قومی اسمبلی نے توہین عدالت بل کی منظوری دیدی

N A

N A

اسلام آباد : (جیو ڈیسک) قومی اسمبلی نے توہین عدالت بل دو ہزار بارہ کی کثرت رائے سے منظوری دے دی۔ مسلم لیگ ن نے بل کی شدید مخالفت کی۔

ن لیگ کا موقف تھا کہ حکومت عدلیہ پر قدغن لگانا اور پارلیمنٹ کو عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہیتی ہے۔ن لیگ نے سعد رفیق ، خرم دستگیر اور کپٹن صفدر نے کہا کہ وزیراعظم کو بچانے کے لیے حکومت توہین عدالت قانون میں ترمیم کرنا چاہ رہی ہے جسے عدالت کی طرف سے پذیرائی نہیں ملے گی۔

وفاقی وزیر خورشید شاہ نے کہا کہ توہین عدالت کے قانون میں ترمیم سے عدلیہ کے اختیارات میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مشرف دور کا قانون ختم کرنا چاہتے ہیں۔ فاٹا کے رکن ظفر بیگ نے کہا کہ عدلیہ کے بعض فیصلوں سے ملک کی جڑیں ہل گئیں ۔ پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا وہ اختیار بھی دیا گیا جو خود عدلیہ کے پاس بھی نہیں تھا۔

ایوان میں توہین عدالت بل کی کثرت رائے سے منظوری دی گئی جس کے تحت توہین عدالت کی سزا کے خلاف اپیل کا دورانیہ تیس دن سے بڑھا کر ساٹھ دن کردیا گیا ہے۔ توہین عدالت پر چھ ماہ قید ، ایک لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکیں گی۔ توہین عدالت کا نوٹس دینے والا جج بنچ کا رکن نہیں ہوگا۔ توہین عدالت کی سزا کے خلاف اپیل پر فیصلہ آنے تک پچھلی سزا معطل رہے گی۔ عوامی عہدے پر فائض کسی شخص کے خلاف توہین عدالت لاگو نہیں ہوگی۔ فاروق ایچ نائیک نے ایوان میں اکیسویں ترمیم کا بل پیش کیا جس کے تحت ججز کی بیواؤں کی پنشن پچاس سے بڑھا کر پچھتر فیصد کردی جائے گی۔