امریکہ کی طرف سے لگائے جانے والے بے بنیاد اور اشتعال انگیز الزامات پر پاکستان کی ٹھوس دلائل پر مبنی وضاحتوں اور ظاہری اور پس پردہ سفارتی کوششوں کے باوجود امریکہ کی سیاسی اور فوجی قیادت کے جارحانہ رویے میں کوئی کمی نہیں آئی صدر باراک اوباما کے مشیر اعلی بروس ریڈل نے امریکی میڈیا میں وائٹ ہاس کے موقف کی رعونت آمیز تشریح کرتے ہوئے پاکستان کے مغرور اور خودسر ہونے کی وجوہات بیان کی ہیں اور کہا ہے کہ پاکستانی جرنیل سمجھتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں میں ابھی بہت سے پتے موجود ہیں انہوں نے اس الزام کو پھر دہرایا کہ کابل میں امریکی سفارتخانے پر حملے کے دوران طالبان کے خودکش دستے کا پاکستان میں اپنے آقاں سے موبائل فون پر مسلسل رابطہ رہا انہوں نے سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کے قتل میں طالبان کی مبینہ کوئٹہ شوری کے ملوث ہونے کا بھی دعوی کیا۔ اگرچہ توقع کی جا رہی ہے کہ امریکہ ایسی کوئی خطرناک حرکت نہیں کرے گا جس سے اس خطے کے حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں کہ دنیا کا امن خطرے میں پڑ جائے لیکن اعلی امریکی عہدیدار یکے بعد دیگرے بالاصرار پاکستان کے خلاف جو زہریلا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس پس منظر میں جمعرات کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس طلب کی ہے جس میں وزیر خارجہ اور عسکری حکام امریکہ سے تعلقات میں کشیدگی اور اس کے مضمرات پر بریفنگ دیں گے۔ تقریبا تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں نے کانفرنس میں شرکت کی حمایت کی ہے تاہم اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن نے اس کی مخالفت کئے بغیر مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان پر امریکی الزامات اور ملکی سلامتی کی صورتحال پر مکمل بحث کے لئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے ۔اس حقیقت کے باوجود کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاسوں میں منظور ہونے والی پچھلی قراردادوں پر بھی ابھی عمل درآمد نہیں ہوا اصولی طور پر مسلم لیگ ن کا مطالبہ جمہوری روایات کے خلاف نہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ملک بھر سے عوام کے منتخب نمائندے اپنی اپنی رائے کا اظہار کریں گے اس سے ایک مربوط اور مضبوط قومی حکمت عملی وضع کرنے میں مدد ملے گی اور امریکہ پر بھی واضح ہو گا کہ اپنے ملک کی سلامتی اور خود مختاری کے حوالے سے پاکستانی عوام کے جذبات کیا ہیں اور ان کا عزم و حوصلہ کتنا بلند ہے مگر اس سے پہلے مختلف سیاسی پارٹیوں گروپوں اور اہم شخصیات کی نمائندگی پر مبنی آل پارٹیز کانفرنس کی افادیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا اس کانفرنس میں وہ پارٹیاں اور گروپ بھی شریک ہوں گے جن کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں اس طرح وسیع ترقومی اتفاق رائے کا ایک ماحول پیدا ہو گا جو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے فیصلوں کو متفقہ اور موثر بنانے میں بھی مدد دے گا سیاسی پارٹیوں کو سیاسی مصلحتوں اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہو کر کانفرنس میں شرکت کرنی چاہئے اور اسے بامقصد بنانے کے لئے اپنی بصیرت اور صلاحیتوں کو پورے اخلاص کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے۔ ان دو فورموں کو متحرک کرنے کے علاوہ وفاقی کابینہ اورکابینہ کی دفاعی کمیٹی کے اجلاس بھی مختصر وقفوں کے ساتھ منعقد کئے جائیں تاکہ موجودہ بحران سے نمٹنے کے لئے سیاسی اور عسکری تمام پہلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹھوس فیصلے اور اقدامات کئے جا سکیں۔ دوسرے ملکوں میں اس طرح کی روایات موجود ہیں دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل قوم کو متحرک اور باخبر رکھنے کے لئے روزانہ اپنی کابینہ اور پارلیمنٹ کے اجلاس منعقد کرتے تھے۔صورتحال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کیلئے سعودی عرب، چین اور بعض دوسرے دوست ممالک کی سفارتی کوششیں قابل قدر ہیں مگر قومی قیادت کو معاملے کے تمام پہلوں پر گہری نظر رکھنی چاہئے اور سیاسی دفاعی اور عوامی تینوں محاذوں پر ہر قسم کے حالات کے مقابلے کے لئے مکمل تیاری کی حالت میں رہنا چاہئے تاہم حالات کو سنبھالنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری اس وقت امریکہ کی سیاسی اور فوجی قیادت پر عائد ہوتی ہے جو انتہا پسندی کے راستے پر چل نکلی ہے امریکی عوام کو بھی معاملے کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اپنی قیادت کو معقولیت پسندی کی طرف لانا ہو گا اور اسے باور کرانا ہو گا کہ ان کی کسی مہم جوئی کی صورت میں پاکستان سے زیادہ نقصان امریکہ کا ہو گا۔ وہ اس خطے میں پاکستان کی حمایت کے بغیر ماضی میں قدم جما سکا ہے نہ آئندہ جما سکے گا عراق اور افغانستان میں ظاہری کامیابیوں کے پیچھے اس کی ناکامیوں کی ایک طویل فہرست چھپی ہوئی ہے پاکستان سے محاذ آرائی اسے مزید مہنگی پڑے گی امریکی عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق وہ 143 ٹریلین ڈالرقرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے جبکہ اس کے زرمبادلہ کے محفوظ ذخائر صرف 140 بلین ڈالر رہ گئے ہیں اس کی معیشت بتدریج ڈوب رہی ہے اور دنیا کو ڈالروں کے عوض غلام بنانے کی صلاحیت تیزی سے کم ہو رہی ہے امریکی لیڈر شپ کو خدشہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں عوام اس سے ان ناکامیوں کا حساب لیں گے اسے یہ بھی پتہ ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی ہزیمت کا رائے دہندگان کے سامنے کوئی معقول جواز پیش نہیں کر سکے گی اس لئے اس نے سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ انتہا پسندی اگر دہشت گردوں کے چھوٹے چھوٹے گروپوں کے لئے نقصان دہ ہے تو امریکہ جیسی سپرپاور کے لئے بھی مفید نہیں عالمی برادری خصوصا اقوام متحدہ اور دوسرے بین الاقوامی اداروں کو امریکہ کے اس جارحانہ طرز عمل کا نوٹس لینا ہو گا امریکہ نے پاکستان کے خلاف اچانک کشیدگی کی جو فضا پیدا کر دی ہے وہ دنیا کے تمام امن پسند ملکوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے پاک فوج کے سربراہ جنرل کیانی نے اس بحرانی صورتحال کی وجہ سے برطانیہ کا دورہ ملتوی کر کے ایک بروقت اور درست فیصلہ کیا ہے اس سے برطانیہ پرحالات کی سنگینی واضح ہونی چاہئے اور اسے امریکہ کو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ دینا چاہئے۔ جہاں تک پاکستانی قوم کا تعلق ہے تو تجربہ یہ ہے کہ اس کی صلاحیتیں بحرانوں ہی میں ابھرکرسامنے آتی ہیں۔ بے شمار داخلی مشکلات کا شکار ہونے کے باوجود اس کا عزم جواں اور حوصلے بلند ہیں خیبر پختونخوا اسمبلی نے امریکی الزامات کے خلاف متفقہ قرارداد مذمت منظور کر کے قوم کے اسی عزم و حوصلے کی دلیرانہ ترجمانی کی ہے یہ قرارداد ایک صوبے کی نہیں پوری قوم کے جذبات و احساسات کی ترجمان ہے اب یہ حکومت اور سیاسی و فوجی قیادت کا کام ہے کہ وہ یک جان و یک زبان ہو کر ملکی سلامتی اور قومی وقار کے تحفظ کے لئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ فیصل آباد کی اسکول بس کو پیش آنے والا المناک حادثہ موٹروے پر للہ کے قریب بریک فیل ہونے سے اسکول بس کھائی میں جاگری۔ حادثے میں 26طلبا سمیت 37افراد جاں بحق 78شدید زخمی ہوگئے۔ اسکول کے وائس پرنسپل بھی جاں بحق ہونے والوں میں شامل ہیں۔ اس المناک خبر کے سننے کے بعد متعلقہ طلبااور اساتذہ کے گھروں میں قیامت صغری برپا ہوگئی۔ بس میں 105طلبا اور متعدد اساتذہ سوار تھے۔ ہمارے یہاں اس قسم کے المناک حادثات کی بنیادی وجہ کھٹارہ اور انتہائی ناقص بسوں کا استعمال اور غیر تربیت یافتہ ڈرائیور ہیں جو ٹریفک ضابطوں سے مکمل بے خبر ہوتے ہیں۔ بیرونی ملکوں میں ایسے حادثات سے بچنے اور ناقص بسوں کا استعمال روکنے کیلئے ہرسال بسوں کی مکمل فٹنیس اور قابل استعمال ہونے کا باقاعدہ سرٹیفکیٹ لینا پڑتا ہے اور مکمل چیکنگ کے بعد یہ سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے اس کے علاوہ کسی غیر تربیت یافتہ ڈرائیور کو ڈرائیونگ کی ذمہ داری سونپنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے ،پبلک ٹرانسپورٹ کا تو ذکر ہی کیا سرکاری طور پر چلائی جانے والی اکثر بسیں بالکل کھٹارہ اور ناقابل استعمال ہیں اور ٹرانسپورٹر کم معاوضے پر غیر تربیت یافتہ ڈرائیوروں کو ذمہ داری سونپنے کے علاوہ ان کے اوقات کار میں بھی زیادہ سے زیادہ اضافہ کرکے ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈرائیور بھی اوور ٹائم کے لالچ میں مقررہ اوقات سے زیادہ فرائض انجام دینے کو ترجیح دیتے ہیں اس صورتحال کے نتیجے میں المناک حادثات ایک معمول بن کر رہ گئے ہیں اور انتہائی قیمتی انسانی جانیں حادثات کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ردعمل کے طورپر لوگ ان بسوں کو نذر آتش تو کردیتے ہیں لیکن اس سے انسانی جانوں کے ضیاع کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ اگر ماضی کی طرح ان حادثات میں جانی اور مالی نقصان کا زر تلافی ٹرانسپورٹ مالکان سے وصول کرنے کے قانون پر عملدرآمد کیا جائے تو اس سے بھی حادثات میں کمی ہوسکتی ہے۔ بہرحال یہ حادثہ انتہائی المناک ہے جس سے درجنوں گھروں کے چراغ بجھ گئے اللہ تعالی بچوں کے ورثا کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس حادثہ کی تحقیقات کے بعد ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے میں تاخیر نہ کرے۔