قیامِ عدل یا سیاسی بصیرت

pakistan politics

pakistan politics

اطالوی فلسفی نیقولا میکاولی نے اپنی مشہور کتاب دی پرنس میں حکومت اور اخلاقیات میں عملی طور پر مکمل علیٰحدگی کرکے اخلاقی اصولوں سے سیاست کی آزادی کا اعلان کر دیا اور اس نے اپنا یہ نقطۂ نظرعام کیا کہ امورِ سلطنت میں اخلاقی اصولوں کے نفاذ کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اس نے حکمراں کے لیے یہ جائز قرار دیا کہ وہ عام طور پر رحمت و سفقت اور انسانیت نوازی و دین داری کا مظاہرہ کرے، لیکن اگر مصلحت کا تقاضا ہوتو وہ اس کے بالکل برعکس عمل کر سکتا ہے۔ اس کا مفروضہ تھا کہ انسان کا مزاج مطلب پرستی اور خود پسندی کاہے، اس لیے اس نے سیاست دانوں کو نصیحت کی کہ عوام پر حکومت کے وقت اسی حقیقت کو اپنے پیش نظر رکھیں۔اس کا خیال تھا کہ انسان اپنی طبیعت کے اعتبار سے شرارت پسند ہے اور عقل مند حکمراں کو اپنی سیاست کی بنیاد اسی نقطہ پر رکھنی چاہیے۔ بیرونی سیاست میں میکاولی چھوٹی ریاستوں کے مقابلہ میں بڑی سلطنتوں کی تشکیل کا قائل تھا۔ اسی طرح اس کا خیال تھا کہ حکمراں کو اپنے تصرّفات و اعمال میں انسان و حیوان دونوں کے اسالیب کو جمع کرنا چاہیے۔ اگر حیوانی وسائل کی ضرورت پڑے تو اس کو لومڑی اور شیر کی مثال سامنے رکھی چاہیے۔ اس کو بیک وقت لومڑی اور شیر بننا چاہیے۔ اگر وہ شیر نہیں ہوگا تو وہ اس جال کو ہر گز نہیں دیکھ سکے گا جو اس کے لیے نصب کیا جائے گا اور اگر وہ لومڑی نہ ہو تو بھیڑیوں سے مقابلہ نہ کر سکے گا، اس لیے اس کو ایک ساتھ لومڑی اور شیر ہونا چاہیے، یہ بھی یاد رہے کہ وسائل کا نہیں بلکہ نتائج کا اعتبار ہوتا ہے، یعنی مقصد کا حصول وسیلہ کے جواز کے لیے کافی ہے۔
میکاولی کی تعلیمات عام ہوئیں تو ان کو یورپ نے اپنایا، بادشاہوں اور فوجی قائدین نے انھیں اپنا شعار بنایا، سیاست دانوں کے رجحانات اخلاقی انارکی کی طرف مائل اور جعل و فریب، مکر و سازش کی بنیاد پر قائم ہوئے۔ اس کے نتیجے میں انتہائی ظلم، دھوکہ و سنگ دلی پر مبنی جنگیں برپا ہوئیں، جن میں عورتیں، بوڑھوں، بچوں اور رحم مادر میں پرورش پانے والے جنینوں تک کو انتہائی سفاکی سے قتل کیا گیا، ممالک تباہ و برباد کیے گئے، زمین میں ہر طرح کا فساد پھیلایا گیا اور قیدیوں کو سخت ترین تکلیفیں دی گئیں، حتّٰی کہ انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔میکاولی کا تو ١٥٢٧ء میں انتقال ہو گیا لیکن اس کا مسلک اس کی موت کے تقریباً ایک صدی بعد تک یورپی ممالک کے حکم رانوں میں رائج رہا جنھوں نے اعلیٰ اخلاقی قیود و حدود سے آزاد ہوکر میکاولی فلسفہ کا خوش دلی سے استقبال کیا۔جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مطلب پرستی اور ذاتی منفعت حکومت کا سیاسی شعار ہے۔ اگرچہ بعد میں بعض سیاست دانوں نے میکاولی کے خیالات و افکار کے خلاف جنگ بھی کی لیکن وہ از سرِ نو لوٹ کر آج دنیا کے بیش تر ممالک کا مقبول ِ عام مذہب بن چکا ہے۔ چنانچہ آج ہم جو مطلب پرستی، خودغرضی، ظالمانہ تسلط، دوہرے معیار کی بدولت عالمی سیاسی تعلقات میں انحراف، اعلیٰ اخلاقی اقدار سے محرومی دیکھتے ہیں وہ اسی نقطۂ نظر کے مظاہر ہیں۔جدید زمانوں میں میکاولی اور اس جیسے دیگر افکار یورپ میں عام ہوئے۔ بعد میں ان کی کچھ مخالفت بھی ہوئی اور بعض مصلحین نے ان کے خلاف خطرہ کی گھنٹی بجائی اور بسا اوقات ان پر سخت حملے بھی کیے لیکن عملی دنیا میں لوگ انہیں اصولوں کو اپنا راہنما بنائے رہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ معاصر عالمی سیاسی تعلقات میں ظلم و استبداد، تسلّط اور غلبہ، رسوخ و نفوذ کی کش مکش اور طاقت و قوت کے متنوع وسائل حاصل کرنے کی کوشش عام ہے۔صورتحال یہ ہے کہ آج د نیا میں پائی جانے والی چھوٹی و بڑی طاقتیں اپنی اندورنی سیاست میں ان ہی اخلاقی برائیوں کا شکارہیں۔اس کے باوجود نہ سیاسی قائدین کی کمی ہے اور نہ ہی سیاسی پارٹیوں کی۔معاملہ یہ ہے کہ ہر صبح ایک نئی سیاسی پارٹی عوام الناس کی فلاح و بہبود کے نعروں کے ساتھ وجود میں آجاتی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ سیاسیات ہے کیا؟ آئیے اس کو  ماہرین علم سیاسیات کی تعریفات کی روشنی میں سمجھاجائے۔
سیاسیات کیا ہیلغوی مفہوم کے اعتبار سے علم سیاسیات سے مراد ریاست کا علم ہے۔ موجودہ دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تر قی کے باعث ریاست کی ہیت میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ چنانچہ ان تبدیلیوں کے باعث علم سیاسیات بھی ارتقائی منازل طے کرتا چلا گیا ہے۔ علم سیاسیات کی تعریف کرتے ہوئے ارسطو کہتا ہے کہ ”علم سیاسیات شہری ریاستوں کا علم ہے۔” یہ تعریف بہت سادہ ہے اور علم سیاسیات کے جدید تصور کا احاطہ نہیں کرتی۔ دور جدید کے ماہرین علم سیاسیات کی تعریف کے ضمن میں مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ بعض علم سیاسیات کو ریاست کا علم کہ کر پکارتے ہیں اور بعض حکومت کا علم جبکہ بعض مصنفین علم سیاسیات کو ریاست اور حکومت دونوں کا علم قرار دیتے ہیں۔
ریاست کا علم : چند ماہرین علم سیاسیات کو صرف ریاست کا علم ہی سمجھتے ہیں ان کے نزدیک اس علم کا مطالعہ صرف ریاست تک محدود ہے۔ ان مصنفین کی تعریفات درج ذیل ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر گارنر۔ “علم سیاسیات کی ابتدا اور انتہا ریاست ہے۔”
گریس۔ ” تمام اختیارات کا سر چشمہ ریاست ہے اور علم سیاسیات ریاست کی اہمیت مقاصد اور معاشی و معاشرتی مسائل سے بحث کرتا ہے۔”
بلخچلی۔ ” علم سیاسیات ریاست کا علم ہے جو ریاست کے بنیادی حالات اسکی نوعیت اور اسکی ظاہری حیثیت کی روشنی میں اس ادارہ کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔”
جی ایچ جیمز۔ ” علم سیاسیات ریاست سے شروع ہوتا ہے اور ریاست پر ہی ختم ہوتا ہے۔”
ان تعریفات کا مرکزی خیال ایک ہی ہے کہ علم سیاسیات بنیادی طور پر ریاست سے متعلق ہے۔ اور اس علم میں مختلف پہلووں سے ریاست کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ گویا یہ مصنفین حکومت کے مسائل کو علم سیاسیات کی بحث میں شامل نہیں سمجھتے۔ مزید براں ان تعریفات میں بہت سے سیاسی موضوعات و نظریات مثلاً رائے عامہ، سیاسی جماعتوں، انتخابات، آزادی اور مساوات وغیرہ کا ذکر نہیں ہے۔
حکومت کا علم۔ بعض مصنفین کے نزدیک علم سیاسیات صرف حکومت سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کی تعریفات میں ریاست کا ذکر نہیں ملتا۔ ان مصنفین میں سے اہم تعریفات درج ذیل ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر سٹیفن لیکاک۔  “سیاسیات ایسا علم ہے جو حکومت سے تعلق رکھتا ہے۔”
پروفیسر سیلے۔ علم سیاسیات حکومت کے حقائق کی جستجو کرتا ہے جس طرح کہ معاشیات دولت سے تعلق رکھتا ہے۔ بیالوجی زندگی سے، الجبرا اعداد سے اور جیومیٹری ، جگہ اور اسکی وسعت سے۔
