے ہیں کہ میں باہر کم جاتی ہوں سوائے اہم ترین پاکستانی پروگرامز کے میرا نکلنا مشکل ہے ـ اور اس میں میرے رب نے میرے لیۓ بہت رحمت رکھی ہے ـ میں بندوں کے شر سے بچ جاتی ہوں مسائل سے واسطہ کم پڑتا ہے ـ میں اپنے رب کے قریب ہو رہی ہوں ـ دین کو بہترین انداز میں جانچ رہی ہوں پرکھ رہی ہوں ـ اپنی ذات کی خامیوں کو کمیوں کو دور کرکے خود کو اس قابل بنانے کی کوشش میں ہوں کہ میرا رب مجھے قبول کر لے اور اس کی رضا کے ساتھ رہنا سیکھ لوں ـ
بات ہو رہی تھی میرے محدود دائرے کی تو اس دائرے میں جہاں چند لوگوں سے روابط ہوں ـ وہاں ایکدم آپ کو صدف جیسی دوست ملے اور آپ کو بین القوامی شہرت کے حامل ڈاکٹر تقی عابدی صاحب سے متعارف کروائے تو بلاشبہ اسکو آپ قدرت کی طرف سے گھر میں آیا ہوا تحفہ خداوندی سمجھیں گے ـ
ڈاکٹر صاحب سے طویل طویل گفتگو ہوئیں ان کا انٹرویو کیا لاتعداد باتوں کا علم ہوا ـ ان کی علمی خدمات کے چرچے تو سنے تھے لیکن لیکن حوالہ تحریر کرتے ہوئے بہت الگ سی خوشی محسوس ہو رہی تھی ـ پیرس میں یہ اعزاز بھی مجھے ہی حاصل ہے کہ سب سے پہلے ان کا انٹرویو ہماری بین القوامی ویب سائٹ جذبہ پے شائع ہوا ـ اس انٹرویو میں ادا کئے گئے الفاظ میری اردو کو مزید وسعت دے گئے ـ ڈاکٹر صاحب کو جب میں نے جھجھکتے ہوئے اپنی کتابوں کے لنکس دیے تو بہت تحمل سے بولے کہ”” میں فرصت میں سکون سے پڑھنا پسند کروں گا””
Faiz Fahmi
میرا خیال تھا کہ وہ اتنے مصروف انسان ہیں کہہ کر بھول جائیں گے ـ ایک طرف سرجن ہوں دوسری طرف ادبی میلان اتنا ہو تو ایسے افراد کے پاس وقت نہیں ہوتا ـ لیکن باوقار شخصیت کے حامل ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف وہ لنکس اوپن کئے بلکہ بغور ان کا مطالعہ بھی کیا اور مجھے بڑے منفرد انداز میں ان کی رائے ملی کہ بہت شاندار کام ہے ـ میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے ـ
“”فیض فہمی”” وہ کتاب جس میں ڈاکٹرصاحب نے 800 صفحات پے مشتمل آرٹیکل تحریر کیا ہے ـ جس کا ہر صفحہ صادقین کے واٹرکلراسکیچ سے اور زیادہ دیدہ زیب اورقیمتی بنایا گیا ہے ـ فیض صاحب کی ادبی خدمات کے حِوالے سے پوری دنیا میں پروگرامز کا انعقاد کروایا گیا ـ اسی ضمن میں ڈنمارک میں 29 اگست کو شام فیض منائی جا رہی ہے ـ جس میں فرانس کو یہ فخر حاصل ہے کہ مجھے وہاں مدعو کیا گیا ہے ـ بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب بہت شکریہ صدف جی اس عزت افزائی کیلیۓ ـ مجھ جیسی خاتون کیلیۓ بلاشبہ میرے اللہ کی طرف سے اور آپ جیسی مخلص پیاری دوست کی طرف یہ بہت بڑا تحفہ ہے ـ جس کیلیۓ میں آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں ـ
میری کچھ نجی مجبوری ہے ـ جو ڈاکٹر صاحب بخوبی جانتے ہیں ـ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ جب کام کیا تو وہ میرے اس مسئلے کو سن رہے تھے اور حیرت زدہ تھے کہ میں کیسے ٹائپ کرتی ہوں ( میرا بیٹا ) ـ میں ڈنمارک تو نہیں پہنچ پاؤں گی ـ پروگرام کی شاندار کامیابی کیلیۓ دل سے دعاگو ہوں ـ صدف جیسی منجھی ہوئی
خوش گفتار خوش شکل میزبان ہوـ جس کا چہرہ تروتازہ گلاب دکھائی دیتا ہو تو پروگرام شروع ہوتے ہی پروگرام ناظرین کی بھرپور توجہ سے کامیاب ہدف تک پہنچ جاتا ہے ـ
ڈاکٹر تقی عابدی!! آپ کا شکریہ آپ نے ڈنمارک میں منعقد ہونے والے اس تاریخی پروگرام کے آغاز سے پہلے ہی محترمہ صدف کو میرے لیۓ یہ کتاب دے دی ـ جس کا آجکل چرچا ہے فیض فہمی کے نام سے ـ
ڈاکٹر تقی صاحب کی طرف سےمجھے “” فیض فہمی “” جیسی تاریخی تحقیقی کتاب کا دیا جانا میرے لئے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے ـ”” فیض فہمی”” اس صدی کی نادر کتاب ہےـ میں بہت خوش نصیب ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کے ادبی گروپ کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی مجھے یہ کتاب بھجوائی ـ صدف سے بہت جلد ملاقات ہوگی ـ جہاں یہ امانت مجھے دیں گی انشاءاللہ ـ
ڈاکٹر صاحب اس عنایت پر آپ یقینا ادبی شخصیت ہیں ـ ادبی خدمات کے حوالے سے درست لوگوں کی پہچان رکھتے ہیں ـ جو کسی سیاسی ڈِیل کے تحت منظر عام پے نہیں لائے جا رہے ـ بلکہ اپنی محنت اپنی لیاقت اپنی صداقت اور کام میں ایمانداری سے آج آپ کی نظر میں ہیں ـ
انشاءاللہ !! اس کتاب کو پوری سچائی کے ساتھ پڑھ کر پھر اس پرآرٹیکل لکھوں گی ـ آرٹیکل کے آغاز میں یہ ضرور لکھوں گی نوجوان لوگ بالخصوص سولہ سال سے کم عمر لوگ نہ پڑہیں ـ
آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ادبی دنیا میں اللہ کرے کہ شفاف گوہر نمایاں ہو کر سامنے آئیں جو سیاسی بغض عداوت سے پاک ہوں اور صرف نمود ونمائش کے خواہش مند نہ ہوں ـ بلکہ ہم جیسے کم علم بھی جب ان کا کام دیکھیں تو بے ساختہ کہہ اٹھیں کہ دوسری صدف مرزا ہےـ
تحفے!! میں فیض فہمی جیسی کتاب دینے پر ڈاکٹر تقی عابدی صاحب آپ کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتی ہوں ـ آج ہونے والے ڈنمارک پروگرام کی کامیابی کیلیۓ دعاگو ہوں ـ امید ہے کہ پ جیسی تاریخی شخصیت دوبارہ پیرس آنا پسند کرے گی ـ