علامہ صاحبزادہ حسنات احمد مرتضے نے کہا ہے کہ قربانی کرنامسلمان،صاحب نصاب ، مقیم و آزاد پر واجب ہے۔ ۔قربانی ہر صاحب استطاعت مسلمان پر واجب ہے ۔وہ شخص جواستطاعت کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ کیسے عید گا ہ میں آتا ہے ۔ حالانکہ اسے قربانی کی اہمیت باور کرانے کے لئے کہا گیا ہے کہ جب قربانی نہیںکرنی تجھے چاہیے کہ تو عید گا ہ بھی نہ آئے ۔حضرت ابو ہر یرہ فرماتے ہیں ،رسول اللہ ۖ نے فرمایا ۔من کان لہ سعة ولم یضح فلا یقربن مصلانا جو آدمی وسعت (استطاعت ) رکھتا ہو اور پھر بھی قربانی نہ کرے اسے چاہئیے کہ وہ ہماری عید گا ہ کے قریب نہ آئے ۔قربانی کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو حضرت ابراہیم کی بے مثا ل قربانی دکھائی دیتی ہے ۔ قربانی ہو یا کوئی اور عبادت ، اصل مقصود تو اللہ تعالی کی رضا اور اطاعت ہے ۔ حضرت ابراہیم نے پیرانہ سالی میں پیدا ہونے والے فرزند جناب اسماعیل کو قربان کرنے کے لئے ماتھے کے بل لٹا کر فرمانبرداری ، اطاعت اور قربانی کا نا قابل فراموش نمونہ پیش کیا۔ ایثار و قربانی ، محبت ورضا ، اور خوشنودی والی سبق آموز تاریخ قرآن کریم کی سورہ صفٰت کی دس آیات میں ملاحظہ ہو۔
٫٫ اے میرے رب ! عطا کر مجھے صالح اولاد ۔سو ہم نے انہیں ایک برد بار بیٹے کی بشارت سنائی ۔چنانچہ وہ پہنچا ان کے ساتھ اس عمر کو جس میں محنت کی جاسکتی ہو تو فرمایا ابراہیم نے اے میرے بیٹے ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے میں ذبح کر رہا ہوں اب بتائو ! تمہاری رائے کیا ہے ؟ بیٹے نے کہا اے میرے والد گرامی ! کر گزریں جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے ،اللہ نے چا ہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے ۔پس دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا ۔ اور ہم نے اسے آواز دی یہ کہ ٫٫اے ابراہیم ،،۔بے شک آپ نے خواب سچ کر دکھا یا ، یقین جا نو کہ ہم نیکو کاروں کو یوں ہی جز ا دینے والے ہیں ۔بے شک یہ ایک آزمائش تھی کھلی ۔اور ہم نے ان کے فدیے میں ایک بہت بڑی اور شان دار قربانی رکھی ۔ اور ان کا عظیم ذکر پچھلوں تک میں چھوڑ دیا ۔ سلام ہو ابراہیم پر ۔مخلصین کوہم اسی طرح جز ا دیتے ہیں ۔(الصفت 100.110)
ان آیات میں باپ بیٹے کی آزمائش اور عظیم تر قربانی کا ذکر کیا گیا ہے ۔ بوڑھے والد کے کام کاج میں مددکے لئے بیٹا جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ ہی رہا تھا کہ قربانی کا حکم آگیا ۔ پھر کیا باپ و بیٹا دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا ۔حضرت ابراہیم نے اپنے فرزند کا بھی امتحان لیا اور رائے پوچھی ۔ اطاعت شعار بیٹے نے والد گرامی کی بارگاہ میں رب العزت کے حکم پر لبیک کہا ۔ قربانی کے دن (عید الضحی )آدمی کا کوئی عمل اللہ تعالی کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں ۔بے شک قیامت کے دن وہ جانور اپنے سینگوں ،بالوں اور کھروں کے ساتھ حاضر ہو گا ۔خون زمین پر گرنے سے قبل وہ رب کریم کی بارگاہ میں مقام قبول پر پہنچ جاتا ہے ۔پس تم خوش دلی کے ساتھ یہ عمل کرو ۔
حضرت ابو سعید فرماتے ہیں رسول اللہ ۖ نے فر مایا اے فاطمہ اپنی قربانی کی طرف آئو اور(ذبح کے وقت ) اسکے پاس مو جود ہو ۔بے شک اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے کے ساتھ ہی تمہارے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے تو آپ نے عرض کی ۔یارسول اللہ ۖکیا یہ ہم اہل بیت کے ساتھ خاص ہے یا ہمارے لئے بھی اور مسلمانوں کے لئے بھی ؟ آپ نے فرمایا یہ ہمارے لئے بھی اور مسلمانوں کے لئے بھی ۔ رسول کریم ۖ اپنے دست مبارک سے ذبح فرماتے ۔ مسلم شریف کی حدیث اس بات کی شاہد ہے ۔ حضرت انس روایت کرتے ہیں نبی ۖ نے دو گندمی رنگ کے سینگ والے مینڈھوں کو قربانی کے لئے اپنے ہاتھ سے ذبح فرمایا ، آپ نے بسم اللہ اور اللہ اکبر کہا اور اپنا قدم مباارک ان کے پہلو پر رکھا ۔ نبی ۖ ایک اپنی اور ایک اپنی امت کی جانب سے ذبح فرماتے ۔امت کی جانب سے ذبح کرتے ہوئے اللہ تعالی کانام لینے کے بعد فرماتے ۔ اللھم تقبل من محمد وال محمد ومن امة محمد ۔ اے اللہ ! محمد ۖ ،آل محمدۖ ، اور امت محمد ۖ کی طرف سے قبول فرما ۔ ترمذی میں ہے کہ حضرت علی المرتضی دو مینڈھے قربانی کیا کرتے تھے ۔ ایک رسول کریم ۖ کی جانب سے اور ایک اپنی جانب سے ، جب آپ سے پو چھا گیا تو فرمایا کہ مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں اس عمل کو کبھی ترک نہیں کروں گا ۔
قربانی کرنے کے بہت سے فوائد ہیں ۔ ان فوائد میں آخروی اعتبار سے قربانی کر نا باعث ثواب بھی ہے ۔اللہ تعالی ہر بال کے بدلے نیکی عطا فرماتا ہے ۔ اس کے اجر و ثواب کے حوالے سے سنن ابن ماجہ کی حدیث کامفہوم یہ ہے ۔ حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ ۖ یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ انہوں نے عرض کیا ہمارے لئے اس میں کیا اجر ہے ؟ آپ نے فرمایا ہر بال کے بدلے نیکی ہے ۔ انہوں نے عرض کیا کھال کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا کھال کے ہر بال کے بدلے نیکی ہے ۔