امریکا میں 6 نومبر2012 بروز منگل کو صدارتی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں ماہِ رواں کی چھ تاریخ امریکی صدارتی الیکشن کے حوالے سے اِس لئے بھی خاصی اہمیت رکھتی ہے کہ امریکا کے انتخابی شیڈول میں یہ بات واضح ہے کہ ملک میں چار سال بعد جب بھی صدارتی انتخابات کا انعقاد کیاجائے گا وہ ماہِ نومبر کا پہلامنگل ہی ہوگاخواہ اِس روز تاریخ کچھ بھی ہومگر دن ماہِ نومبر کے پہلے ہفتے کا پہلامنگل ہی ہوگااِس مرتبہ بھی صدارتی انتخابات میں امریکاکی دوبڑی پارٹیاں جن میں ایک ڈیموکرٹیک پارٹی ہے جس کی بنیادروشن خیال، لبرل سوچ اور جمہوریت پسندی پر قائم ہے اور جس کے صدارتی اُمیدوار موجودہ امریکی صدر مسٹر بارک اوباما ہیں جن کا انتخاباتی نشان ”گدھا”(ڈونکی) ہے۔
جبکہ دوسری جانب اوباما کے مدمقابل مسٹرمٹ رومنی ہیں جن کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہے جن کی پارٹی کے بارے میں امریکیوں اور دنیا بھر کے مبصرین کا ایک عام اورمشترکہ خیال یہ ہے کہ رومنی کی پارٹی کے نظریات اور سوچ خالصتاََقدامت پسندی اور راسخ العقیدہ بنیادوں پر قام ہے جن کا انتخابی نشان” ہاتھی” (ایلیفینڈ)ہے اِن دوپارٹیوںسے تعلق رکھنے والے اُمیدوار اپنی اپنی عالمی شخصیت کے حوالے سے قدآور حیثیت رکھتے ہیں ابھی جب ہم یہ سطور رقم کررہے تو امریکا ہی سے ایک خبر یہ آئی ہے کہ تازہ ترین سروے کے مطابق اوباما اور رومنی کی حمایت 48,48فیصدہوگئی ہے یوں راقم الحروف کی نظر میں امریکی انتخابا ت میں سخت ترین مقابلہ متوقع ہے ۔
تاہم موجودہ امریکی صدر مسٹر بارک اوباما جن کا انتخابی نشان ”گدھا” ہے اِن کے بارے میں مبصرین کا یہ کہناہے کہ گزشتہ چار سالوں میںبارک اوباما نے دنیابھرمیں امریکی وقار وخارجہ پالیسی اور معیشت کوجس دانشمند ی سے روشناس کرایااور امریکی نوجوانوں کو اپنا گرویدہ بنایاہے یہ اِن ہی کا خاصہ ہے یوںاِس مرتبہ بھی اُمیدہے کہ اپنا انتخابی نشان ” گدھا” پسندکرنے والے مسٹربارک اوباما چھ نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں کامیاب ہوجائیں گے اور اپنی فہم وفراست اور اعلیٰ حکمتِ عملی سے امریکا اور امریکی شہریوںکو طالبان سمیت اور دیگرشرپسندعناصر سے محفوظ رکھنے میں اپنی اہم ذمہ داریاں نبھائیںگے مگراِس کے ساتھ ساتھ مبصرین کا یہ بھی کہناہے کہ ” اگر اِس بار اوباما پھر کامیاب ہوجاتے ہیں تو اِنہیں اپنی حکومت کے آئندہ چار سالوں میں کئی اندورنی اور بیرونی چیلنجزکا سامنابھی کرناپڑ سکتا ہے۔
اگر اِن چیلنجز سے نبردآزما ہونے میں اوباما اور اِن کی انتظامیہ ذرابھی ڈھیلی ہوئی تو پھر آئندہ ڈیموکرٹیک پارٹی کو انتخابات میں کامیابی حاصل کرنی مشکل ہوجائے گی یوں چھ نومبر2012کے انتخابات ڈیموکریٹک پارٹی کے کامیاب ہونے والے اُمیدوار مسٹر بارک اوباما کے لئے سخت امتحان ثابت ہوں گے جنہیں امتحان میں کامیابی کے لئے ضروری ہوگاکہ یہ اپنی خارجہ پالیسی بالخصوص پاکستان، افغانستان کی موجودہ صُورتحال سمیت مشرقی وسطیٰ کے معاملات میں ذرابھی لچک کا مظاہرہ نہیں کرناہوگا اوراگر اِنہوں نے اِن معاملات میں لچک دکھائی تو یہ اپنی مدت پوری کرنے سے قبل ہی اپنے ماتھے پر ناکامی کا ٹیکہ اور سینے پر نااہلی کا تمغہ لگالیں گے۔