ان تعریفات میں ریاست کا ذکر نہیں ملتا۔ علم سیاسیات کے مطالعہ کو فقط حکومت تک محدود کرنا درست نہیں کیونکہ ا س طرح اس علم کی وسعت محدود ہو جاتی ہے۔
ریاست اور حکومت کا علم۔ بعض مصنفین زیادہ حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ علم سیاسیات کا تعلق حکومت اور ریاست دونوں سے ہے۔ اسے صرف ریاست یا حکومت کا علم کہ دینا مناسب نہیں۔ ایسی تعریفات درج ذیل ہیں۔
پروفیسر گلکرائسٹ۔ “علم سیاسیات ایسا علم ہے جو ریاست اور حکومت دونوں کی نوعیت سے بحث کرتا ہے۔”
گیٹل۔  ” علم سیاسیات ریاست اور ریاستوں کے مابین تعلقات سے تعلق رکھنے والا علم ہے اور یہ حکومت کے مختلف اداروں سے بھی بحث کرتا ہے۔”
پال جینٹ۔ ” فرانسیسی مصنف پال جینٹ کا کہنا ہے کہ علم سیاسیات عمرانی علوم کا وہ حصہ ہے جو ریاست کی بنیادوں اور حکومت کے اصولوں سے تعلق رکھتا ہے۔”
پروفیسر ڈاکٹر لاسکی۔  علم سیاسیات ریاست کے علاوہ حکومت کی تنظیم اور ارتقاء کا بھی احاطہ کرتا ہے۔
ای سی سمتھ۔ ” علم سیاسیات معاشرتی علوم کی ایک شاخ ہے جو ریاست کے نظریے اور تنظیم اور حکومت اور اسکی کارکردگی سے متعلق ہے۔”
اسلام میں سیاست کا مفہوم۔ اصل میں سیاست  “ساس” سے مشتق ہے جو یونانی لفظ ہے ، اس کے معنی شہر و شہرنشین کے ہیں اسلام میں سیاست اس فعل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصلاح سے قریب اور فساد سے دو رہوجائیں۔اہل مغرب فن حکومت کو سیاست کہتے ہیں ،امور مملکت کا نظم ونسق برقرار رکھنے والوں کوسیاستدان کہا جاتا ہے۔
قرآن میں سیاست کا ذکر۔ قرآن کریم میں لفظ سیاست تو نہیں البتہ ایسی بہت سی آیتیں موجود ہیں جو سیاست کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں، بلکہ قرآن کا بیشتر حصّہ سیاست پر مشتمل ہے، مثلاً عدل و انصاف ، ا مر بالمعروف و نہی عن المنکر ،مظلوموں سے اظہارِ ہمدردی وحمایت ،ظالم اور ظلم سے نفرت اور اس کے علاوہ انبیائاور اولیء کرام کا اندازِ سیاست بھی قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ وقال لہم نبیّہم انّ اللّٰہ قد بعث لکم طالوت ملکاً ، قالوا انّی یکون لہ الملک علینا و نحن احق بالملک منہ ولم یوت سعة من المال قال انّ اللّٰہ اصطفہ علیکم وزادہ بسطة فی العلم والجسم واللّٰہ یوتی ملکہ من یشآء  واللّٰہ واسع علیم(سورہ بقرہ: ٧٤٢ )  “ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے طالوت کو تمہارے لیے بادشاہ مقرر کیا ہے۔ یہ سن کر وہ بولے: ”ہم پر بادشاہ بننے کا وہ کیسے حقدار ہو گیا اس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں۔ وہ تو کوئی بڑا مالدار آدمی نہیں ہے”۔ نبی نے جواب دیا:”اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغ و جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور اللہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے، اللہ بڑی وسعت رکھتا ہے او ر سب کچھ اس کے علم میں ہے “۔ اس آیت سے ان لوگوں کے سیاسی فلسفہ کی نفی ہوتی ہے جو سیاست کے لئے مال کی فراوانی وغیرہ کو معیار قرار دیتے ہیں ،سیاست کے لئے ذاتی طور پر ” غنی ” ہونا کا فی نہیں ہے بلکہ اسے عالم وشجاع ہونا چاہئے۔اس نفی میں یہ بات بھی مخفی ہے کہ سیاست داں جہلا نہ ہوں اوروہ ایسے افرادبھی نہ ہوں جو ذاتی اغراض کے تحت لوگوں کی خدمت کا دم بھرتے ہوں۔ اس کے برخلاف اسلام خدمت انسانیت اور فلاح و بہبود کے کام کو مذہبی عبادت کا درجہ اور خدمت ِ خلق کی ذمہ داری کو روحانی بلندی کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔
اس کے برخلاف آج دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہو رہا ہے اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ جس شخص کو دوسروں پر بالاتری حاصل ہے وہ یا تو اپنی طاقت کو نادانی اور جہالت کے ساتھ استعمال کر رہا ہے ، یا وہ بے رحم اور سنگدل ہے ، یا بخیل اور تنگ دل ہے ، یا بد خو اور بد کردار ہے ، طاقت کے ساتھ ان بری صفات کا اجتماع جہاں بھی ہو وہاں کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اقتدار کا سر چشمہ کیونکہ اللہ کی ذات کے سوا کوئی نہیںاسی لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز کے ساتھ اس کے حکیم و علیم اور رحیم و غفور اور حمید و وہاب ہونے کا ذکر لازماً کیا گیا ہے تاکہ انسان یہ جان لے کہ جو خدا اس کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے وہ ایک طرف تو ایسا کامل اقتدار رکھتا ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک کوئی اس کے فیصلوں کو نافذ ہونے سے روک نہیں سکتا، مگر دوسری طرف وہ حکیم بھی ہے ، اس کا ہر فیصلہ سراسر دانائی پر مبنی ہوتا ہے۔ علیم بھی ہے ، جو فیصلہ بھی کرتا ہے ٹھیک ٹھیک علم کے مطابق کر تا ہے۔ رحیم بھی ہے ، اپنے بے پناہ اقتدا کو بے رحمی کے ساتھ استعمال نہیں کرتا۔ غفور بھی ہے ، اپنے زیر دستوں کے ساتھ خرْدہ گیری کا نہیں بلکہ چشم پوشی و درگزر کا معاملہ کرتا ہے۔ وہاب بھی ہے ، اپنی رعیت کے ساتھ بخیلی کا نہیں بلکہ بے انتہا فیاضی کا برتاؤ کر رہا ہے۔ اور حمید بھی ہے ، تمام قابل تعریف صفات و کمالات اس کی ذات میں جمع ہیں۔ اب یہ صفات اگر ان لوگوں میں پیدا ہو جائیں جو اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو نافذ کرنے والے ہوں تو انسانیت کے لیے وہ خیر و فلاح کا ذریعہ بنیں گے۔عوام کی نظر میں محبوب ہوں گے اور لازماً اقتدار میں آئیں گے، قبل اس کے کہ وہ عظیم قربانیاں پیش کر چکے ہوں۔
قیامِ عدل اور موجودہ سیاست۔ موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ فل الوقت نظام ِ حکومت اور ریاست کا نظم و نسق جن بنیادوں پر قائم ہے اس میں میکاولی کے نظریہ و فلسفہ پرہمارے سیاستداں منجملہ عمل پیرا ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ملک کی صورتحال پر نگاہ ڈالی جائے یا عالمی سیاست ،دونوں ہی مقامات پر ان طور طریقوں کو اپنایا جا رہا ہے جس سے عوام الناس پریشان ہیں ۔چونکہ اسلام رفاہ عامہ کے کاموں کو عبادت سے تعبیر کرتا ہے ،یہاں انسان تو انسان بھوکے جانوروں کو چارہ ڈالنا اور پانی پلانا آخرت میں نجات کا ذریعہ ٹھہرایا گیا ہے پس اسی نکتہ کے تحت مسلمان سیاسی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔اب جو لوگ اس نکتہ کے گرد جمع ہو جائیں ،ان کی قدر کی جانی چاہیے،ان کے حوصلوں کو بلندکرنا چاہیے، ان کی مدد اور تعاون کیا جانا چاہیے اور ان کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر اتحاد و یگانگت کا ثبوت فراہم کرنا چاہیے۔یہ وہ لوگ ہیںجو ذاتی اغراض سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی فلاح و بہود کے لیے اٹھے ہیں۔اُن حالات میں جہاں ظلم و ذیادتی اور ناانصافی اپنے عروج پر ہے۔ایسے لمحہ اگر اسلامی جذبۂ خدمت خلق ، رفاہ عامہ اور قیام عدل کے لیے کوئی اٹھے تو کیونکر وہ اللہ یا اس کے بندوں کی نگاہ میں سزا کا مرتکب ٹہرے۔
تحریر :  محمد آصف اقبال، نئی دہلی