محمد رفیع کوٹلہ سلطان سنگھ گاؤں میں پیدا ہوئے۔ رفیع نے لاہور ریڈیو پر پنجابی نغموں سے اپنے سفر کی ابتدا کی۔ رفیع نے تقسیم ہند سے قبل کئی فلموں میں نغمے گائے۔
نغموں کا یہ جادوگر امرتسر کے کوٹلہ سلطان سنگھ گاؤں میں پیدا ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت ان کی گلی میں ایک فقیر آتا تھا جو بلند آواز میں گیت گاتا تھا رفیع کو اسے گنگناتا دیکھ ان کے بڑے بھائی نے استاد وحید خان کی سرپرستی میں انہیں تعلیم دلائی۔ رفیع نے لاہور ریڈیو پر پنجابی نغموں سے اپنے سفر کی ابتدا کی۔ پہلی پنجابی فلم گل بلوچ میں انہوں نے اپنا گیت زینت بیگم کے ساتھ ریکارڈ کیا۔
کہا جاتا ہے کہ ایک روز کندن لال سہگل کا پروگرام تھا۔ وہ اپنے وقت کے مشہور گلوکار تھے اور انہیں سننے کے لیئے سینکڑوں کا مجمع، بجلی فیل ہونے کی وجہ سے سہگل نیگانے سے انکار کر دیا۔ اسی وقت رفیع کے بھائی نے پروگرام کے منتظمین سے کہا کہ ان کا بھائی بھی ایک گلوکار ہے اور اسے موقع دیا جائے۔
مجمے کی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے رفیع کو گانے کا موقع دیا۔ 13 سال کی عمر میں انہوں نے سٹیج پر گیت گایا۔ اسی پروگرام میں موسیقار شیام سندر موجود تھے۔ انہوں نے ایک جوہری کی طرح رفیع کو پرکھ لیا اور انہیں بمبئی آنے کی دعوت دی۔ بس یہیں سے رفیع کا یادگار سفر شروع ہوا۔
تقسیم ہند سے قبل انہوں نے کئی فلموں میں نغمے گائے۔ فلم انمول گھڑی میں ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ ان کا گایا یہ گیت یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے ان کے ہزارہا یاد گار نغموں میں سے ایک ہے۔
رفیع کی زندگی میں سب سے بڑا موڑ اس وقت آیا جب موسیقار اعظم نوشاد نے انہیں گانے کا موقع دیا۔ اس وقت نوشاد علی اور طلعت محمود کی جوڑی بہت کامیاب تھی نوشاد کا ہر گیت طلعت گاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک روز نوشاد نے طلعت کو گانے سے قبل سگریٹ پیتے دیکھ لیا۔
اصولوں کے پکے نوشاد بہت برہم ہوئے اور انہوں نے طلعت کے بجائے رفیع کو چن لیا۔ رفیع نے زندگی میں کبھی سگریٹ یا شراب کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ نوشاد کے ساتھ رفیع کی جوڑی بہت کامیاب رہی۔ بیجوبارا کے سارے نغمے ہٹ ہوئے۔ من تڑپت ہری درشن کو آج، جیسا کلاسیکی گیت ہو یا چاہے مجھے کوئی جنگلی کہے کا چنچل نغمہ رفیع کو ہر طرح کے گیت گانے میں مہارت حاصل تھی۔
انہوں نے وہ نغمے بھی گائے جسے اس وقت کے دوسرے گلوکاروں نے گانے سے منع کر دیا تھا۔ کشور کمار نے ہاتھی میرے ساتھی کا گیت نفرت کی دنیا کو چھوڑ کرگانے سے منع کر دیا تھا کیونکہ اس میں آواز کی لے کافی اونچی تھی لیکن رفیع نے یہ گیت گایا اور بہت مقبول ہوا۔
نغمگی کا یہ سفر بہت کامیاب رہا۔ انہوں نے اردو ہندی مراٹھی، گجراتی، بنگالی بھوجپوری تمل کے علاوہ کئی زبانوں میں گیت گائے۔ رفیع کی خاصیت تھی کہ وہ جس فنکار کے لیئے گاتے اسی کی آواز اور اسی کے انداز کو اپناتے۔
فلم پیاسا میں جانی واکر کے لیے انہوں نے تیل مالش کا جو گیت گایا اسے سن کر لگتا ہے کہ سامنے جانی واکر ہی گا رہے ہیں اور اس کا اعتراف خود جانی واکر نے بھی کیا تھا۔ رفیع بہت سیدھے اور صاف دل انسان تھے۔ کئی مرتبہ انہوں نے بغیر ایک پیسہ لئے گیت گایا۔
ایک بڑے موسیقار نے رفیع کی موت کے بعد اعتراف کیا کہ ان کے پاس رفیع کو دینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ گیت ختم ہونے کے بعد انہوں نے رفیع صاحب سے نظریں نہیں ملائیں اور دنیا کو دکھانے کے لئے ایک خالی لفافہ پکڑا دیا۔ رفیع نے اسے لے لیا لیکن بعد میں ملاقات کے بعد کبھی اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا جب بھی ملے مسکرا کر ملے۔
رفیع کو ان کے گیتوں پر 6 فلم فیئر ایوارڈ مل چکے ہیں۔ حکومت نے انہیں پدم شری کے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ 36000 سے زیادہ نغمے گائے اور وہ سارے گیت آج بھی کروڑوں لوگوں کی زبان پر ہیں۔
اس سے بڑا کوئی اور اعزاز نہیں ہو سکتا۔ رفیع ایسے فنکار تھے جنہوں نے درجنوں فنکاروں کی زندگی بنا دی۔ فلم دوستی میں موسیقار شنکر جے کشن کے نغموں کو اپنی آواز دینے کے بعد وہ نغمے بہت مقبول ہوئے اور دنیا نے اس جوڑی کو پہچانا۔
تم مجھے یوں بھلا نہ پا گے، جب کبھی بھی سنو گے گیت میرے سنگ سنگ تم بھی گنگنا گے ہاں واقعی رفیع جیسے لافانی گلوکار کو بھلانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے اور برسوں گزرنے کے بعد اب یہ ثابت ہو گیا کہ ان جیسا فنکار بھارتی فلم انڈسٹری کو نہیں مل سکتا۔