رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہودی امریکی ووٹروں میں صدر اوباما کی مقبولیت میں معمولی سی کمی آئی ہے، لیکن مسلمان امریکیوں میں ان کی مقبولیت برقرار ہے ۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ صدر کو بعض یہودی ووٹروں میں اس تاثر سے نقصان پہنچا ہے کہ مسٹر اوباما نے اسرائیل کی خاطر خواہ حمایت نہیں کی ہے، اور صدارت کے بعض ریپبلیکن امیدواروں نے بھی اس معاملے کو اچھالا ہے ۔نیویارک سٹی میں امریکی کانگریس کا حالیہ خصوصی انتخاب ریپبلیکن باب ٹرنر نے جیت لیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اوباما انتظامیہ کے تعلقات کے بارے میں جو تشویش پائی جاتی ہے، اس جیت میں اس کا بھی دخل تھا۔کانگریس مین باب ٹرنر نے کہااس انتخابی حلقے کے لوگوں نے ہم سے کہا ہے کہ ہم واشنگٹن کو ایک پیغام بھیجیں اور مجھے امید ہے کہ انھوں نے یہ پیغام خوب اچھی طرح سن لیا ہے۔ٹرنر نے کہا کہ میری فتح کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ووٹرز،معیشت کی حالت سے اور صدر اوباما سے مطمئن نہیں تھے ۔ لیکن ٹرنرکوکچھ مدد نیو یارک کے سابق گورنر ایڈ کوچ سے بھی ملی۔ کوچ نے ووٹروں پر، خاص طور سے اس انتخابی حلقے میں رہنے والے آرتھاڈوکس یہودیوں پر زور دیا کہ وہ انتخاب میں ٹرنر کی حمایت کریں ۔ انھوں نے کہا کہ صدر اوباما نے اسرائیل کی حمایت میں جو کمزوری دکھائی ہے، اس طرح وہ اپنے احتجاج کا مظاہرہ کریں۔یہ وہی بات ہے جو ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی نامزدگی کے مقابلے میں دہرائی جا رہی ہے جہاں اسرائیل کی حمایت، خاص طور سے ایوانجیلیکل عیسائی ووٹروں میں، بہت زیادہ ہے ۔کئی ریپبلیکن امیدواروں نے کہا ہے کہ مسٹر اوباما نے یہ مطالبہ کر کے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو مزید رعایتیں دے، اسرائیل کے ساتھ بہت سخت موقف اختیار کیا ہے۔ ریاست ٹیکسس کے موجودہ گورنر رک پیری نے کہاہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکی انتظامیہ ایک قریبی اتحادی کو الگ تھلگ کرنے پر تیار ہے اور یہ سب اس انداز سے کر رہی ہے جو اہانت آمیز اور سادہ لوحی پر مبنی ہے۔2008 کے انتخاب میں یہودی ووٹروں نے صدراوباما کی حمایت کی تھی ،اور تاریخی طور پر وہ صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کے حامی رہے ہیں۔لیکن ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے، اوباما وائٹ ہاس اب یہودی گروپوں میں حمایت حاصل کرنے اور اسرائیل کے لیے صدر کی حمایت کا اعادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔صدارتی ترجمان جے کارنے سے ایک حالیہ نیوز بریفنگ میں اس بارے میں پوچھا گیا۔ انھوں نے کہااسرائیل کی سلامتی کے لیئے اس صدر کا عزم ،میرے خیال میں، بالکل واضح اور غیر متزلزل ہے۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہودی اور مسلمان امریکی ووٹرز فلسطینیوں کی اقوامِ متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش پر امریکہ کے رد عمل پر کڑی نظررکھیں گے ۔پولسٹر اور سیاسیات کے ماہر جان زوگ بائی کہتے ہیںعرب امریکیوں کے مقابلے میں، یہودی امریکیوں میں اہم مسائل پر کہیں زیادہ اتفاقِ رائے ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب بہت سے معاملات میں، میں نے دیکھا ہے کہ عرب امریکی کمیونٹی بہت زیادہ متحد ہو گئی ہے،جب کہ 30 برس پہلے،یہ کمیونٹی بہت سے ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تھی۔ہارورڈ یونیورسٹی کے تجزیہ کار ڈیوڈ گرجن کہتے ہیں کہ رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں اسرائیل کے لیے داخلی حمایت بہت زیادہ ہے،لیکن اس تصورکے لیے بھی حمایت موجود ہے کہ ایسا کوئی سمجھوتہ ہوجائیکہ دونوں فریق امن و امان سے رہ سکیں۔لیکن جو چیز ہم اچھی طرح جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ بالآخر اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے امنگیں پوری ہونی چاہئیں ۔ ان دونوں کو اس قابل ہونا چاہئیے کہ وہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن و امان سے رہ سکیں ۔ملکی سیاست میں صدر اوباما کے لیے بہت کچھ دا پر لگا ہوا ہے۔ اگلے سال کے صدارتی انتخاب میں وہ یہودی امریکیوں اور مسلمان امریکیوں دونوں کی حمایت برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