Mitt Romney
اُدھر رپبلکن پارٹی کے اُمیدوار مسٹر مٹ رومنی جن کا انتخابی نشان ” ہاتھی”ہے اِن کی پوزیشن بھی بڑی حد تک مضبوط نظرآرہی ہے کیوں کہ رومنی نے کئی امریکی ریاستوں میں اپنے مباحثوں کے دوران موجودہ امریکی صدر بارک اوباماکی پالیسیوں پر جس طرح تنقیدیں کیں ہیں اِن کی اِن تنقیدوں نے کئی حوالوں سے اوباما کو لاجواب کردیاتھااور یہ اپنی پیشانی پر آئے پیسنے کے قطروں کو مارے گھبراہٹ کے صاف کرتے نظر آئے چوں کہ ہی وہ لمحہ تھاکہ جس نے امریکیوں کو مٹ رومنی کا گرویدہ بنایا اور اِن کے دلوںمیںرومنی نے جگہہ بنالی۔
بہرحال..!امریکیوں سمیت عالمی سطح پر قوی خیال یہ بن گیاہے کہ مٹ رومنی خواہ کتنے ہی اچھے کیوں نہ بن جائیںمگراِن کی پارٹی جو قدامت پسندی اور راسخ العقیدہ رکھنے والی جماعت ہے اِس کی کامیابی ممکن نہیںہے کم ازکم اِس مرتبہ تو مشکل ہی ہے ہاں اگرآئندہ کبھی اِس نے اپنے منشور اور قدامت پسندی اور راسخ العقیدہ رویوں اور نظریئے کو تبدیل کیاتو ہوسکتاہے کہ امریکا میں آئندہ کبھی ہونے والے صدارتی انتخابات میں اِس پارٹی سے تعلق رکھنے والا کوئی اُمیدوار کامیاب ہوکر امریکی صدر بن جائے۔
مگر ہم قبل ازقت یہ پیشنگوئی کرتے چلیں کہ لوامریکی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر گدھے کے نشان والا صدر جیت گیا اور ہاتھی کے نشان والا اُمیدوار ہار گیا وہ گدھا جِسے ہم پاکستانیوں کی اکثریت بد عقل سمجھتی ہے آج ایک مرتبہ پھر ہم اور ہمارے پاکستانی حکمران، سیاستدان ، اور دانشورورانِ پاکستا ن گدھے کے انتخابی نشان والے کامیاب صدربارک اوباما اور اِس کی انتظامیہ سے اپنے اُمورمملکت چلانے کے لئے رہنمائی لیں گے( اور گدھے کے ہی دیئے ہوئے) میرامطلب یہ ہے گدھے کے انتخابی نشان والے صدر کے مشوروں ، امدادوں، اور گائیڈلائینوں پر اپنی اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں گے اور پوترہوتے جائیں گے۔
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ ہمارے حکمران آخرایسا کیوں نہ کریں..؟ تو خود ہی جواب دے ڈالتا ہوں کہ ارے بھئی..! اِنہیںاپنی دال دلیہ بھی توچلانی ہے جو امریکی صدر کی خوشامدکرنے ہی سے اِنہیں نصیب ہوتی ہے بھلے سے امریکی صدر کوئی گدھاہویا اِس کا انتخابی نشان گدھاہو… اورارے ہاں..! ہمارے میڈیاکے تو کیاکہنے صدارتی انتخابات توامریکامیں ہورہے ہیںمگر اپنے پاکستانی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا (سرکاری و نجی ٹی وی چینلزاور اخبارات )کے انتظامات اور اہتمام جس میں اِنہوںنے اپنے چار اور پانچ نومبر کو امریکی صدارتی انتخابات کے حوالے سے خصوصی پروگرام دکھائے اور اسپیشل صفحات نکالے ہمیں اِنہیں دیکھ کر ایسالگاکہ جیسے یہ انتخابات امریکا کے نہیں ہمارے اپنے انتخابات ہورہے ہیں۔
