شام کے صدر بشار الاسد نے حکومت مخالف ہزاروں مظاہرین کی موت کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے ایک امریکی صحافی کو بتایا کہ بے رحمانہ کریک ڈاون کرنے والی فورسز کا کنٹرول ان کے پاس نہیں۔اے بی سی نیوز کو دیا گیا ان کا یہ اہم انٹرویو بدھ کو نشر کیا جائے گا جس میں بشار الاسد نے بتایا کہ گو کہ وہ ملک کے صدر ہیں لیکن وہ ملک کے مالک نہیں لہذا وہ میری فورسز نہیں ہیں۔شام کے رہنما نے کہا کہ کریک ڈان کی ایک حکمت عملی بنانے اور کچھ حکام کی طرف سے غلطیوں کے مرتکب ہونے میںبڑا فرق ہے۔اس انٹرویو کے نشر کیے جانے سے قبل اے بی سی نیوز کے ایک صحافی نے صدر بشارالاسد کے تاثرات کا تذکرہ امریکی محکمہ خارجہ کی بریفنگ کے دوران کیا۔ ترجمان مارک ٹونر نے اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسد کی طرف سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ وہ حزب مخالف کی پرامن تحریک پر وحشیانہ کریک ڈان کے علاوہ کچھ اور بھی کررہے ہیں۔ٹونر کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے اور شام کے صدر یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کے پاس اپنے ہی ملک کے کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ایک روز قبل امریکی وزیرخارجہ ہلری کلنٹن نے بھی شام کے حزب مخالف کے سات رہنماں سے جنیوا میں ایک ایسے وقت ملاقات کی جب امریکہ اور فرانس کے سفیر ایک عرصے کے تعطل کے بعد دمشق روانہ ہوئے۔ہلری کلنٹن نے شام کی قومی کونسل کے یورپ میں جلاوطن ان رہنماں کو بتایا کہ جمہوریت کی طرف پیش رفت بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ انھوں نے کہااس کا مطلب ہے کہ ملک میں فرقے، نسل اور جنس سے قطع نظر قانون کی پاسداری اور تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے جائیں۔شام کے صدر کا تعلق علوی شعیہ مسلک سے ہے جب کہ ملک کی اکثریت سنی مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ شام میں دیگر مذاہب اور نسلوں کے لوگ بھی آباد ہیں جن میں عیسائی اور کرد بھی شامل ہیں۔