جب اِس بات کا تذکرہ ہم نے اپنے سنیئر لکھاری دوست کالم نگار محمد احمد ترازی سے کیاتو اُنہوں نے ترنت کہااِس میں بھی کیا کوئی شک ہے ..؟یہ ہمارے ہی انتخابات تو ہیںکیوں کہ پاکستان میں جس طرح پچھلی کئی دہائیوں سے امریکیوں کی مداخلت بڑھ گئی ہے اِس سے توایساہی لگتا ہے کہ جیسے ہمارا ملک پاکستان امریکی کالونی بن گیا ہے یہ بات یکدم درست ہے کہ امریکی صدر خواہ کوئی بھی ہواِس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو وہ اپنی کرسی سنبھالتے ہی امریکی خارجہ پالیسی میں پاکستان کو ترجیحی دیتا ہے اور اپنی دانش سے ایسے اقدامات کرتاہے جس میں امریکی زیادہ مگر پاکستانیوں کے مفادات آٹے میںنمک جتنے بھی نہیں ہوتے ہیں۔
بہرکیف ..! یہاں میں اپنے قارئین کو یہ بتاتاچلوں کہ گدھا ایک ایسا جانور ہے جو ساری دنیا میں پایا جاتا ہے مگربد قسمتی سے جِسے برصغیر پاک و ہند اور دنیاکے دیگر ترقی پزیدممالک میں احمق ، نادان اور ایک بیوقوف جانور سمجھا مگرحیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا کی سُپر طاقت گرداننے والے ملک امریکا میں یہ عقل مندی اور محنت کش جانور کی حیثیت سے جانا اور پہچانا جاتا ہے تب ہی تو امریکا میں زیادعرصے تک حکمرانی کرنے والی ڈیموکرٹیک پارٹی کا انتخابی نشان گدھا ہے اَب چوں کہ گدھے کی اہمیت اور اِس کے امریکی وقار اور احترام کی بات چل نکلی ہے تو یہاں میں اپنے بیٹے کا بھی تذکرہ کرناضروری سمجھتاہوں گوکہ ابھی یہ ہے تو ساڑھے تین سال کا مگر مجھے جانوروںمیں اِس کی پسندیدگی کے حوالے سے حیرانگی ہوتی ہے کیوں کہ اُسے سب جانوروں میں گدھاسب سے زیادہ پسندہے گدھے سے اِس کی محبت اور عشق کا یہ عالم ہے کہ جب اِسے راہ چلتے ، اسکول جاتے ، بازار جاتے یامیرے ساتھ گاڑی میں سفرکرتے کہیں بھی گدھانظر آجائے تویہ گاڑی رکواکر اِس کے منہ پر ہاتھ لگاکر پیارکئے بغیر نہیں رہ سکتاہے اِس کا یہ معاملہ گدھے کی فوٹو سے بھی ہے جب تک یہ اُسے پیار نہیں کرلیتاہے اِسے چین ہی نہیں آتا ہے کبھی کبھی تو گدھے سے اِس کی محبت اور تڑپ کا یہ عالم دیکھ مجھے ا ور اِس کی مماکو ایسالگتاہے کہ جیسے یہ امریکی بچہ ہے جو گدھے سے محبت کرتاہے اور اِس پر فداہوتاہے یہ پاکستان میں پیدا ہوگیا ہے۔
اگر امریکا میں ہوتایا مستقبل میں کبھی امریکا گیایا وہاں کا شہری بناتو یہ ایک کامیاب امریکی شہری ہوگاکیوں کہ یہ گدھے سے ٹوٹ کر محبت کرتاہے اور اگر یہ بدقسمتی سے امریکا نہ جاسکااور یہاں پاکستان ہی میں رہ گیا تو گدھاہی رہے گا کیوں کہ ہمارے یہاں گدھے کو بیوقوف اور بدعقل سمجھاجاتاہے ہاں تو میں بات کر رہا تھا امریکا کے صدارتی انتخابات کی مجھے اِس بات کا پورا یقین ہے کہ چھ نومبر کو امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈیموکرٹیک پارٹی سے تعلق رکھنے والے موجودہ امریکی صدر مسٹر بارک اوباما جن کا انتخابی نشان گدھا ہے دوبارہ صدر منتخب ہوجائیں گے اور اِس مرتبہ یہ پاکستان سے متعلق ایسی سخت ترین پالیسیاں مرتب کریں گے کہ ہم پاکستانیوں کے سرچکراکر رہ جائیں گے اِس لئے ہمیں اوباما کی حمایت کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیناہوگاکہ اُنہوں نے اپنے اقتدار کے پہلے چار سالوں میں ہم پاکستانیوں کے لئے کیا کچھ اچھاکیاہے…؟ اور آئندہ کیاکریں گے…؟ جس پر ہم اِن کی دوبارہ حمایت کریں۔